نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں طبقاتی نظام تعلیم اور سرمایہ دارانہ اثرات: سوشلسٹ حل کی ضرورت اور ضلع کوٹلی میں جاری مہنگی تعلیمی فیس مخالف مہم؟؟؟

پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں طبقاتی نظام تعلیم اور سرمایہ دارانہ اثرات: سوشلسٹ حل کی ضرورت اور ضلع کوٹلی میں جاری مہنگی تعلیمی فیس مخالف مہم؟؟؟ تحریر:- شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ، نکیال ، کوٹلی۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جموں کشمیر پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع کوٹلی میں آج کل پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی جانب سے انتہائی مہنگی فیسوں کے خلاف اور بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرانے کے لیے مہم اپنے عروج پر ہے ۔ بڑی تعداد میں نوجوان اس مہم کا حصہ ہیں ۔ مہنگی تعلیم کے خلاف یہ مہم خوش آئند ہے اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ آخر نوجوانوں کو مہنگی تعلیم کے خلاف تحفظات اور جدوجہد کرنے کا احساس ہوا ہے ۔ اس کالم کے زیر نوجوانوں اور عوام کے لیے مہنگی تعلیم کے خلاف فیسوں کو سستا کرنے اور صرف بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرانے کی عارضی اصلاحات کے مطالبات کے بجائے حقیقی پائیدار و جاندار نظریات/ اصولوں کی بنیاد پر طبقاتی نظام تعلیم کو جڑ اکھاڑ کر پھینکنے اور موجودہ مایوسیوں ، محرومیوں اور استحصال کے خاتمے کے لیے مزید راہنمائی ق ذہن سازی کے لیے مرقوم کرنا مقصود ہے ۔ تاکہ نوجوان/ عوام اس بنیادی بوسیدہ ، استحصالی اور منافع خوری کے مسلط کردہ ڈھانچہ کو جان و سمجھ سکیں اور اس کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کر سکیں۔ قارئین کرام! طبقاتی نظام تعلیم ایک ایسا تعلیمی نظام ہے جس میں تعلیم کا معیار مختلف طبقوں کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ اس میں امیر طبقہ اپنے بچوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرنے کے لیے جدید پرائیویٹ اسکولوں کا انتخاب کرتا ہے، جب کہ غریب طبقہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتا ہے، جہاں تعلیمی معیار کی کمی اور وسائل کی عدم فراہمی ہوتی ہے۔ اس نظام کی بنیاد طبقاتی تفریق پر ہوتی ہے، جو تعلیم، معیشت، سیاست، اور سماجی حیثیت میں ایک واضح فرق پیدا کرتی ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ غریب طبقہ اعلیٰ تعلیم یا جدید ترقی کے مواقع تک نہیں پہنچ سکتا، جبکہ امیر طبقہ ان تمام وسائل تک رسائی رکھتا ہے۔ سوشلزم ایک ایسا معاشی، سیاسی اور سماجی نظام ہے جو مساوات، عدلیہ اور عوامی فلاح پر مبنی ہوتا ہے۔ سوشلزم میں تعلیم اور صحت کو ہر فرد کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو یکساں اور معیاری تعلیم فراہم کرے۔ سوشلسٹ نظام کے تحت نجی تعلیمی اداروں اور صحت کے نظام کو ختم کر کے انہیں سرکاری طور پر چلایا جاتا ہے تاکہ ہر فرد کو بغیر کسی طبقاتی فرق کے تعلیم اور صحت کے برابر مواقع ملیں۔ سوشلسٹ نظریات طبقاتی فرق کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ یہ طبقاتی تفریق سماجی اور معاشی ناانصافی پیدا کرتی ہے۔ سوشلزم میں تعلیم کا مقصد صرف فرد کی ذاتی ترقی نہیں ہوتا بلکہ پورے معاشرتی نظام کی ترقی اور فلاح ہوتی ہے۔ سوشلزم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر بچے کو یکساں معیار کی تعلیم ملے، خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کے تحت، حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تعلیم اور صحت کے نظام کو عوامی مفاد میں چلائے اور ان کے درمیان طبقاتی تفریق کو ختم کرے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر ایک مقبوضہ ریاست ہے ۔جو پاکستان کی نوآبادیاتی کالونی کے طور پر کام کر رہی ہے۔ یہاں پر طبقاتی نظام تعلیم اور دیگر عوامی خدمات جیسے صحت، ریاستی استحصال اور وسائل کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانوں ، باشندگان کا بدترین استحصال عروج پر ہے اس ریاست میں تعلیمی نظام میں نمایاں تفاوت ہے، جہاں امیر طبقہ اپنے بچوں کو جدید اور مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلاتا ہے، اور غریب طبقہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتا ہے، جہاں تعلیمی معیار کمزور ہوتا ہے اور وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں، جہاں طبقاتی تفریق اور وسائل کی عدم مساوات واضح طور پر موجود ہے، سوشلسٹ نظریات تعلیم اور صحت کے نظام میں بہت ضروری ہیں۔ یہ نظریات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حکومت کو عوامی مفاد میں تعلیم اور صحت کی خدمات فراہم کرنی چاہیے، اور یہ خدمات ہر شہری کو بغیر کسی طبقاتی تفریق کے دستیاب ہونی چاہئیں۔ناکہ امیر و غریب اور سفید طبقہ کے معیار پر۔ سوشلسٹ نقطہ نظر کے تحت، نجی تعلیمی اداروں اور صحت کے اداروں کو ختم کر کے ان خدمات کو عوامی سطح پر سرکاری طور پر چلانا چاہیے تاکہ ہر شہری کو برابر کی سہولتیں ملیں اور طبقاتی تفریق کم ہو سکے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں سوشلسٹ نظریات کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ ریاست ابھی تک نوآبادیاتی اثرات اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت استحصال کا شکار ہے۔ اس علاقے میں جہاں عوام کی اکثریت غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے، وہاں تعلیم اور صحت کے نظام کی حالت انتہائی خراب ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان عوامی خدمات کو سوشلسٹ اصولوں کے تحت چلائے تاکہ ہر فرد کو یکساں اور معیاری حقوق مل سکیں۔ قوم کی عوامی جدوجہد کا مقصد اس طبقاتی تفریق کو ختم کرنا اور سوشلسٹ نظام کو نافذ کرنا ہے تاکہ تعلیم اور صحت کی خدمات عوام کے مفاد میں ہوں۔ اس کے لیے عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنا، احتجاج کرنا، اور حکومتی سطح پر اصلاحات کے لیے دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔جس طرح کوٹلی کے نوجوانوں کی موجودہ مہم بڑی جاندار اور موثر ہے۔ لیکن اس مہم سے سرکار کے بجائے منافع خور پارٹنرز ضرور پریشان ہیں ۔ سوشلسٹ نظام میں تعلیم اور صحت کو مفت اور معیاری بنانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس سے معاشرتی انصاف کی صورت پیدا ہوتی ہے اور عوام کے زندگی کے معیار میں بہتری آتی ہے۔ ہر فرد کو یکساں اور معیاری تعلیم حاصل ہوتی ہے۔ صحت کی سہولتیں ہر شہری کو یکساں ملتی ہیں۔ طبقاتی فرق کم ہوتا ہے، اور معاشرتی اور معاشی انصاف ملتا ہے۔ ترقیاتی عمل میں عوام کی بھرپور شرکت اور مساوی مواقع کی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔ تاہم، اس تبدیلی کا نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے حمایتی اس نظام کو ختم کرنے کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ انہیں اپنے مفادات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اسی لیے آج تعلیم کو کمرشل کرنے والے بھی اس ڈھانچے پر قدغن لگنے سے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں ۔ قارئین کرام! سرمایہ دارانہ نظام میں نجی اسکولز اور صحت کے ادارے معاشی فائدہ کمانے کا ذریعہ ہوتے ہیں، جس سے یہ لوگ سوشلسٹ اصلاحات کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور اس نظام کو مزہب مخالف قرار دیتے ہیں تاکہ عوام مذہبی بنیادوں پر اور منافع کی بنیاد پر اس نظام سے نفرت کریں۔ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں جہاں طبقاتی نظام تعلیم اور استحصال کی بنیاد پر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا سامنا ہے، سوشلسٹ نظریات کی ضرورت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ ان نظریات کے ذریعے ہی عوامی خدمات کو یکساں، مفت اور معیاری بنایا جا سکتا ہے۔ اب جب یہ مہم چل رہی ہے تو اس مہم کے ناقدین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں ۔ جس کے لیے سوشلسٹ اصولوں کے پیش نظر اس پروپیگنڈا کو بے نقاب کرنا بھی یہاں لازمی سمجھتے ہیں کہ تو اس کے لیے ضلع کوٹلی کے نوجوانوں اور عوام کو سب سے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ سوشلسٹ نظریات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ حکومت کے وسائل عوامی فلاح کے لیے استعمال ہوں، نہ کہ نجی اداروں اور سرمایہ دارانہ مفادات اور حکمران طبقہ کی تنخواہوں مراعات اور عیاشیوں کے لیے نہ ہوں۔ سوشلسٹ نظریات کے مطابق، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ یہ خدمات تمام شہریوں کو یکساں معیار کے ساتھ فراہم کی جائیں۔ ایسی ریاستیں جہاں وسائل زیادہ ہوں اور حکومتی حکمت عملی عوامی فلاح کے لیے ہو، وہاں مفت اور یکساں معیار کی تعلیم و صحت فراہم کی جا سکتی ہے۔ قارئین کرام! چند ایک ترقی یافتہ ممالک جیسے سویڈن، ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ نے سوشلسٹ اصولوں کے تحت ان شعبوں میں کامیاب ماڈلز قائم کیے ہیں۔ ان ممالک میں حکومت عوامی ٹیکسوں سے حاصل آمدنی کو تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لیے خرچ کرتی ہے تاکہ ہر شہری کو یکساں خدمات ملیں اور طبقاتی فرق کم ہو۔ سویڈن میں، مثلاً، یونیورسٹی تک تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے، اور ناروے میں صحت کی خدمات بھی شہریوں کو مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ ڈنمارک اور فن لینڈ میں بھی تعلیم اور صحت کے نظام میں کوئی فرق نہیں ہے، اور ریاست یہ سہولتیں ہر شہری کے لیے برابر اور مفت فراہم کرتی ہے۔ تاہم، ایک چھوٹی سی ریاست جو چند اضلاع اور راولپنڈی اتنی آبادی پر مبنی ہو ، جس کے پاس زیادہ وسائل ہوں اور حکمران طبقہ کی تنخواہیں و مراعات زیادہ ہوں، وہاں بھی یہ ممکن ہے کہ مفت تعلیم اور صحت فراہم کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرے اور عوامی خدمات کی فراہمی میں توازن پیدا کرے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکومتی اخراجات کو بہتر طریقے سے منظم کیا جا سکتا ہے، اور حکومتی حکمت عملی عوامی فلاح کے لیے ہونی چاہیے تاکہ ہر شہری کو یہ بنیادی حقوق حاصل ہوں۔ اگر حکمران طبقہ اپنی مراعات میں کمی کرے اور وسائل کو عوامی فلاح کے کاموں میں استعمال کرے، تو یہ چھوٹی سی نام نہاد جعلی ریاست یا علاقہ بھی سوشلسٹ خیالات کی بنیاد پر مفت تعلیم اور صحت فراہم کر سکتے ہیں۔ ایسی چھوٹے خطہ ، علاقے جو اپنے وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتی ہیں، جیسے سنگاپور اور موناکو، عوامی فلاح کے پروگرامز میں کامیاب ہیں اور حکومتی اخراجات کا توازن برقرار رکھتے ہوئے اعلیٰ معیار کی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ سنگاپور میں، حکومت نے محدود وسائل کے باوجود صحت اور تعلیم کی سہولتوں کو ترجیح دی ہے، جبکہ موناکو میں حکومت اپنے زیادہ مالی وسائل کو عوامی فلاح کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس طرح، ایک چھوٹے ملک میں بھی حکومتی حکمت عملی، وسائل کی مؤثر تقسیم، اور عوامی مفاد کو ترجیح دینے سے مفت تعلیم اور صحت فراہم کی جا سکتی ہے۔ لہزا مزکورہ بالا خطوط کی بنیاد پر نوجوانوں کو اس موجودہ طبقاتی تعلیمی اور صحت کے نظام کی حقیقت کو سمجھنا اور اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ انہیں صرف سرکاری اسکولوں میں بچوں کو داخل کرانے کی بات کرنے کے بجائے موجودہ طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اس نظام کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے سوشلسٹ اصلاحات کی حمایت کریں اور یہ مطالبہ کریں کہ حکومت تعلیم اور صحت کے نظام کو عوامی سطح پر یکساں اور معیاری بنائے۔ نوجوانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس وقت جب امیر طبقہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اداروں میں داخل کرانے کے قابل ہے، تو غریب طبقہ کے بچے نہ صرف ان اداروں میں پڑھنے سے محروم ہیں بلکہ سرکاری اسکولوں میں بھی ان کو معیاری تعلیم نہیں مل پاتی۔ اس لیے ہمیں اس موجودہ طبقاتی تعلیمی نظام کے خاتمے کی بات کرنی ہوگی اور ہر بچے کو یکساں تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ نوجوانوں کو یہ شعور اجاگر کرنا چاہیے کہ سوشلسٹ نظام کی طرف جتنی جلدی ہم قدم بڑھائیں گے، اتنی ہی زیادہ تیز ہم طبقاتی تفریق کو ختم کر سکتے ہیں۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جو کہ اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں مفت تعلیم اور علاج کا مطالبہ کر چکی ہے اب اس کی بھی بھاری زمہ داری ہے کہ وہ سوشلسٹ نظریات پر مبنی مفت تعلیم صرف کے نظام اور ان کے معیار کے مطابق عوامی شعور جو بلند کرے اور اس نظام پر مطالبات کی مانگ کرے۔ کیوں کہ موجودہ نظام بوسیدہ ناکارہ اور مکمل طور پر فلاپ ہو کر عوام میں طبقاتی تضاد و اثرات بارے ننگا ہو چکا ہے ۔ اب اس نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرنا او نظام کو آکسیجن فراہم کرنے کے مترادف ہے ۔ اس لیے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے پاس اس وقت سازگار حالات ہیں کہ وہ اس بارے اس مطالبے کو آگے بڑھا کر عوامی طاقت جڑت سے منوا سکتی ہے ۔ محض غیر سیاسی ہونے کی ٹیگ سے سیاسی جدوجہد آگے نہیں بڑھ سکتی ہے ۔ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں طبقاتی نظام تعلیم اور سرمایہ دارانہ اثرات کے تحت غریب طبقہ تعلیم اور صحت کے بنیادی حقوق سے محروم رہتا ہے۔ سوشلسٹ نظریات اس طبقاتی تفریق کے خاتمے اور تعلیم و صحت کو مفت اور معیاری بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ عوامی جدوجہد کے ذریعے اس نظام کی تبدیلی ممکن ہے، اور حکومت کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ سوشلسٹ اصولوں کے مطابق تعلیم اور صحت کے نظام کو چلائے تاکہ ہر فرد کو یکساں اور معیاری خدمات فراہم کی جا سکیں۔ ( ختم شد)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...