*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ
(ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال
گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی،
جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔
وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔
قارئین کرام!
یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے!
یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔
یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔
انسپکٹر نوید چودھری جیسے فرض شناس، دیانت دار، باوقار، بے داغ، اور عوام دوست افسر اب نایاب ہو چکے ہیں۔ وہ رشوت خور نہ تھے، قانون کے سچے خادم تھے۔
درویش صفت انسان، صوم و صلوٰۃ کے پابند، تھانہ سیاست سے بیزار، میرٹ کے پاسبان اور مظلوم عوام کے محافظ۔۔ پولیس کے محکمے کے اندر ایک اچھے پبلک ریلیشن والے آفسیر تھے ۔ قانون میرٹ کے سواء کچھ نہیں کیا۔ رعب دبدبے ، دھونس دھاندلی کو تسلیم نہ کیا۔ اس نظام دنیا سے اب ان کا دل اکتا چکا تھا ۔ وہ تکبر غرور آنا کے سخت خلاف ہوتے جا رہے تھے ۔
ان کی شخصیت میں ایک قلندر کا رنگ، ایک رہنما کی سوجھ بوجھ، اور ایک سپاہی کی جرات تھی۔
وہ برادری ازم، تعصب، تکبر، اور سیاسی آلہ کاری کے شدید مخالف تھے۔ نوجوان طلبہ انہیں اپنا لیڈر مانتے تھے، عوام انہیں اپنا سہارا سمجھتے تھے۔ وہ عوامی ایکشن کمیٹی کی جدوجہد کے نہ صرف حامی، بلکہ اس کے آئینی حق کو تسلیم کرنے والے اولین افسران میں سے تھے۔
آج ایسے فرض شناس افسر صرف ایک حادثے میں نہیں گئے، یہ نظام انہیں نگل گیا ہے۔
قارئین کرام! پانچ جنازے
؟ پانچ خون؟ پانچ سوالات
؟ذمہ دار کون؟
وہ حکمران جو ہر سال بجٹ تو بناتے ہیں، لیکن سڑکیں تعمیر نہیں کرتے؟وہ ٹھیکیدار جن کی بوگس تعمیرات انسانی جانیں لے جاتی ہیں؟ وہ محکمہ شاہرات جنہیں موت کے ان موڑوں کی کوئی فکر نہیں؟یا وہ نظام جو صرف کمیشن کی بنیاد پر سڑکوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے؟
اس چھوٹے سے چار ہزار مربع میل علاقہ میں صحت تعلیم روزگار کوئی میگا منصوبہ نہیں بس سڑکوں کے منصوبے ہی ہیں۔ کیوں کہ ان میں کرپشن ہی کرپشن ہے۔ یہ کرپشن کی مارکیٹ ہیں ۔ کیوں کہ یہاں مال بکتا ہے ۔
قارئین کرام:- آزاد جموں کشمیر حکومت نے مالی سال 2024-25 میں 264 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا۔ اس میں سے 44 ارب ترقیاتی منصوبوں کے لیے، اور ان میں سے 14.9 ارب صرف مواصلات و تعمیرات کے لیے مختص ہوئے۔
پھر بھی یہ سڑکیں قبرستان کیوں بنتی جا رہی ہیں؟پچھلے 6 سالوں میں 166 ارب کا ترقیاتی بجٹ ملا، لیکن 15 ارب روپے یا تو ضائع ہو گئے یا "واپس" چلے گئے۔
باقی جو خرچ ہوا، وہ کہاں خرچ ہوا؟
صرف جعلی، نمائشی، بوگس منصوبے ۔۔۔ کرپشن ہی کرپشن ۔۔ تاکہ کمیشن کھایا جا سکے، اور عوام مرتی رہے۔ موجودہ وزیر اعظم انوار الحق میرٹ انصاف گڈ گورننس کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کون سے میرٹ پر آئے ہیں۔
آپ کو انصاف قانون سے اعلی منصب پر فائز ہوے ہیں ۔ آپ کی کس چیز کی گڈ گورننس ہے۔ آپ کے منہ سے گڈ گورننس ، میرٹ انصاف کے دعوے اور الفاظ اچھے نہیں لگتے ہیں ۔
ان مقدس الفاظ کی توہین ہوتی ہے ۔ ایک منٹ میں مسلط ہونے والے وزیر اعظم بھی اگر کھٹ پتلی ثابت ہوں گے تو پھر عوام کس تو کون سی توقعات رکھیں گے ۔
یہ وزیر اعظم صاحب تو وعدہ خلاف اور دھوکہ دہی والے بھی نکلے۔ نکیال میں نوجوانوں عوام کو پورا دن بارش میں مادھوری کی طرف نچوا نچوا کر 65 کلو میٹر تین بڑی سیز فائر لائن کی سڑکوں کا اعلان کیا لیکن اب پانچ چاھ ماہ بعد اپنے وعدے سے مکر گے کہ وزیر بحالیات جاوید بڈھانوی اپنے فنڈ میں سے کروائے ۔۔
یہاں یہ صورت حال ہے ایسے حکمران طبقہ کی۔ تو پھر ہم کس کے ہاتھ پر لہو تلاش کریں ۔
ان سب نے دستانے پہن رکھے ہیں ۔ لبادے اوڑھ رکھے ہیں ۔
یہ خطہ، جو پورے جموں و کشمیر کا صرف اڑھائی اضلاع پر مشتمل تھا اب جس کے دس اضلاع بنا دیے گئے،
75 سال میں ایک مکمل ہائی وے نہ پا سکا۔ جبکہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں 14 ہائی ویز موجود ہیں۔ یہاں ترقی نہیں، صرف دعوے اور کرپشن ہے۔ یہاں انسان طبعی موت سے کم، ٹریفک حادثات میں زیادہ مرتے ہیں۔
یہ کسی آسمانی قہر کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسانی مجرمانہ غفلت اور حکومتی نااہلی کا حاصل ہے۔موت کا وقت مقرر ہے لیکن وجہ یہ حکمران ہیں۔یہ شاہراہیں نہیں، یہ مقتل گاہیں ہیں!
آج نوید چودھری گئے، کل کوئی اور جائے گا۔جب تک ہم سوال نہیں اٹھائیں گے، جب تک ہم قاتلوں کو نام لے کر نہیں پکاریں گے، یہ لاشیں گرتی رہیں گی۔ہم نوید چودھری شہید اور ان کے ساتھیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
ہم ان کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ان لبادے اوڑھے حکمرانوں کو ہم ہی باعث تسکین سمجھیں گے ۔ مالے پھول ڈالیں گے ۔ فوٹو بنوائیں گے، پروٹوکول دیں گے ۔ لیکن سوال نہیں کریں گے ۔ کیوں کہ کم بہرے گونگے اندھے اور مردہ ضمیر ہیں ۔۔
کیوں کہ ہمارے اپنے مرے ہیں ، ہم تو زندہ ہیں نا ۔ جیتی جاگتی زندہ نعشوں میں ۔۔۔ لیکن ہم اس ظالم، کرپٹ، قاتل نظام سے سوال کرتے ہیں: کتنے نوید اور چاہییں تمہیں؟
کتنی لاشوں پر سڑکیں بناؤ گے؟ اور کتنا کمیشن کھاؤ گے؟ اور کتنا خون چاہیے ؟ یہ بتاو کیا ان نعشوں کے بھی روپے ملتے ہیں ۔۔۔
مگر یہ ماتم ختم نہیں ہوگا، جب تک انصاف نہیں ملتا۔
( ختم شد)
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...



مسئلہ یہ ہے کے ہمارے ہاں اس طرح کے سڑک حادثوں پے رو پیٹ کر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے، ماضی میں منگ تھوراڑ روڈ پے ایک عرصہ تک راولاکوٹ تا راولپنڈی پبلک سروس گاڑیاں جن میں ذیادہ تر بسیں ہوا کرتی تھیں چلتی تھیں شاذ و نادر ہی کوئی حادثہ ہوا ہو گا، تب بھی روڈ کے اطراف حفاظتی بُتیاں یا کوئی دیوار نہیں ہوا کرتی تھی۔ اسوقت کے ڈرائیور نہایت مستعد، تجربہ کار اور پکی عمر کے ہوتے تھے گاڑی احتیاط سے چلاتے تھے۔ میرا کہنے کا ہرگز مطلب نہیں کے روڈز کے اطراف کوئی دیوار نہیں ہونی چاہئیے،دیوار ہونی چاہئے بلکہ کنکریٹ کی مضبوط حفاظتی دیوار
جواب دیںحذف کریںاس حادثے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیے، تاکہ بے قابو ہو جانے والی گاڑی کم ازکم کسی گہری کھائی میں گرنے سے بچ سکے اور ذیادہ جانی نقصان نا ہوں۔ اس کے ساتھ ڈرائیور حضرات کو بھی سنجیدہ ہونا پڑے گا،گاڑیاں احتیاط سے چلائیں،
اس حادثے کی تحقیات ماہر لوگوں سے کرائی جانی چاہئیے تاکہ اصل حقیقت سامنے آئے سکے کے حادثے کیوجہ کیا ہوئی۔ مگر ہمارے ہاں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا حادثے کے بعد مرنے والوں کی تعریف،مغفرت اور جنت کی دعاؤں نیز پسماندگان کے ساتھ لفظی ہمدردیاں کرکے حادثوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔اللہ اللہ خیر صلہ۔