آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال
پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے،
جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔
یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔
کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔
یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔
یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، موقع پرستی کی شرط ہے۔
انتخابات سے قبل ہی سب کچھ طے شدہ ہے۔
کون وزیر بنے گا؟
کس کو پارٹی دی
جائے گی؟
کس کو وزارتِ عظمیٰ کا تاج پہنایا جائے گا؟
یہ فیصلے عوام نہیں، بلکہ مقتدر قوتیں کرتی ہیں
۔ اور عوام؟ وہ نعرے لگاتے ہیں، قافلے بناتے ہیں،
اور پھر ان ہی لٹیروں کے آگے جھک جاتے ہیں جنہوں نے بار بار انہیں بیچا۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی از سر نو ہائبرڈ سسٹم پر تشکیل ہو رہی ہے —
مگر عوام کے ہاتھوں نہیں، آصف زرداری اور مقتدر حلقوں کی مفاہمت سے۔
سابق وزیر اعظم تنویر الیاس، جو کبھی عمران خان کے قریب تھے،
آج پیپلز پارٹی میں اربوں کے ساتھ وارد ہو چکے ہیں۔
صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری چھٹی بار وفاداری تبدیل کرنے جا رہے ہیں۔
رفیق نئیر جیسے کئی اور بھی "ضم" ہو چکے۔
عوام کو توڑنے کا پرانا طریقہ اب بدل چکا ہے؛ اب جماعتوں کو خریدا جا رہا ہے۔ہارس ٹریڈنگ کی گیم عروج پر ہے۔
اب یہ سیاست نظریے کی نہیں، سرمایہ کی غلام ہے۔
جو پانچ دس ارب روپے لائے گا، وہی وزیر اعظم ہوگا۔
جو زیادہ خرچ کرے گا، وہی جھنڈا تھامے گا۔
نظریاتی کارکن صرف بینر اٹھائیں گے،
نعرے لگائیں گے اور جب ٹکٹوں کی تقسیم ہو گی، تو دروازے بند پائیں گے۔
یہاں "جمہوریت" کی شکل میں ایک نیا ہائبرڈ نظام نافذ کر دیا گیا ہے۔ جہاں فیصلے عوام یا انتخابی جماعت نہیں کرتی ہے ۔
پی ڈی ایم کا آزمودہ فارمولا "مائنس پلس" یہاں آزمایا جا رہا ہے۔
53 میں سے اڑتالیس ووٹ ایک ہی منٹ میں انوارالحق کو کیسے ملے؟
یہی وہ سوال ہے جس کا جواب عوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے — اگر واقعی ضمیر باقی ہے۔
پیپلز پارٹی کے پرانے جیالے چوہدری یاسین اور سردار یعقوب، جو برسوں سے روائیتی نظریاتی جدوجہد کرتے آ رہے تھے،
اب تنویر الیاس جیسے ارب پتی سرمایہ دار کے سامنے بےبس اور خوفزدہ ہیں۔
ہارس ٹریڈنگ اب نظریہ نہیں، "کاروبارِ جمہوریت" کا حصہ ہے۔ چھوٹے سرمایہ کار کارکن اب صرف تماشائی ہیں۔
اور سب سے المناک حقیقت یہ ہے کہ کارکن اب اپوزیشن ، سیاسی مخالفین کی مخالفت سے بھی ڈرتے ہیں۔
کیونکہ جسے آج للکاریں گے، کل وہی ان کا لیڈر بن سکتا ہے۔
یہ وہ موقع پرستی ہے جو ضمیر کی موت کی گواہی دیتی ہے۔
یہ
سب کچھ محض ایک مخصوص سیاسی جماعت یا فرد کا مسئلہ نہیں۔
یہ پورے نظام کی اجتماعی منافقت کا ثبوت ہے۔
یہی سیاسی اشرافیہ برادری، مذہب، قومیت کے نام پر عوام کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں —
اور پھر آپس میں جا کر گلے مل جاتے ہیں۔ عوام نیچے لڑتے ہیں، حکمران اوپر اقتدار بانٹ لیتے ہیں۔
اب سوال عوام سے ہے؟؟؟
کیا آپ پھر انہی سیاسی سوداگروں کو ووٹ دیں گے؟
کیا آپ پھر انہی ضمیر فروشوں کو لیڈر مانیں گے جو ہر پانچ سال بعد جماعت بدلتے ہیں جیسے جوتے؟
کیا آپ اپنی نسلوں کے مستقبل کو پھر انھی لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے
جن کے نزدیک سیاست عبادت نہیں، تجارت ہے؟ سیاست ، سیاست برائے خدمت نہیں سیاست ،
سیاست برائے کاروبار ، ہارس ٹریڈنگ ہے ۔
اب وقت ہے بائیکاٹ کا اس ہائیبرڈ سسٹم کے بائیکاٹ کا ،
سوال اٹھانے کا، اور اس نوآبادیاتی ڈھانچے کو مسترد کرنے کا۔
اگر آج بھی نہ جاگے تو کل بھی غلامی آپ کا مقدر رہے گی —
چاہے جھنڈا کوئی بھی ہو، لیڈر کوئی بھی۔
ایسے ہائیبرڈ سسٹم میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جو نظام بدلنے ، اشرافیہ کے خلاف عوامی حقوق کی بحالی و بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
اس پر عوام کی سیاسی مبصرین کی نظریں ہیں کہ
کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی انتخابات میں آتی ہے یا نہیں ؟
اگر بائیکاٹ کرتی ہے سابقہ قوم پرستوں کی طرز پر تو کیا حکمرانوں کو مزید اسپیس فراہم کرے گی ؟
اگر بائیکاٹ نہیں کرتی ہے۔ آئین ساز اسمبلی کے لیے جدوجہد کرتی ہے
تو وہ کیسے ممکن ہو گا ؟ کیا اتنی تیاری ہے کہ وہ آئین ساز اسمبلی کی طرف بڑھ سکے۔
اور ریاست کو قابو کیے طاقتیں یہ قبول کر سکتی ہیں۔کیا
حقوق سہولیات بدلے میں فراہم کی جائیں گی ۔ یا اپنا اختیار نہیں دیا جا سکتا ہے ؟
کیا دے گی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی عوام کو متبادل۔
اگر دے گی تو کب دے گی۔
لیکن یہ لازم ہے کہ ایکشن کمیٹی جو بھی کرے لازمی اپنا پروگرام دے۔
کیوں وقت بہت کم رہ گیا ہے۔
اگر ایکشن کمیٹی اپنا پروگرام دے ک متبادل دیتی ہے تو ہائبرڈ سسٹم کمزور پڑ سکتا ہے ۔ ہارس ٹریڈنگ رک سکتی ہے ۔
جمہوری سیاسی نظریات جدوجہد کوبچایا جا سکتا ہے۔
لیکن
آخر کسی نا کسی کو تو اس نظام اور ہارس ٹریڈنگ موجودہ سسٹم کو چیلینج کرنا ہو گا۔ چینج کرنا ہو گا۔ لیکن
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے علاؤہ اس وقت اور کوئی عوامی طاقت قوت نظر نہیں آ رہی ہے ۔
اس وقت پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر متبادل کی تلاش میں ہے ۔
( ختم شد )
ایکشن کمیٹی کبھی بھی کسی جمہوری پارلیمانی نظام کا متبادل نہیں ہو سکتی
جواب دیںحذف کریںnever under prevailing constitutional position, JAAC would be reduced to nil o
جواب دیںحذف کریں