نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال اب انسانیت کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ایسی فتنہ انگیز پوسٹس، ایسے زہریلے خیالات، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائے جا رہے ہیں تاکہ عوام کو ان کی اصل جدوجہد—یعنی حقوق، آزادی، اور خودمختاری کی جدوجہد—سے ہٹا کر آپس میں لڑایا جا سکے۔ قارئین کرام! ہمیں گلگت بلتستان کے وہ زخم نہیں بھولنے چاہئیں جہاں فرقہ واریت نے ہزاروں جانیں نگلیں۔ عشروں بعد اب جا کر وہاں کے لوگ اتحاد بین المسلمین کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ ہم ان کے انجام سے سبق کیوں نہیں سیکھتے؟ پاکستانی زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں قبیلہ، برادری، پارٹی، اور اب فرقہ پرستی کا زہر عام کیا جا رہا ہے۔ پہلے تعصب کو روایتی سیاست نے پروان چڑھایا، اب مذہب اور مسلک کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ المیہ صرف ایک جنازے کا نہیں، یہ پورے معاشرے کی اخلاقی موت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس عورت کی تیمارداری کی جو ان پر روز کوڑا پھینکتی تھی۔ انہوں نے بچوں کو جنت کے پھول قرار دیا۔ انہوں نے کبھی کسی انسان کو اس کے عقیدے کی بنیاد پر نفرت کا نشانہ نہیں بنایا۔ انہوں نے امن، محبت، معافی، اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ تو ہم کس دین کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ شیعہ یا سنی کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ہے۔ وہاں بچے مرتے ہیں، عورتیں چیختی ہیں، خون بہتا ہے، اور ہم یہاں ایک بچی کے جنازے پر مسلک کی بحث چھیڑتے ہیں؟ یہ کہاں کی غیرت ہے؟ یہ کیسا دین ہے؟ یہ کون سی تہذیب ہے؟ نکیال کے عوام، آپ کا دل کہاں ہے؟ آپ کی روح کیوں خاموش ہے؟ کیا آپ اپنے بچے کے ساتھ ایسا سلوک برداشت کر سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں! تو پھر دوسرے کے بچے کو "غیر" کیوں سمجھتے ہیں؟ ہر بچہ معصوم ہوتا ہے، ہر بچہ ہمارا بچہ ہوتا ہے۔ ان کا مسلک ان کا جرم نہیں۔ آج ہمیں اس منظم فرقہ واریت، اس سامراجی ایجنڈے، اس نوآبادیاتی نفسیات کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈز، یہ مذہب کے نام پر نفرت، یہ سب کچھ نکیال کے امن، یکجہتی، اور جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ اگر ہم نے ابھی ہوش نہ کیا، تو نفرت کی یہ آگ کل ہمارے گھروں کو بھی لپیٹ میں لے لے گی۔ یاد رکھیں، 1947 سے قبل نکیال میں ہندو مسلم اتحاد ایک مثال تھا۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ شمشان گھاٹ میں جلنے والی لاش پر مسلمان آنسو بہاتے تھے، اور مسلمان کے جنازے پر ہندو افسوس کرتے تھے۔ لیکن آج ہم مسلمان ہو کر مسلمان کے جنازے پر سوال اٹھا رہے ہیں؟ ایسے شرمناک واقعات صرف معاشرتی زوال نہیں، بلکہ دینی، اخلاقی، انسانی زوال کی بھی علامت ہیں۔ اگر آج ہم نے ان کا راستہ نہ روکا، تو کل کوئی ہمارا بھی جنازہ پڑھنے سے انکار کرے گا۔ ہمیں نبی کریمؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں رواداری، صبر، برداشت، اور محبت کا بیج بونا ہوگا۔ آخر میں، ہم سب کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ: ہم کسی معصوم کے جنازے کو مسلک کے ترازو پر نہیں تولیں گے۔ ہم فرقہ واریت کی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔ ہم نکیال کو امن، اتحاد، اور بھائی چارے کا گہوارہ بنائیں گے۔ اور ہم کسی بھی ایسی سوچ، پوسٹ، یا تحریک کی کھل کر مخالفت کریں گے جو انسان کو انسان سے جدا کرتی ہو۔ اسلام ہمیں فرقوں میں نہیں بانٹتا، اسلام ہمیں جوڑتا ہے۔ وہی افضل ہے جو متقی ہے، نہ کہ وہ جو سوشل میڈیا پر نفرت کے بیج بوتا ہے۔ یہ تحریر کسی تعصب، بغض، یا مفاد کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اخلاص، انسانیت، اور دین کی اصل روح کے مطابق تحریر کی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نسلوں کے لیے ایک روشن، محبت بھرا، اور غیر طبقاتی نکیال چھوڑ کر جائیں۔ ایک ایسا نکیال، جہاں کوئی بچی صرف اس لیے بے کفن نہ رہے کہ وہ کسی خاص مسلک سے تعلق رکھتی تھی۔ “جابر کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا جہاد ہے، اور خاموش رہنا گونگا شیطان بننے کے مترادف ہے۔ ہم عزم کرتے ہیں کہ ہم نکیال کو پارہ چنار نہیں بننے دیں گے نہ شدت پسندی کا گہوارہ ۔ (ختم شد )

تبصرے

  1. قائد آپ کے جزبات کی قدر کرتے ہیں اور ایسی مہیم کا حصہ نہ بنیں گئے ۔لکن اگر دینی معلومات حاصل کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کافر ہے یعنی اسلام سے خارج ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...