" *راجا فاروق حیدر صاحب! ہم عام آدمی ہیں، تمہارے اقتدار کی بنیاد — اور اب تمہارے تکبر کا احتساب* !"
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی
کبھی کبھی ایک جملہ پوری قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستانی زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر راجہ فاروق حیدر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ
*> "عام آدمی کون ہوتا ہے؟ عام آدمی کو کون پوچھتا ہے؟ وہ صبح کام پر جاتا ہے، شام کو منہ لٹکا کے آ جاتا ہے!* "
یہ محض
ایک جملہ نہیں، یہ اُس سوچ کی عکاسی ہے جو خود کو "خاص"
سمجھ کر عوام کو محض غلام، نوکر یا تماشائی تصور کرتی
ہے۔ راجہ فاروق حیدر کا یہ تکبر صرف ان کی ذاتی سوچ نہیں،
یہ اُس نظامِ سیاست کا گھمنڈ ہے جو استحصالی، مفاد پرست، اور عوام دشمن رویوں سے جنم لیتا ہے۔
جو اشرافیہ/ حکمران طبقات کی سوچ کا مظہر ہے کہ وہ عوام کے بارے حقیقی معنوں میں کیا سوچ رکھتے ہیں ۔
راجہ فاروق حیدر وہ چہرہ ہے جس نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے تلوے چاٹے، جنرل باجوہ کی جھولی میں جا بیٹھے ،
مفاد پر مبنی
موقع پرستی، مصلحت پسندی کو اصول سمجھا،
اور اپنی وفاداری کو کبھی عوام کے ساتھ نہیں، بلکہ طاقت کے ایوانوں کے ساتھ جوڑے رکھا۔
جس کی واضع مثال ہے کہ
جب بھارت نے 2019 میں جموں و کشمیر کو مستقل تقسیم کیا،
آرٹیکل 370، پینتیس اے کو ختم کیا، اُس وقت یہ شخص، بیباکی سے بولنے کے بجائے جنرل باجوہ کے کہنے پر
اقتدار ، مراعات کے عوض،
خاموشی سے امریکہ میں بیٹھے تھے۔۔۔چپ، خاموش، بے حس! اُس وقت نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی مؤقف، نہ عوام کا درد۔۔۔ ایک دو بیان داغے کہ میں آخری وزیراعظم ہوں گا۔ نانی کا سبز پرچم کے قافلے کا خواب سنایا ۔ وادی جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کا مرتکب ہوا۔
لیکن جب اپنا ، اقتدار، پارٹی، حیثیت چھن گئی تو کبھی پرانی پسٹل لے کر نکلا،
کبھی مودی کو للکارا،
کبھی گلی محلوں میں چیخا۔ کیا یہ سنجیدگی ہے؟
یا پھر صرف مداری پن؟
کیا کسی وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہنے والے شخص ایسی حرکتیں زیب دیتی
ہیں ۔ ایسی حرکتیں تو بندر بھی نہیں کرتے ہیں ،
آج وہ شخص عام آدمی کو حقیر سمجھتا ہے، اُسی عام آدمی کو جس کے ووٹ سے یہ ایوانِ اقتدار تک پہنچا۔
جس کے ٹیکسوں سے پنشن لے رہا ہے ۔ جس کی خون پسینے کی کمائی اور وسائل سے سگریٹ کے کش لگا رہا ہے ۔
ہم بھولے نہیں، ہمیں زرہ زرہ سب یاد ہے۔
جب یہ سیز فائر لائن کھوئی رٹہ کے دورہ پر آئے اور متاثرہ عورت کو سرِ عام گالیاں دیں، جب نکیال میں سیز فائر لائن امن مہم پر گندے الفاظ کی بوچھاڑ کی
۔ نکیال کے نو افراد کو گرفتار کرنے کی لسٹ ہوا میں لہرا کر خدائی لہجے میں بونگیاں ماریں ۔۔
ان کی زبان، رویہ، اور کردار وہ آئینہ ہے جس میں ہمیں استحصالی سیاست کا چہرہ دکھتا ہے۔
آج جب یہ سگریٹ کے کش لگا کر لائیو کانفرنس میں عوامی اخلاقیات کو رگڑتا ہے،
تو کچھ چاپلوس اسے "بہادر" کہتے ہیں؟ مہاراج کہتے ہیں ۔ خطاب دیتے ہیں ۔۔
ان کی جھولی میں جھوٹے کریڈٹ ڈالے جاتے ہیں؟ وہی چاپلوس جو زکوٰۃ، خیرات، عوامی فنڈز ہڑپ کر کے قومی شعور کو مفلوج کرتے ہیں۔
ہم عام آدمی ہیں، مزدور، کسان، محنت کش، وہ لوگ جن کی رگوں کا پسینہ تمہارے محلات، گاڑیاں، پروٹوکول، وزارتیں چلاتا ہے۔
ہم تمہیں تمہاری زبان میں جواب دیں گےکہ
*> تم نے ہماری خاموشی کو کمزوری سمجھا،
اب ہماری بیداری تمہاری نخوت کی قبر کھودے گی* ۔
اب وقت ہے کہ راجہ فاروق حیدر جیسے کرداروں کو عوام مکمل مسترد کریں۔
ان کے جلسے خالی ہوں، ان کے سائے سے نفرت کی جائے، ان کے جنازے بے وقعت ہوں۔ ان کو جھوٹا اور موقع پرست کہا جایے ۔
یہ وہی لوگ ہیں جو "عام آدمی" کو ووٹ کی مشین سمجھتے ہیں، اور اقتدار پاتے ہی اس پر تھوکتے ہیں۔
ہم، جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، عام آدمی کی آواز ہیں۔
ہم وہ وقت ضرور لائیں گے جب عام و خاص کی تمیز مٹے گی،
لوٹا مال واپس آئے گا، تخت گرائے جائیں گے، اور تم جیسے تکبر کے بت ٹوٹ جائیں گے۔ تاج اچھلیں گے
۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ آپ جیسے خاص نہیں عام آدمی اپنے فیصلے خود کریں گے ۔
راجہ فاروق حیدر، آپ کی سیاست، آپ کا کردار، آپ کی زبان ۔۔۔ سب کچھ عوام کے شعور سے چھن چکا ہے۔ آپ کا یہ جملہ ایک گولی ہے ایک گولی ہے ۔ ایک نیلامی ہے۔
آپ کا انجام تاریخ کے کوڑے دان میں لکھا جا چکا ہے۔
ہم فخر سے کہتے ہیں کہ
> *ہم عام آدمی ہیں ۔۔۔ لیکن بیدار، متحد اور ناقابلِ تسخیر! کیوں کہ ہم جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ہیں۔ ہم متبادل ہیں* ۔
ہم آپ کے تکبر ، عناد ، جھوٹ فراڈ، کرپشن اور اقربا پروری ، تعصب ، ازم اور آپ کی سہولت کاری کے لیے ناقابل مصالحت جدوجہد کی علامت ہیں ۔ ہم آپ کی موت ہیں ۔
عام آدمی عمر جو چیز بچا کر لے کر چلتا ہے وہ اس کا کردار ہے جس پر آپ نے انگلی اٹھائی ہے۔ اس کی آپ کو شکست ، نفرت کی ناکامی کی شکل میں قیمت چکانی ہو گی۔
(ختم شد )
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں