نکیال کو راشن نہیں، حق چاہیے!ریلیف نہیں، شفافیت و خودداری چاہیے! بھکاری نہیں ہنر مند چاہیں ۔
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ
(ممبر: جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال، کوٹلی)
سعودی عرب کے کنگ سلمان ہیومینٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سنٹر (KS Relief) کی جانب سے پاکستان بشمول آزاد جموں و کشمیر کے سیلاب متاثرین کے لیے 14.2 ملین ڈالر کا تیسرا مرحلہ شروع کیا گیا۔
یہ خیرسگالی پر مبنی فوڈ سیکیورٹی پیکج سینکڑوں سیز فائر لائن کے خاندانوں تک پہنچنا تھا۔
لیکن افسوس، تحصیل نکیال میں ایک بار پھر وہی پرانی کہانی دہرائی گئی — بندربانٹ، اقربا پروری، اور محرومی! تقریبا سرکاری ملازمین نے ہاتھ صاف کر دیا۔
نکیال، جو کہ سیز فائر لائن سے براہِ راست متاثرہ علاقہ ہے، برسوں سے ریلیف، باڈر پیکج، اور خیراتی امداد کا مرکز رہا ہے۔
مگر ان تمام امدادی مراحل میں اکثریت کو محرومی، تذلیل اور نابرابری ہی ملی۔ سعودی امداد ہو یا شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کا راشن ۔۔۔
نکیال کی عوام کے لیے یہ صرف فوٹو سیشن اور سیاسی نمائش کا ایک اور موقع بن جاتے ہیں۔۔۔۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال نے بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ امداد کے مستفیدین کی فہرست پبلش کی جائے،
تاکہ میرٹ اور شفافیت کا پتہ چلے۔ لیکن حکومتی اہلکار، افسران، اور مخصوص بااثر طبقات ہر بار مستحقین کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر "نظام" کا منہ چڑاتے ہیں۔
کیا عوام کو بھکاری بنایا جا رہا ہے! یہ سوچنا ہو گا۔ یہ سوال دعوت فکر ہے۔
اس امداد کی تقسیم کے دوران ایک بار پھر ہزاروں افراد کو شناختی کارڈ لے کر ذلیل و خوار ہونے پر مجبور کیا گیا۔
مستحق خواتین کی تصویریں، آٹے کی بوری کے لیے دھکم پیل، اور فوٹو سیشنز ۔۔۔
کیا یہ انسانیت ہے؟ کیا یہ وہ خوددار قوم ہے جو آزادی، حقِ خود ارادیت اور مساوات کی بات کرتی ہے؟
کیا کسی کو اس بات پر شرم نہیں آتی کہ "عزت" کے نام پر عورت کے فیس بک فوٹو پر واویلا ہوتا ہے، لیکن جب وہ عورت آٹے کی ایک بوری کے لیے سرِ عام لائن میں کھڑی ہو، تو سب کی غیرت مر جاتی ہے؟جب اس کی فوٹو لے کر دنیا میں نشر کی جاتی ہے ۔
برادری ازم تعصب کرنے والے کیوں اپنی برادریوں کو راشن نہیں دیتے۔ صرف تعصب کے بھاشن دیتے ہیں ۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ راشن سے نہیں، وسائل کی منصفانہ تقسیم سے غربت ختم ہو گی
نکیال کی اکثریتی آبادی یا تو بیرون ملک محنت مزدوری کرتی ہے یا مقامی سطح پر بنیادی سہولیات سے
محروم ہے۔ لیکن ان کی محرومی کی وجہ غربت نہیں — بدترین بدنظمی، کرپشن اور ناانصافی ہے۔
راشن، ریلیف، خیرات ۔۔۔۔۔ یہ مسائل کا حل نہیں، بلکہ قوم کی خودداری کو کچلنے کا آلہ ہیں۔۔۔ ریاست ماں ہوتی ہے، مگر نکیال کے عوام کے لیے یہ سوتیلی ماں سے بھی بدتر سلوک کرتی ہے
۔ اربوں روپے کے امدادی منصوبے آئے اور گئے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام کے حصے میں صرف تذلیل آئی۔
ہم چاہتے ہیں ، مطالبہ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہنر دو، خیرات نہیں! بھکاری نہیں ہنر مند چاہیں ۔
ریاست، این جی اوز، اور فلاحی ادارے اگر واقعی مخلص ہیں، تو وہ ہنر دیں
، روزگار کے مواقع دیں، خودکفالت کے منصوبے دیں۔ راشن بانٹ کر فوٹو کھنچوانا اور ویڈیوز بنا کر ڈونرز سے مزید فنڈز اکٹھے کرنا صرف عوامی وقار کا قتل ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرامز میں بھی صرف چند ہزار روپے بانٹنے سے نہ غربت ختم ہوتی ہے
، نہ وقار بحال ہوتا ہے۔ جب تک ریاست ہنر نہیں دیتی، جب تک میرٹ کی بحالی اور کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا
، تب تک یہ قوم صرف بیساکھیوں پر کھڑی رہے گی۔
عوامی شعور کی بیداری ناگزیر ہے۔ وقت کا تقاضا ہے ۔
آج نکیال میں عوام خود سڑکیں بنا رہے ہیں، اسکول چلا رہے ہیں، پل تعمیر کر رہے ہیں
۔ یہ حکومت کی ذمہ داریاں ہیں، نہ کہ عوام کی۔ یہ جذبہ قابلِ فخر سہی، لیکن یہ اس بات کا اعلان بھی ہے کہ ریاست ناکام ہو چکی ہے۔
پھر انہی حکمران طبقات کو مالا ڈالتے ہیں ۔ روپے دیتے ہیں ۔ یہ دوہرے معیار کیوں ہیں۔ آخر کب تک۔ ۔۔۔
عوام کو چاہیے کہ وہ خیراتی اداروں یا حکومتی نمائندوں کی طرف سوالیہ نظروں سے نہ دیکھیں — بلکہ سیدھا سوال کریں۔۔۔ ان پر سوال اٹھائیں ۔۔ سوال اٹھانا واجب ہے۔۔۔ پوچھا جائے کہ
وسائل کی منصفانہ تقسیم کہاں ہے؟
"شفافیت کہاں ہے؟"
"ہمارے بچوں کے لیے روزگار کے دروازے کیوں بند ہیں؟"
یہ وقت ہے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہونے کا
ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ
کیا ہم ہمیشہ راشن کے تھیلے کے لیے جھک کر ذلیل ہوتے رہیں گے؟
یا اب عزت، خودداری، میرٹ، انصاف، اور حق کے لیے کھڑے ہوں گے؟
ہم عوامی حقوق کی بحالی و بازیابی کے لیے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے فورم سے منظم ہوں گے۔
راشن کے لیے لڑ مر سکتے ہیں گلے شکوے کر سکتے ہیں تو حقوق کے لیے کیوں نہیں سوچ بچار کر سکتے ہیں ۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کا "جسٹس فار سیز فائر لائن" مہم محض ایک احتجاج نہیں، ایک عزم ہے ۔۔
کہ اب نکیال کے عوام کو نہ ذلیل کیا جا سکتا ہے، نہ خاموش رکھا جا سکتا ہے۔
اب نکیال کے باشعور نوجوان ایکشن کمیٹی کے فورم سے بولیں گے
۔ اتنے شعور اور زور سے کہ بہرے بھی سن لیں گے اور گونگے بھی بول اٹھیں گے ۔۔
نوجوانو ! ہماری پکار ہے کہ
راشن نہیں، حق چاہیے!
خیرات نہیں، روزگار چاہیے!
فوٹو سیشن نہیں، شفافیت چاہیے!
ذلت نہیں، عزت چاہیے!
حق چاہیے۔
۔ عوامی حقوق بھیک نہیں خیرات نہیں کوئی رعایت نہیں
ہے بلکہ
ہمارا آئینی قانونی عوامی حق ہے۔ ہمیں حق چاہیے ۔
چہرے نہیں بدلو نظام بدلو ۔ سوچ بدلو ، سماج بدلو ، نکیال بدلو
۔
کل نہیں آج بدلو ، آج نہیں ابھی بدلو۔ سب سے پہلی اپنی سوچ بدلو
۔
تاکہ ہم نکیال کو سماج کو ایک خوشحال
، انصاف مساوات وقار پر مبنی غیر طبقاتی سماج دے سکیں۔
یہ ہو گا ۔ ہو کر رہے گا ۔ ہم لائیں گے وہ صبح ۔۔ یہ ہم ہی سے آئے گا۔ ۔ کیوں کہ ہم ایک خوشحال ہنر مند ، باشعور نکیال کے مستقبل کی للکار ہیں۔
(ختم شد)
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں