نکیال تا کوٹلی روڈ سیفٹی وال کب بنے گی؟؟؟
تحریر:۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ،نکیال۔
03418848984 snsher02@gmail.com
گذشتہ اتوار کے دن نکیال تا کوٹلی روڈ جوقاتل روڈ کا روپ دھار چکی ہے پر روڈ حادثے میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد شہید ہو ئے۔
جبکہ دو کی حالت تشویش ناک ہے۔نکیال کے علاقے موہڑہ نارہ کے رہائشی خاندان کے افراد کوٹلی جا رہے تھے کہ کار کئی کلو میٹر دور گہری کھائی میں جا گری۔دو چھوٹے معصوم بچے بھی زندگی کی بازی ہار گے۔
شہید ہونے والوں میں حاجی منظور،شہناز رابعہ منظور،سبحان،ثانیہ ساجد اور محمد عابد ڈارئیور شامل تھے۔
اس دردناک سانحہ پر نکیال سمیت پورے خطہ کی ہر آنکھ اشک بار ہے۔عوام علاقہ ابھی صدمے سے متاثر ہیں۔نکیال،کوٹلی کی پوری فضاء غم سے سوگوار ہے۔اب نکیال تا قاتل روڈ پر سفر کرتے ہوئے خو ف محسوس ہوتا ہے۔
قارئین! شہریوں کو بلا تفریق و تخصیص تمام بنیادی،انسانی،جمہوری،معاشی،سیاسی و آئینی حقوق،وقت کے عین تقاضوں کے مطابق بنیادی و دیگر ضروریات و سہولیات فوری طور پر ترجیح بنیادوں کے ساتھ مفت فراہم کرنا ریاست کی بنیادی لازمی آئینی و قانونی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اپنے شہریوں کی زندگیوں کے معیارکو بلند کرتے ہوئے ان کی زندگیوں کو ہرلحاظ سے محفوظ بنانا،امن و خوشحالی کے دروازے کھولنا ریاست ہی کی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔
شہری اپنے رائے دہی کے ظہار میں مکمل طور پر آزاد و بااختیار ہیں ان کا رائے دہی کا عمل قطعی طور پر کسی سے حقوق و ضروریات کی فراہمی و بحالی سے مشروط نہیں ہوتا ہے۔
لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حلقہ و تحصیل نکیال سمیت ضلع کوٹلی کے اکثر حلقہ جات میں شہری،ووٹر،برادری،قبئیلائی،علاقائی و مسلکی اور پارٹی ازم تعصب و نفرت کی بنیاد پر اپنے اپنے امیدواروں کا چناو کر کے انھیں اپنی قسمت کے فیصلے کرنا کا حق دے کر حکومت کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔
حلقہ و تحصیل نکیال کی جغرافیائی اہمیت بہت خاص ہے تین چوتھائی حصہ سیز فائر لائن پر مبنی ہے،بھارتی اضلاع ضلع پونچھ اور راجوری کی سرحدیں بھی اس سے متصل ہیں
جبکہ پورے میرپور ڈویژن میں سب سے زیادہ صحت افزاء سیاحتی یہی مقام ہے۔
اس کے علاوہ دو دو مرتبہ آزاد جموں کشمیر کا صدر وزیر اعظم کی کرسی پر برجمان ہونے کا اعزاز اسی حلقہ کو ہے۔لیکن لمبے عرصے سے حکومت کرنے کے باوجود بھی یہ حلقہ تعمیر و ترقی،سڑکوں پلوں وغیرہ کے لحاظ سے انتہائی پسماندہ ہے۔
عوام آج بھی پتھر کے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور عورتیں سروں پر پانی لاتی ہیں اور عوام کئی کلو میٹر سے سامان کھندوں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں۔
حلقہ و تحصیل کی تمام مرکزی و رابطہ سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی،دیواریں گری ہوئی،فٹ فٹ پر انتہائی اندھے موڑ،بے ہنگم و بے ترتیب سی شرمناک سروے کے حامل اوپر نیچے،آگے پچھے بل کھاتی سڑکیں ہیں۔جہاں ذرا سی غلطی یا کسی وقت گاڑی کئی ہزار فٹ گہری کھائیوں میں گر جاتی ہے۔
حقیقت میں ان سڑکوں پر گدھا گاڑی کا بھی چلنا مشکل اور گدھے کے ساتھ ناانصافی ہے۔
قارئین! نکیال میں تعمیر و ترقی کے دعووں کے پرچار کے بعد گذشتہ سالوں سے فاتح نکیال کے دعوے حقیقت میں لوٹ کھسوٹ اورجھوٹ کا پلندہ ہیں۔
نکیال تا کوٹلی روڈ بہت لمبے عرصے کے بعد اب دوبارہ بنائی جا رہی ہے۔
روڈ میں انتہائی ناقص قسم کا میٹریل ڈالا گیا ہے۔کھدائی کے دوران والی مقامی کرش کو ہی استعمال میں لایا گیا ہے۔روڈ کا ایک حصہ بنے ابھی سال نہیں ہوا کہ جگہ جگہ سے بیٹھ گی ہے۔
بغیر کسی ترتیب توازن کے مکمل طور پر ناہموار ہے،گاڑی چلاتے ایسے لگتا ہے کہ کسی دریا میں ہچکولے کھا رہی ہے۔سپیڈ تو لگ ہی نہیں سکتی کیوں کہ حادثے کے سو فیصد چانس بڑھ جاتے ہیں۔
بڑی تعداد میں موجود اندھے موڑ ابھی موجود ہیں،لینڈ سلائیڈنگ والے مقامات کی بنیادیں کھوکھلی کر کے چھوڑی ہوئی ہیں جوکسی وقت بھی مقامی آبادی، گاڑیوں کو اپنا نشانہ بنا سکتی ہیں۔
بلکہ ایک موڑ میں بڑی بڑی درجنوں پہاڑیاں سڑک کے بیچ میں کئی ماہ سے رکھی ہوئی ہیں ان کو بھی سڑک سے ہٹایا نہیں گیا ہے۔
نکیال سے کوٹلی تک،اور بلخصوص سپلائی تک،پھر ساردہ تک ساری سڑک کے اطراف میں سینکڑوں ہزاروں فٹ گہری کھائی ہیں۔
کسی ایک بھی مقام پر سیفٹی وال نہیں بنائی گی ہے۔حالانکہ کوٹلی سے باہر نکلیں تو پونچھ،مظفر آباد و یگر علاقہ جات میں حفاظتی دیواریں لگائی گی ہیں۔
حفاظتی دیوار لگانے سے تقریبا حادثے اور انسانی زندگیوں کے خاتمے کے 90فیصد چانس کم ہو جاتے ہیں۔
گذشتہ اتوار کو حادثہ ہو،اس وقت عینی شاہدین کے مطابق کار اپنی طرف بلکل آہستہ آہستہ جا رہی تھی، ڈرائیور کو ہارٹ اٹیک ہوا،پہلے سے بھی ہارٹ کا مریض تھا،گاڑی اپنی سائیڈ سے دوسری طرف رفتہ رفتہ گی۔اگر اس کے راستے میں کوئی پتھر بھی آ جاتا تو کار کو اس طرح حادثہ پیش نہ آتا۔
قارئین گذشتہ سال نکیال موہڑہ کا رہائشی خاندان کوٹلی میں نادرہ آفس جو کہ پہلے نکیال میں موجود تھا کو بعد ازاں حکومت و اداروں کی عوام دشمنی نے اب باہر نکلنا ہو گا کوٹلی شفٹ کر دیا میں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے جا رہے تھے کہ ٹوپیاں کے مقام کے پاس کیری ڈبہ کو حادثہ پیش آ یا جس میں چار افراد ایک ہی گھر کے شہید ہو گے۔یہ بھی سیفٹی وال نہ ہونے کی وجہ سے شہید ہوئے۔
پانچ چھ سال قبل کرش مشین کے قریب جیپ حادثہ میں نئے شادی شدہ میاں بیوی بھی شہید ہوئے۔
2002میں اسی کھنڈیل کرش مشین کے پاس سے حفاظتی دیوار نہ ہونے کی وجہ سے جیپ کا حادثہ ہوا جس میں مظہر مشتاق،کنڈا داتوٹ،یاسر محمود،محمود احمد ساکن پلانی شہید ہوئے۔
گرلز کالج کے پاس تقریبا تیس سال قبل حادثہ ہوا جس سے بیس افراد شہید ہوئے۔
اس کے علاوہ گذشتہ سال لاہور کے ڈبے میں شہید ہوئے،اور بس،ڈبے متعدد مرتبہ حادثے کا شکار ہوے جس میں ایک دو سے زائد شہید ہوئے۔
اسی کرش مشین کے پاس سے ایک کار حادثے کا شکار ہوئی تقریبا چار افراد شہید ہوئے۔
یوں اگر اب تک تمام حادثوں کا جائزہ لیا جائے تو اب تک اسی روڈ پر صرف سیفٹی وال نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں اور درجنوں خاندان مکمل طور پر ختم،نسل کشی ہوئی۔
دھموئی کے نالے پر پل نہیں بنا ہوا تھا تو 2017میں ستمبر میں ایک خاندان کے8افراد شہید ہوئے۔
پیر کلنجر روڈ پر اب تک تین درجن سے زائد اندھے موڑوں اوسیفٹی وال نہ ہونے کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں۔
پناگ گلی سے کوٹلی تک یہ روڈ مکمل کھنڈرات میں بدل چکی ہے،فٹ فٹ پر بڑے گہرے کھڈے ہیں،ہر دوسری جگہ سے روڈ مکمل بیٹھی ہوئی ہے۔
اور اس حلقہ کے حکومتی نمائندہ جو برادری ازم کے سب سے بڑے بت ہیں وہ سات مرتبہ مسلسل الیکشن جیت چکے ہیں
لیکن کبھی ان بڑے مسائل کو مسلہ سمجھا ہی نہیں۔حقیقت یہی ہے کہ ان حلقوں کے ان حکومتی اور اپوزیشن کے نمائندوں کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ان کی خود کی بڑی بڑی گاڑیاں ہیں انھیں کس قسم کی پرواہ؟لاکھوں کی تنخواہ پنشن قومی خزانے سے مل رہی ہے۔نہ ہی ان کے خاندانوں،نسلوں کی نعشیں اٹھی ہیں؟ انھیں پھر عوام کا احساس کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟
ان کا کام اقتدار کے مزے لوٹنا ہے عوام کو تعصب کی نفرت میں دھکینا ہے۔
اور پھر جب حادثوں میں لوگ مریں تو وہاں جا کر سیاسی شخصیت پرستی کا تاثر دینا،تقریر کرنا،مقدر میں لکھا تھا،زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے کہہ کر اپنا جرم چھپا کر اللہ پر ڈال دینا،سلفیاں لینا،نیسلے کے جوس اور روسٹ کھانا ہے۔اور جب کبھی آئیں تو سڑکوں میں عوام کو قطاروں میں کھڑے کر کے استقابل کرانا اور عوام کے کندھوں پر بچوں کی طرح بیٹھ جانا۔
حالانکہ ایسی نسل کشی پر عوام و متاثرین کو انھیں جنازوں میں بھی نہیں گھسنے دینا چاہیے اور ان کے خلاف مقدمے درج کرانے چاہیں۔
ان کی جگہ قانون ساز اسمبلیوں میں نہیں بلکہ جیلوں میں ہے۔
قارئین! اگر ہسپتال میں ڈاکٹر نہ ہو،داوئی نہ ملے،سڑک پر سیفٹی وال نہ ہو،نالے پر پل نہ ہو تو افراد شہید ہو جائیں تو اس کے قتل کے ذمہ دار حکمران،اپوزیشن،حکومتی ادارے اور مقامی و ضلعی انتظامیہ ہوتی ہے۔
یہاں اللہ تعالی کو قصوار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔بالا دست متعصب حکمران طبقہ کی طرف سے یہ گمراہ کن پروپیگنڈے ہوتے ہیں جنہیں سمجھنا ہو گا۔
قارئین! ایک بات یاد رکھیں،ریاست حکمرانوں و اداروں کی یہ سب ذمہ داریاں ہیں جن کے وہ پابند ہیں کیونکہ وہ ہم سے ووٹ اور ٹیکس لیتے ہیں،لیکن ہم بھی ہر پانچ سال بعد انہی کا برادری،قبیلہ،مفاد و دیگر تعصبات کے تناظر میں چناو کرتے ہیں۔
اسلامی حوالہ سے ووٹ شراکت کا نام ہے۔ان کے برے کاموں کارناموں کی سزا کے حقدار اسلامی جمہوری انسانی طور پر ووٹر بھی ہیں۔ایک تو آپ اپنی نسلوں کا قتل عام کرا رہے ہیں اور دوسرااپنی آخرت بھی خراب کر رہے ہیں؟؟؟
نکیال،کوٹلی میں اتنی طبی اموات نہیں ہوتی ہیں جتنی ان حادثو ں میں ہوئی ہیں۔تہتر سالوں میں اس خطہ کو مذہب کے نام پر آزاد کراوا کر سہولت کار حکمران کرپٹ طبقہ نہ آزادی لے سکا،نہ اپنی عوام کو بنیادی حقوق فراہم کر سکا،اس سے تو اچھا مہاراجہ ہری سنگھ کا دور تھا یا اس سے تو ہزار گنا بہتر تعمیر و ترقی ہندوستان و مقامی سرکار نے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں کی ہوئی ہے۔
پیر کلنجر روڈ پر جہاں اے سی نکیال نے دفتر رکھا ہوا اس موڑ میں اس عمارت کی چار دیواری اندھے موڑ کے طور پرحائل ہے جس کو مسمار کرنے کے لیے سیکرٹری ہاوسنگ و پلاننگ منصور قادر ڈار نے سماج بدلو تحریک کی کاوشوں سے حکامات جاری کیے لیکن اب اسٹنٹ کمشنر نکیال اپنی انا کا مسلہ بنا کر حائل ہیں کہ میں اے سی ہوں اس اندھے موڑ کو ختم نہیں کرنے دوں گا ایسی صورتحال میں عوام کو اپنا حق چھین کر ہی لینا ہو گا،احتجاج کرنے ہوں گے۔
سماج بدلو تحریک نکیال ایک لمبے عرصے سے سیفٹی وال،اندھے موڑوں کے خاتمے اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا مطالبہ کر رہی ہے اور حادثو ں پر سراپا احتجاج ہے
اسی طرح عوام کو بھی ان کے دست و بازو بننا ہوگا۔سماج بدلو تحریک سیفٹی وال کی اس تحریک کو اس وقت جاری رکھے جب تک عمل نہیں کیا جاتا۔
اس کالم کے توسط سے مطالبہ ہے نکیال اور کوٹلی کے سابقہ و موجودہ حکمرانوں اور محکمہ شاہرات و دیگر انتظامیہ کے خلاف گذشتہ دنوں چھ افراد کی شہادتوں پر قتل کا مقدمہ درج کرنا چاہیے اور کرپشن بارے صاف و صاف ایک کمیشن تشکیل دینا چاہیے جو تعمیر و ترقی اور تبدیلی کے نام پر رقوم ہڑپ کی گئیں ہیں۔(ختم شد)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں