نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بیاد جموں کشمیر ،پشتبان شہداء جموں کشمیر


تحریر:۔شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ۔

03418848984/snsher02@gmail.com

روزنامہ کشمیر ایکسپریس کی 19ویں سالگرہ پر راقم الحروف چیف ایڈیٹر،سردار زاہد تبسم،ایڈیٹر شمیم اشرف،سرکولیشن منیجر اقبال صمیم،سب ایڈیٹر،کمپیوٹر سیکشن،نیوز ایڈیٹر،سٹاف رپورٹرز، نمائندگان،کالم نگاروں اور قارئین کو مبارک باد پیش کرتا ہے۔


روزنامہ کشمیر ایکسپریس ریاست جموں کشمیر کی تاریخ،جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا آمین ثابت ہوا ہے۔


جس نے بڑی جرتمندی و بیباکی سے ریاست جموں کشمیر کے منقسم عوام کے قومی سوال،عوامی امنگوں،مسائل اور وسائل کی بھرپور ترجمانی کا حق ادا کیا۔


ریاست جموں کشمیر کی اصل تاریخ و ادب،جغرافیہ اور حقیقی زمینی صورتحال و حقائق کو خوبصورت مدلل انداز میں منظر عام پر لایا۔


16مارچ1846ریاست جموں کشمیر کی تشکیل کا دن ہو یا 22اکتوبر تا27اکتوبر  1947ریاست پر بیرونی حملے،اقوام متحدہ میں تنازعہ پر مبنی قرداردادیں ہوں یا 11مارچ،11فروری کے ایچ خورشید کا یوم شہادت ریاست کی وحدت،قومی تشخص،تاریخ،ماضی و مستقبل اور وسائل و صورتحال سے جڑے جتنے بھی دن ہوں یا عوامل ان کا کشمیر ایکسپریس نے پوری سچائی و شعور کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔


ریاست جموں کشمیر کے قومی سوال اور اصل تحریک آزادی جموں کشمیر کو اجاگر کرنے، زندہ رکھنے میں بنیادی کردار اسی روز نامہ کشمیر ایکسریس کا ہی ہے۔شعور و سچائی کا ہی علم و سفر روزنامہ ہماری نسلوں میں پوری قوت و ترتیب سے منتقل کر رہا ہے۔


علاقائی،ملکی غرض کہ ایک ایک دیہات و یونین کونسل کے باشندوں و شہریوں کی امنگوں پر کشمیر ایکسپریس پورا اتر رہا ہے۔


ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں اس دن کو یاد رکھا جائے گا کہ جب چیف ایڈیٹر کشمیر ایکسپریس ایک پاکستانی روزنامہ میں بطور سنئیر صحافی و ممبر سٹاف کام کرتے تھے تو ان کے بھائی کی بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں شہادت ہوئی تو اس پیپر نے محض ایک دو کالمی چھوٹی سی لگائی جس پر زاہد تبسم کو احساس ہوا کہ پاکستان کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو ریاست جموں کشمیر کے عوام،شہداء کی قربانیوں کا احساس، فکر ہی نہیں  اگر اسی طرح یہ نظام رہا تو پھر ہماری جدوجہدو تحریک ان کی پسند ناپسند کے مرہون منت و  محتاج رہے گی،اسی قابل فخر،بروقت احساس و فکر اور تشخص و پاسبانی کے جذبے سے سرشار تیر و قلم کے اس شہسوار نے بیاد کاشر شہداء جموں کشمیر کے آمین و پشتبان روزنامہ کشمیر ایکسپریس کا اجراء کیا۔


اس اخبار کی بنیاد میں سردارزاہد تبسم کے شہید بھائی کا خون شامل ہے


یہ شہسوار قابل فخر اور عظیم ہیں جن کی جدوجہد و خدمات سنہری حروف میں مرقوم کی جائیں گی۔


بطور کالم نگار ریاست جموں کشمیر،قومی سوال،اس کے باشندے وسائل اور مسائل میرا موضوع رہا ہے،حکمران طبقہ،سامراج،قابض و کاسیہ لیسوں نے میری تحریروں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی ہے 


لیکن میرے تمام کالم روزنامہ کشمیر ایکسپریس،روزنامہ صدائے چنار اور سری نگر سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ چٹان نے پوری دیانت داری کے ساتھ بروقت شائع کیے۔


جس سے بخوبی نادازہ لگایا جا سکتا ہے یہ اخبار کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔


05اگست  کے بھارتی سرکار کی طرف سے ریاست کی خصوصی حثیت کے خاتمہ کے بعد سے اب تک جب ایک بڑا بحران ہے اس میں کشمیر ایکسپریس اور صدائے چنار نے بڑی جرتمندی و بیباکی سے سچائی و شعور کو پراون چڑھاتے ہوئے اصل حقائق عوام کے سامنے لائے ہیں ان حالات میں یہ اخبار پشتبان ثابت ہوا ہے۔


سیز فائر لائن پر گولہ باری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مسلہ ہوا تو سردار زاہد تبسم نے فوری طور پر نکیال سیکٹر کا دورہ کیامتاثرہ علاقہ جات کا وزٹ کیا اور تباہ کاریوں سے اقوام عالم کو متوجہ کیا،بنیادی انسانی حقوق کی بحالی و بازیابی،عوامی ضروریات و سہولیات کی عدم فراہمی کے جیسے بھی علاقائی،ملکی سماجی مسائل اگر کسی کو درپیش آئے تو اس پر اس خبار نے بھرپور سفارت کاری و نمائندگی کی۔


اسلام آباد میں جب روزنامہ صدائے چنار کے ایڈیٹر اعجاز عباسی کی توہین کر کے پوری قوم کے جذبات مجروع کیے گے تو سردار زاہد تبسم نے پاکستان کی دھرتی پر ریاست مخالفین و شر پسندوں کو جرتمندی سے للکارہ اور انصاف دلایا۔


سردار زاہد تبسم ایک غریب محنت کش کے بیٹے ہیں جہنوں نے دن رات محنت کر کے کشمیر ایکسپریس کو عالمگیر بنایا ہے۔


سردار زاہد تبسم آزاد منش ہیں جو کسی سرمایہ دار کے طرف دار نہیں۔


وفاق اور وفاقی جماعتوں کے تابع سیاسی جماعتوں اور آزاد جموں کشمیر کی روائیتی سیاست میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے مقابلہ میں سردار زاہد تبسم نے نوجوان سیاسی قیادت کو آگے لایا ان کی مکمل سپورٹ کی اور آج اگر وہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں تو ان کی کامیابی کی بڑی وجہ کشمیر ایکسپریس بھی ہے۔


کیونکہ پچھلے دس پندرہ سالوں سے میں ذاتی معترف ہوں کہ اس روزنامہ نے پسے ہوئے طبقات کو آواز دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سردار زاہد تبسم کو لوگ صرف صحافی کے طور پر ہی نہیں بلکہ پسے ہوئے طبقات کی عوام   انھیں ایک مسیحا،راہنماء اور پشتبان کے طور پر بھی مانتے ہیں۔


سردار زاہد تبسم نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اگر آج آزاد جموں کشمیر میں جرتمند و صحت مند صحافت ہے تو اس کا بھی یقنا سردار زاہد تبسم کو اعزاز جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے نمائندگان کی زبردست تربیت کی ہے اور جرتمند،بیباک نمائندگان کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔


یہی وجہ بنیادی وجوہات ہیں کہ سینکڑوں معروف اخبارات کی موجود گی میں کشمیر ایکسپریس اپنی فتح کے جھنڈے گاڑنے میں کامیاب ہوا ہے۔


جب15اپریل2003کو سردار زاہد تبسم نے کشمیر ایکسپریس نکالا اس سے قبل پاکستان کے اخبارات میں آزاد جموں کشمیر کے روایتی سیاستدانوں حکمرانوں کی صرف ایک کالمی خبر شائع ہوا کرتی تھی اور جس کی خبر شائع ہوتی تھی وہ اپنی خبر عوام میں دیکھا دیکھا کر خوش ہوتے تھے ایسے بے توقیری کے عالم میں جس طرح کے ایچ خورشید نے یہاں کے حکمرانوں سیاستدانوں کا جو وزرات امور کے سیکرٹری سے اپنا وظیفہ لینے کے لیے جاتے تھے انھیں اس دلدل سے نکال کر باوقار بنایا


 بلکل اسی طرح سردار زاہد تبسم نے بھی کشمیر ایکسپریس کا اجراء کر کے یہاں کے حکمرانوں،سیاستدانوں اور عوام کو اغیار کی محتاجی و ذلت سے نجات دلائی ہے۔


یہی وجہ ہے کہ اب یہاں کے عوام ریاستی اخبارات کو بڑے شوق سے سب سے زیادہ پڑھتے اور ترجیح دیتے ہیں۔


اس کالم کی توسط سے روزنامہ کشمیر ایکسپریس اور دیگر ذمہدارن کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرانا سمجھوں گا کہ موجودہ سرمایہدرانہ،طبقاتی نظام کے اندر شعبہ صحافت کے اندر بڑی تعداد میں فضول قسم کے بے مقصد لوگ گھس چکے ہیں اور رہے ہیں جنکو صحافت کی الف ب کا علم نہیں ہے،اور شعبہ صحافت کو انہوں نے محض اپنے گورھ دھندوں کے لیے ڈھال بنایا ہوا ہے۔


جن کی اپنی پسند ناپسند کی یا مخصوص ترجیحات ہیں یا پھر وہ بڑے بڑے سرمایہ داروں،متعصبوں یا قبیلوں یا مخصوص عناصر و نظریات کے کاسیہ لیس ہیں وہ عوام کے اصل مسائل اجاگر کرنے،انتظامیہ،اداروں،حکومتوں ریاست کی اجارہ داریوں،کرپشن،اختیارات کے ناجائز استعمال،لوٹ کھسوٹ کے راج بارے ان کی کارستانیوں کو منظر عام پر نہیں لاتے ہیں اورنہ ہی اس جانب توجہ دیتے ہیں۔


ان کا کام بالا دست،سرمایہ دار طبقہ یا انتظامیہ کی خوشنودی کرنا ہے ان کے ساتھ سلفیاں بنانا،ان کی خبریں لگانا جس سے آزاد صحافت کی اقتدار بری طرح مجروح ہو چکی ہیں۔


صحافت کے لیے سرمایہ لازمی عنصر ہے لیکن صحافت کو سرمایہ کا ذریعہ بنانا ایک مکرہوہ ترین عمل ہے اور سماج و سچائی کی بڑی تباہی اس حوالہ سے اخبارات مالکان و تنظیموں کو کچھ ایس او پیز طے کرنا چاہیں۔


تحریک جموں کشمیر کی اصل حقیقت کو اجاگر کرنے میں کشمیر ایکسپریس،صدائے چنار کا بڑا کلیدی کردار ہے،سوشل میڈیا اور ان اخبارات نے خیالات و افکار کا زبردست ذریعہ دستیاب کیا،آج عوام میں بڑی تیزی کے سطح شعور کی جو سطح بلند ہو رہی ہے وہ انھی کی مرہون منت ہے۔مقبول بٹ شہید نے کہا تھا کہ کسی شخص کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس کے ادھورے مشن کو پورا کیا جائے۔


لہذا آپ عوام سے اپیل ہے کہ شہیدوں کے اس آمین اخبار کے ساتھ بھرپور تعاون کریں،حالات سے باخبر رہنے کے لیے تازہ شمارہ باقاعدہ پڑھا کریں اور یہ اخبارات صرف اپنی مدد آپ ذاتی کاوشوں سے چل کر ہمارے لیے رابطہ کا پل بنتے ہیں انھیں سالگرہ خوشی کے موقع پر اشتہار بھی دیا کریں۔


اگر یہ اخبار مالی مجبوریوں کی وجہ سے التواء کا شکار ہوئے تو یاد رکھیے گا کہ ہمارا جو جیسا بھی تھوڑا بہت تشخص ہے وہ بھی چھین جائے گا۔


اس اخبارکو یہ بھی اعزاز جاتا ہے کہ مادری کلچر کو زندہ رکھنے اجاگر کرنے کے لیے گوجری اور پہاڑی میں بھی ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کیا تھا جو افسوس کے ساتھ اب بند کر دیا ہے کہ جبکہ ایڈیٹر صاحبہ کی طرف سے بول کے لب آزاد ہیں تیرے،سلسلہ کی دوبارہ اشاعت کے قارئین ابھی بھی منتظر ہیں۔


دعاہے کہ کشمیر ایکسپریس کا سفر جاری و ساری رہے اور بیاد کاشر شہید اور مسعود عالم چودھری شہید سمیت شہداء جموں کشمیر کی قربانیوں کے تحفظ اور اداھورے مشن کی تکمیل جدوجہد جاری رکھے۔(ختم شد)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...