نکیال آزاد کشمیرکرپشن کا راج اور اسٹنٹ کمشنر کی اجارہ داری؟؟؟
تحریر شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ۔ ہائی کورٹ،نکیال کوٹلی
تحریر شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ۔ ہائی کورٹ،نکیال کوٹلی
تحصیل و حلقہ نکیال فتح پور تھکیالہ کو شہیدوں مجاہدوں او غازیوں کی سرزمین کا اعزاز حاصل ہے۔
اس تحصیل و حلقہ کو پورے آزاد جموں کشمیر و پاکستان ممتاز حثیت حاصل ہے کیوں کہ اسی حلقہ کو دو مرتبہ آزاد جموں کشمیر کی صدرات اور وزرات اعظمی کی کرسی ملی ہے اور ہمیشہ اقتدار میں نمایاں بنیادی شراکت رہی ہے۔
جبکہ سیز فائر لائن کی بدولت نکیال سیکٹر کے نام سے مشہور یہ تحصیل بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے دو اضلاع ضلع راجوری اور پونچھ سے بھی متصل ہے
۔میرپور ڈویژن میں سیاحت کے حوالہ سے اس مقام کو منفرد اہمیت حاصل ہے لیکن ان تمام خصوصیات کے باوجود اس تحصیل کی عوام بنیادی حقوق کی عدم فراہمی سے پتھر کے زمانہ کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اب اس تحصیل کو کرپشن،رشوت خوری اور بیوروکریسی کی اجارہ داری کی من مانیوں و قصوں کا اعزاز بھی حاصل ہونے لگاہے جو کے شرمناک بات ہے۔نکیال میں گو کہ تعمیر و ترقی اور فاتح نکیال و تبدیلی،اخلاق و روایات کے بڑے پرچار کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن ان کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔برادری ازم،تعصب نفرت،قبئیلائی منافرت کی دلدل میں پھنسا یہ چھوٹا سا علاقہ اس وقت نکیال کے محکمہ جات،سرکاری ادارہ جات اور بلخصوص اسٹنٹ کمشنر نکیال سردار عمر فاروق اور ان کے عناصر کی قائم کردہ ریاست و چوہدراہٹ کی زد میں ہے۔عوام آج بھی پانی تعلیم،صحت علاج،روزگار اور بنیادی سہولیات و ضروریات کے لیے تر س رہے ہیں اور یہاں کے حکمران طبقہ نے ایسا کوئی سنجیدہ کام نہیں کیا جس سے پسماندگی کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکتا ہو،بلکہ ایسے نامساعد ترین حالات میں نکیال کے ان روایتی سیاستدانوں حکمرانوں نے نکیال کی بیوروکریسی کو عوام کے استحصال کی کھلی چھٹی لائسنس دے رکھا ہے بلکہ اس بیوروکریسی کو ان کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔نیچے سے اوپر تک بیورکریسی کا مضبوط مربوط منظم نیٹ ورک ہے جو عوام کے خون پسینے کی کمائی دولت و محنت کا استحصال کرتا ہے لیکن انھیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے۔نکیال میں ان اداروں کی کھلی بے حسی اپنی ذمہدا ریوں سے غفلت اور کرپشن اور اجارہ داری کی وجہ سے انسانی حقوق اور اخلاق و ذمہ داری فرض شناشی کا احترام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔بلکہ زمینی حقائق اور اس بیوروکریسی پر سے عوامی عد م اعتماد کی وجہ سے لگتا ہے کہ سرکار نے یہ ادارے صرف عوام کے استحصال اور ان کی بے عزتی کے لیے تشکیل دے رکھے ہیں۔
قارئین! ریاست سب کی ہوتی ہے اور ریاست ماں ایسی ہوتی ہے جس طرح ماں کو سب بچے عزیز ہوتے ہیں اسی طرح ریاست بھی سب کو اپنا شہری و فرد مانتی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ریاست کا نظام چلانے کے لیے انتظامیہ حکومت ایک بنیادی ادارہ ہوتا ہے جس کے زیر اہتمام عوام کی فلاح و بہبود،بہتری معیاد زندگی کی بلندی اور عوامی خدمات کے عوض مختلف ادارہ جات تشکیل دیئے جاتے ہیں۔جن کو سرکار تنخواہ پنشن مراعات و سہولات فراہم کرتی ہے ان خدمات کے عوض عوام سرکار کومختلف اقسام کے ٹیکس دیتی ہے۔غرض یہ کہ ان عوامی اداروں کی تنخوائیں عوامی جیب سے وصول کی جاتی ہیں۔نکیال میں بھی یہ تمام سرکاری ادارے عوامی فلاح و بہبود بہتری کے لئے قائم کر رکھے ہیں نہ کہ بیوروکریسی اور روایتی سیاستدانوں کی عیاشی و منافع کے لیے۔نکیال میں اس وقت متعدد عوامی ادارے ذاتی مسائل یا ادارتی مسائل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے قابل فرض شناش ذمہ دار آفیسران و ملازمین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اور زیادہ تر ادارے عوام کا استحصال کا باعث ہیں۔آج کے اس کالم میں نکیال انتظامیہ اسٹنٹ کمشنر کی اجارہ داری اور عوام مخالف اقدمات کی نشاندہی کرنا ہے۔قارئین! اسٹنٹ کمشنر کی پوسٹ تحصیل میں بنیادی ہوتی ہے اور بڑی خاص قسم کی جو مکمل طور پر عوامی ہوتی ہے اور عوامی خدمات کے نتاظر میں کچھ جوڈیشل اختیارات بھی ان کو حاصل ہیں۔لیکن نکیال میں ان تمام خوبیوں کے الٹ ہو رہا ہے۔اے سی نکیال عوامی خدمات کے بجائے باعث تکلیف عامہ ہیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔مثلا چند دن پہلے ایک عوامی و سماجی واقعہ کی مثال پیش کرتا ہوں کہ نکیال کے ایک معزز شہری پروفیسر عثمان نذیر جو کہ ایک ایماندار دیانت دار ہونے کے ساتھ کیمسٹری کے استاد ہیں۔ان سے زمین کی نقل کے سلسلہ میں ایک پٹواری نے سات ہزار،پھر تین ہزار یعنی دس ہزار روپے وصول کیے،چار ماہ تک چکر لگواتا رہا بعد ازاں چار ہزار کا مزید مطالبہ کیا کہ اے سی اور تحصیلدار نکیال کو بھی ہمیں حصہ دینا پڑتا ہے۔پروفیسر صاحب کو نقولات کی فیس کا علم نہیں بعد ازاں جب مزید مطالبہ پر موصوف کے علم میں ہوا تو انہوں نے رشوت لینے پر سوشل میڈیا پر ایک اپیل کی جس پر کرپشن رشوت مخالف سماجی تحریک سماج بدلو تحریک اور وکلاء کی لیگل فری امداد کے بنچ نے نوٹس لیا اور موصوف نے وکلاء کو پیروی کے لیے وکالت نامہ دیا،اے سی نکیال نے 4مئی کو طلب کیا اور ساتھ ساتھ چار مئی سے قبل پروفیسر کے خلاف ایس یس پی کوٹلی،تھانہ نکیال میں سائبر کرائم کی درخواست دے دی اور ساتھ دوکروڑ ہرجانے کا نوٹس بھی جس پر ان کے وکلاء نے سخت تشویش کا اظہار کیا اور سماجی برائی اور رشوت کی پشت پناہی کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے پر اے سی نکیال کو آڑے ہاتھوں لیا اور انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جس پر اے سی نکیال نے وکلاء کو اپنے دفتر میں بلا کر ان کی بدتمیزی کی،ان کے لائسنس معطل کرنے کا کہا اور پولیس و گرفتار کرنے کے لیے فون کیا،سنگین نتائج کی دھکمیاں دیں اور دفتر سے باہر نکال دیا معاملہ یہاں تک ہی نہیں رہا بلکہ اپنی مدعیت میں تھانہ نکیال میں درخواست دے کے ایف آئی آر بھی درج کروا دی۔اگر نکیال میں رشوت کرپشن مسائل خلاف نکے آواز بلند ہو یا دادرسی کے لیے اپلائی کیا جائے تو اے سی نکیال اس میں بنیادی خواہ مخواہ کے فریق بن جاتے ہیں۔جس پر عوامی،وکلاء،صحافی ،آزادی و سماجی،انسانی حقوق کے حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔اے سی نکیال کا کرپٹ مافیا کی سرپرستی کیسے جائز بنتی ہے؟ کارروائی کرنے کے بجائے جس سے رشوت لی گی انھیں اور ان کے وکلاء کو ہراساں کیا گیا،ایک ماہ قبل نکیال کوٹلی میں وکالت کرنے والے بزرگ سنئیر قانون دان کو آفس میں سب کے سامنے گالیاں دیں اور پولیس کے حوالہ کرنی کی کوشش کی گی جبکہ ایک اور نوجوان نے تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہایک نوجوان کو حق بات جائز مطالبہ پر پولیس کے حوالہ کرانے کی کوشش کی اور بدتمیزی کی،عام عوام کے دروزے بند کیے ہوئے ہیں،عوام سائلین کو بے جا تنگ کیا جاتا ہے ذلیل کیا جاتا ہے،قانونی معاملات کو التواء میں ڈالا جاتا ہے۔ییہ انتظامی آفسیر بھی ہیں لیکن جوڈیشل اختیارات بھی حاصل ہیں سیاسی و دیگر پروگراموں میں مہمان خصوصی کی زینت بنتے ہیں،دعوتیں رنگ بھرنگے کھانے کھاتے ہیں،ایک مخصوص لابی،بالا دست طبقہ کو اپنا منظور نظر بنایا ہوا ہے جو ہر وقت اے سی آٖفس میں رہتے ہیں ان کے سامنے عوام کا مذاق کیا جاتا ہے طنز کی جاتی ہے۔خواتین کو جان بوجھ کر بلدیہ ہال بی آئی سنٹر میں فٹ پاتھ سڑک میں بٹھایا جاتا ہے،پینے کا پانی فراہم نہیں کیا جاتا،باتھ رومز اوپن نہیں کیے جاتے،ماتحت آفسیران و ملازمین پر چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔نالیاں گندی ہیں،اشیائے خردو نوش کے من مانے ریٹ ہیں،ڈومیسائل کی بھاری ہزاروں میں فیس لی جاتی ہیں،کئی گھنٹوں بٹھا کر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے جو ڈومسیائل ریاست باشندہ بنانے کے لیے آتے ہیں ان کا بے بنیاد و فضول قسم کا غیر متعلقہ انٹرویو لیتے ہیں ان کی بے عزتی کرتے ہیں۔کرونا کرائسس میں حکومتی رٹ بحال کرانے مین ناکام رہے دن کو شہر میں جرمانے اور شام کو خود ہجوم میں انجوئے کر رہے ہوتے ہیں۔اور اپنے میڈیل،ڈگری اور انعامات گنتے رہتے ہیں۔نکیال میں پسند ناپسند ترجحیات کے قانون کی وجہ سے طبقاتی تفریق کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔اے سی نکیال بلا دست روایتی سیاستدانوں اور اپنے ٹاوٹ کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔حساس ایمرجنسی کی جو رقم آئی اس میں ڈرائیوز و دیگر کے سخت تحفظات ہیں کہ ہمیں رقم ادا نہیں کی گئی ہے؟سیز فائر لائن کے زخمیوں شہداء کے متاثرین کے مسائل حل نہیں کیے جاتے ان کی توہین بھی کی جاتی ہے۔اگر سماج کا باثر رکن پروفیسر،وکیل،نوجوان،دوکاندار، عورت وغیرہ کی عزت نفس محفوظ نہیں ان کا حشر نشر کیا جاتا ہے تو غریب محکوم پے ہوئے بے سہارہ عوام کا جو ستیاناس کیا جوتا ہو گا اس کا اندازہ بخوبی کر سکتے ہیں۔نکیال میں یہ واحد اے سی ہیں جن کے دور میں کرپشن رشوت عروج پر ہے،مسائل جوں کے توں ہیں بلکل مزید بڑھ رہے ہیں،ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ پیر کلنجر روڈ پر ایک سرکاری محکمہ کا ملازم پبلک ہیلتھ کا اندھے موڑ چڑھائی کی وجہ سے حادثے میں شہید ہو گیا جس پر مقامی ونوجوانوں نے سیکرٹری فیزیکل پللانگ اینڈ ہاونسگ ڈیپارٹمنٹ منصور قادر ڈار سے ملاقات کی اور اس جانب توجہ دلائی کہ ان کی بلنڈنگ کی چاردیواری کی وجہ سے اندھا موڑ ہے جس کی وجہ سے دو شہری شہید ہو چکے ہیں جس پر مظفر آباد سے مسمارگی کا کیس بنا لیکن اے سی نکیال نے تمام کا م مکمل ہو جانے کے بعد کہا کہ میں اے سی ہوں میں تحصیل کا سربراہ ہوں میں یہی رکاوٹ مسمار نہیں کرانے دوں گا میرے پاس اتنے اختیار ہیں کہ میں کسی کے گھر گھس کر دروازے توڑ سکتا ہوں؟اب ایسے افسیران کیا انتظامی پوسٹ پر ہونے چاہیں؟کیا یہ عوام کے ساتھ بھی مذاق نہیں ہے؟کیا اسٹنٹ کمشنر اور ان کے ماتحت کی ہی نکیال کے اندر اپنی چوہدراہٹ کی ریاست قائم ہے کہ اس کی پشت پناہی اعلی بیوروکریسی بھی کر رہی ہے۔اس کالم سے توسط سے حکام اعلی چیف سیکرٹری،بورڈ آف ریونیو،کمشنر،ڈی سی سے اپیل ہے کہ خدارا نکیال میں اے سی کی قائم چوہدراہٹ سے عوام کو بچائیں اور کرپشن بارے اعلی سطحی صاف شفاف کمیشن بنایا جائے،نکیال مین کسی سنجیدہ،ذمہ دار باشعور عوام دوست،انصاف پسند،میرٹ پسند،ٹاوٹ از سے پاک صاف،عام عوام کا مسیحا اور انتظامی معاملات کو سمجھنے والا نیاء منتظم لگایا جائے ورنہ وہ دن دور نہیں ہو گا جب یہاں کے عوام ایسے آفیسران سے نجات پانے کے لیے نمازیں پڑھیں گے؟؟؟(ختم شد)
قارئین! ریاست سب کی ہوتی ہے اور ریاست ماں ایسی ہوتی ہے جس طرح ماں کو سب بچے عزیز ہوتے ہیں اسی طرح ریاست بھی سب کو اپنا شہری و فرد مانتی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ریاست کا نظام چلانے کے لیے انتظامیہ حکومت ایک بنیادی ادارہ ہوتا ہے جس کے زیر اہتمام عوام کی فلاح و بہبود،بہتری معیاد زندگی کی بلندی اور عوامی خدمات کے عوض مختلف ادارہ جات تشکیل دیئے جاتے ہیں۔جن کو سرکار تنخواہ پنشن مراعات و سہولات فراہم کرتی ہے ان خدمات کے عوض عوام سرکار کومختلف اقسام کے ٹیکس دیتی ہے۔غرض یہ کہ ان عوامی اداروں کی تنخوائیں عوامی جیب سے وصول کی جاتی ہیں۔نکیال میں بھی یہ تمام سرکاری ادارے عوامی فلاح و بہبود بہتری کے لئے قائم کر رکھے ہیں نہ کہ بیوروکریسی اور روایتی سیاستدانوں کی عیاشی و منافع کے لیے۔نکیال میں اس وقت متعدد عوامی ادارے ذاتی مسائل یا ادارتی مسائل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے قابل فرض شناش ذمہ دار آفیسران و ملازمین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اور زیادہ تر ادارے عوام کا استحصال کا باعث ہیں۔آج کے اس کالم میں نکیال انتظامیہ اسٹنٹ کمشنر کی اجارہ داری اور عوام مخالف اقدمات کی نشاندہی کرنا ہے۔قارئین! اسٹنٹ کمشنر کی پوسٹ تحصیل میں بنیادی ہوتی ہے اور بڑی خاص قسم کی جو مکمل طور پر عوامی ہوتی ہے اور عوامی خدمات کے نتاظر میں کچھ جوڈیشل اختیارات بھی ان کو حاصل ہیں۔لیکن نکیال میں ان تمام خوبیوں کے الٹ ہو رہا ہے۔اے سی نکیال عوامی خدمات کے بجائے باعث تکلیف عامہ ہیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔مثلا چند دن پہلے ایک عوامی و سماجی واقعہ کی مثال پیش کرتا ہوں کہ نکیال کے ایک معزز شہری پروفیسر عثمان نذیر جو کہ ایک ایماندار دیانت دار ہونے کے ساتھ کیمسٹری کے استاد ہیں۔ان سے زمین کی نقل کے سلسلہ میں ایک پٹواری نے سات ہزار،پھر تین ہزار یعنی دس ہزار روپے وصول کیے،چار ماہ تک چکر لگواتا رہا بعد ازاں چار ہزار کا مزید مطالبہ کیا کہ اے سی اور تحصیلدار نکیال کو بھی ہمیں حصہ دینا پڑتا ہے۔پروفیسر صاحب کو نقولات کی فیس کا علم نہیں بعد ازاں جب مزید مطالبہ پر موصوف کے علم میں ہوا تو انہوں نے رشوت لینے پر سوشل میڈیا پر ایک اپیل کی جس پر کرپشن رشوت مخالف سماجی تحریک سماج بدلو تحریک اور وکلاء کی لیگل فری امداد کے بنچ نے نوٹس لیا اور موصوف نے وکلاء کو پیروی کے لیے وکالت نامہ دیا،اے سی نکیال نے 4مئی کو طلب کیا اور ساتھ ساتھ چار مئی سے قبل پروفیسر کے خلاف ایس یس پی کوٹلی،تھانہ نکیال میں سائبر کرائم کی درخواست دے دی اور ساتھ دوکروڑ ہرجانے کا نوٹس بھی جس پر ان کے وکلاء نے سخت تشویش کا اظہار کیا اور سماجی برائی اور رشوت کی پشت پناہی کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے پر اے سی نکیال کو آڑے ہاتھوں لیا اور انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جس پر اے سی نکیال نے وکلاء کو اپنے دفتر میں بلا کر ان کی بدتمیزی کی،ان کے لائسنس معطل کرنے کا کہا اور پولیس و گرفتار کرنے کے لیے فون کیا،سنگین نتائج کی دھکمیاں دیں اور دفتر سے باہر نکال دیا معاملہ یہاں تک ہی نہیں رہا بلکہ اپنی مدعیت میں تھانہ نکیال میں درخواست دے کے ایف آئی آر بھی درج کروا دی۔اگر نکیال میں رشوت کرپشن مسائل خلاف نکے آواز بلند ہو یا دادرسی کے لیے اپلائی کیا جائے تو اے سی نکیال اس میں بنیادی خواہ مخواہ کے فریق بن جاتے ہیں۔جس پر عوامی،وکلاء،صحافی ،آزادی و سماجی،انسانی حقوق کے حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔اے سی نکیال کا کرپٹ مافیا کی سرپرستی کیسے جائز بنتی ہے؟ کارروائی کرنے کے بجائے جس سے رشوت لی گی انھیں اور ان کے وکلاء کو ہراساں کیا گیا،ایک ماہ قبل نکیال کوٹلی میں وکالت کرنے والے بزرگ سنئیر قانون دان کو آفس میں سب کے سامنے گالیاں دیں اور پولیس کے حوالہ کرنی کی کوشش کی گی جبکہ ایک اور نوجوان نے تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہایک نوجوان کو حق بات جائز مطالبہ پر پولیس کے حوالہ کرانے کی کوشش کی اور بدتمیزی کی،عام عوام کے دروزے بند کیے ہوئے ہیں،عوام سائلین کو بے جا تنگ کیا جاتا ہے ذلیل کیا جاتا ہے،قانونی معاملات کو التواء میں ڈالا جاتا ہے۔ییہ انتظامی آفسیر بھی ہیں لیکن جوڈیشل اختیارات بھی حاصل ہیں سیاسی و دیگر پروگراموں میں مہمان خصوصی کی زینت بنتے ہیں،دعوتیں رنگ بھرنگے کھانے کھاتے ہیں،ایک مخصوص لابی،بالا دست طبقہ کو اپنا منظور نظر بنایا ہوا ہے جو ہر وقت اے سی آٖفس میں رہتے ہیں ان کے سامنے عوام کا مذاق کیا جاتا ہے طنز کی جاتی ہے۔خواتین کو جان بوجھ کر بلدیہ ہال بی آئی سنٹر میں فٹ پاتھ سڑک میں بٹھایا جاتا ہے،پینے کا پانی فراہم نہیں کیا جاتا،باتھ رومز اوپن نہیں کیے جاتے،ماتحت آفسیران و ملازمین پر چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔نالیاں گندی ہیں،اشیائے خردو نوش کے من مانے ریٹ ہیں،ڈومیسائل کی بھاری ہزاروں میں فیس لی جاتی ہیں،کئی گھنٹوں بٹھا کر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے جو ڈومسیائل ریاست باشندہ بنانے کے لیے آتے ہیں ان کا بے بنیاد و فضول قسم کا غیر متعلقہ انٹرویو لیتے ہیں ان کی بے عزتی کرتے ہیں۔کرونا کرائسس میں حکومتی رٹ بحال کرانے مین ناکام رہے دن کو شہر میں جرمانے اور شام کو خود ہجوم میں انجوئے کر رہے ہوتے ہیں۔اور اپنے میڈیل،ڈگری اور انعامات گنتے رہتے ہیں۔نکیال میں پسند ناپسند ترجحیات کے قانون کی وجہ سے طبقاتی تفریق کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔اے سی نکیال بلا دست روایتی سیاستدانوں اور اپنے ٹاوٹ کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔حساس ایمرجنسی کی جو رقم آئی اس میں ڈرائیوز و دیگر کے سخت تحفظات ہیں کہ ہمیں رقم ادا نہیں کی گئی ہے؟سیز فائر لائن کے زخمیوں شہداء کے متاثرین کے مسائل حل نہیں کیے جاتے ان کی توہین بھی کی جاتی ہے۔اگر سماج کا باثر رکن پروفیسر،وکیل،نوجوان،دوکاندار،
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں