نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بھارتی وزیراعظم کی کشمیر آمد، 27 سو کروڑ کا منصوبہ پر آزاد جموں کشمیر حکومت کا احتجاج ؟؟؟

بھارتی وزیراعظم کی آمد، 27 سو کروڑ کا منصوبہ اور احتجاج ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی ، سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال فتح پور تھکیالہ 03418848984 snsher02@gmail.com بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقے سونہ مرگ میں ستائیس ارب روپے کی لاگت سے بنائی گئی ایک جدید ٹنل کا افتتاح کیا ہے۔ ساڑھے چھ کلومیٹر طویل یہ سرنگ وادئ کشمیر کو لداخ سے ملانے والی شاہراہ پر بنائی گئی ہے، جس سے سری نگر کا لداخ سے ہر موسم میں رابطہ برقرار رہے گا۔ یہ ٹنل نہ صرف ایک شاندار شاہکار ہے بلکہ وادی کشمیر کے باشندوں کے لیے ایک نیا اور روشن مستقبل کی نوید بھی ہے۔ اسی وقت جب بھارت کی حکومت جموں و کشمیر میں ترقی کے نئے دور کا آغاز کر رہی ہے، پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکومتی بے عملی اور قیادت کی ناکامی بے نقاب ہو رہی ہے۔ یہاں کے حکمران طبقے کا دوہرا معیار عیاں ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم مودی کے دورے پر "یوم سیاہ" منانے والے یہ حکمران، جو پاکستان کی جانب سے ہزاروں کروڑوں روپے کے فنڈز اور امداد کے باوجود کچھ نہیں کر پائے، کس منہ سے بھارتی حکام کی مذمت کر رہے ہیں؟ یہ حقیقت یہ ہے کہ "آزاد جموں و کشمیر" بھی ایک متنازعہ علاقہ ہے، جو پوری ریاست جموں و کشمیر کا صرف بیس فیصد حصہ ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ بھی پوری ریاست کی تقدیر سے مشروط ہے۔ پھر ان حکمرانوں کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ بھارتی وزیرِ اعظم کے دورے پر احتجاج کریں؟ حالانکہ جب پاکستان کے وزیرِ اعظم، صدر اور حکمران یہاں آتے ہیں تو یہ انہی کے قدموں میں گِرے نظر آتے ہیں، ان کے استقبال کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور عوام کو مجبور کر کے ان کے استقبال کے لیے سڑکوں پر لاتے ہیں۔ ان پاکستانی حکمرانوں کی بے وقعتی کی انتہاء یہ ہے کہ جب بھارتی وزیرِ اعظم مودی اپنے خطے کی ترقی کے لیے پیکج دیتے ہیں، تو ان کی رقم اور منصوبوں کو یہ بے وقار حکمران مزاق بناتے ہیں۔اور اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں کرتے ہیں ۔ اور جب ان کو کوئی معمولی سا پیکج بھی ملتا ہے تو ساری عمر اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔ حالانکہ ان کے اپنے "آزاد جموں و کشمیر" کے عوام آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ کیا یہاں کوئی میگا پروجیکٹ ہے؟ کیا یہاں صحت، تعلیم یا بنیادی انفراسٹرکچر میں کوئی قابل ذکر بہتری آئی ہے؟ کیا یہاں کے حکمرانوں نے کبھی بھارتی حکام سے زیادہ ترقیاتی پیکج یا منصوبے طلب کیے ہیں؟ اس کا جواب شاید نہیں میں ہو گا۔ آزاد جموں و کشمیر کی پسماندگی کی یہ حالت ہے کہ یہاں کا کوئی صحت تعلیم روزگار سیر و سیاحت کا ادارہ پاکستانی پنجاب راولپنڈی پنجاب کے برابر بھی نہیں ہے ۔ یہاں کے لوگوں کو معمولی زخم بیماری پر راولپنڈی جانا پڑتا ہے ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان حکمرانوں کو بھارتی وزیرِ اعظم مودی کے منصوبوں پر تنقید کرنے کا کوئی اخلاقی جواز حاصل ہے؟ اگر یہ حکمران واقعی اپنے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے اپنے آپ کو بااختیار بنانا ہوگا، اپنی قانون ساز اسمبلی کو طاقتور بنانا ہوگا اور پھر حقیقی احتجاج کرنا ہوگا۔ تب ان کا احتجاج نہ صرف معقول ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی اہمیت ہوگی۔ آزاد جموں و کشمیر کے حکمران طبقے کو اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ حکمران عوام کی بنیادی ضروریات کے لیے کام نہیں کرتے، ان کے احتجاج کو محض ایک مذاق سمجھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہاں کے حکمران سڑکوں پر آ کر بھارتی حکام کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، تو ان کا موقف سچائی سے بعید اور بے وقعت نظر آتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر حکومتی سطح پر ترقی اور تبدیلی کے حقیقی اقدامات کیے جائیں تو پھر کسی بھی بیرونی طاقت کے خلاف احتجاج کی اخلاقی بنیاد بن سکتی ہے۔ تاہم، جب خود حکمران اپنی عوامی ذمہ داریوں سے غافل ہوں اور سہولت کار بنے ہوں تو ان کی جانب سے کسی بھی احتجاج کو صرف دکھاوا اور مفادات کے تحت سمجھا جائے گا۔ اس تحریر کا یہی مقصد ہے کہ جن حکمرانوں نے خود کو غلامی میں مبتلا کر رکھا ہے، ان کا بھارتی حکام کے خلاف احتجاج کرنا نہ صرف بے وقعت ہے بلکہ عوام کے لیے مزید گمراہی کا باعث بن رہا ہے۔پہلے خود کو بدلیں اس خطہ کو بدلیں ، اپنا معیار وقار بلند کریں اور اس کے بعد دوسرے کے شیشے کے محل میں بے شک پتھر ماریں ۔ ۔ جس طرح مودی کے دورے اور پیکج وہاں کے باشندوں کے مستقبل اور ریاست جموں و کشمیر کے قومی سوال کی حثیت اور تشخص کو مجروح کر رہے ہیں اور متاثر کر رہے ہیں اسی طرح آپ کے پاکستانی حکمرانوں کے اقدام بھی ہماری قومی آزادی کے لیے کسی موت سے کم نہیں ہیں۔ منقسم ریاست جموں و کشمیر میں بھارت پاکستان کی سرکاری سیاسی مداخلت کے باب بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ,منقسم خطوں میں احتجاج کی ضرورت ہے کہ ان کے ایک دوسرے سہولت کاروں کے خلاف عوام کو گمراہ کرنے سے بچایا جائے۔ ( ختم شد )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...