نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امریکہ لاس اینجلس میں لگی آگ پر جشن منانے والے جہالت کا شکار ہیں

امریکہ لاس اینجلس میں لگی آگ پر جشن منانے والے جہالت کا شکار ہیں ۔ تحریر شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ۔ نکیال /کوٹلی سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال فتح پور تھکیالہ 03418848984 03558383148 snsher02@gmail.com ہم امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں قدرتی آفت کے طور پر لگی آگ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی عوام کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں۔ لاس اینجلس میں اس وقت لوگ ایک مشکل اور آزمائشی گھڑی سے گزر رہے ہیں اور ہمیں اس وقت اپنے دلوں میں ہمدردی اور معاونت کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ "ہماری دعائیں، نیک خواہشات ، تمنائیں ان متاثرہ افراد کے ساتھ ہیں اور ہم دکھ کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نکیال فتح پور تھکیالہ بار ایسوسی ایشن میں 13 جنوری کو باقاعدہ اظہار یکجتی کا ایونٹ منعقد ہو رہا ہے جو خوش آئند ہے ۔ اور انسان دوستی پر مبنی ہے دنیا بھر میں قدرتی آفات آتی ہیں اور یہ نہ تو عذاب ہیں نہ آزمائشیں، بلکہ یہ قدرتی عمل کا حصہ ہیں، جس میں انسان کی غلطیوں اور نظام کی کمزوریوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔" یہ آفات ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ انسان کا وجود کتنی بھی ترقی کر لے، وہ قدرتی طاقتوں کے آگے عاجز ہوتا ہے۔ لاس اینجلس کی آگ کی طرح، دنیا کے مختلف حصوں میں قدرتی آفات کے دوران انسانوں کی بے بسی اور قریبی لوگوں کی مدد کی ضرورت ایک عالمی حقیقت بن چکی ہے۔ تاہم، اس حقیقت کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعض افراد اس سنگین حالات پر جشن مناتے ہیں، جو نہ صرف ان کے اخلاقی زوال کو ظاہر کرتا ہے بلکہ انسانیت کی بنیادی قدروں کو بھی پامال کرتا ہے۔ ان افراد کا یہ غیر ذمہو دارانہ رویہ نہ صرف ان کی اپنی پستی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ پورے معاشرتی نظام کو بھی سوالیہ نشان بنا دیتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جب ہمارے اپنے علاقوں میں قدرتی آفات آتی ہیں تو ہم دوسروں سے مدد کی توقع رکھتے ہیں، لیکن ہمیں اپنے وسائل اور انتظامات کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔ "آزاد جموں کشمیر میں 2005 کے زلزلے اور پاکستان میں آنے والے سیلابوں میں جب مغرب سے مدد لی گئی، تو کیا ان آفات پر جشن منایا گیا؟ نہیں، بلکہ ان کا ساتھ دینے کے لیے دنیا بھر سے حمایت کی اپیل کی گئی تھی۔" انجلینا جولی سمیت کتنے امریکی یورپی مرد و عورت تھے جو مظفرآباد باغ میں انسانیت کے نام پر اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے تھے ۔ آج بھی یورپ میں آزاد جموں و کشمیر کے تقریباً دس لاکھ لوگ برسر روزگار ہیں۔ جن کی بدولت یہاں نظام زندگی چل رہا ہے ۔ دیکھنے والی بات سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ امریکہ لاس اینجلس میں بھی اس آگ کی لپیٹ میں ہزاروں مسلمان ہیں ان کے گھر اور بچے ہیں۔ اگر آپ کی سوچ پر جایا جائے جشن منایا جائے تو پھر مسلمان گھرانے بچے کیوں آگ کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی مدد کی توقع رکھتے ہیں، لیکن خود اپنے ملک اور علاقے کی حالت سدھارنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتے۔ "یہ دوہرا معیار اختیار کرنے والے افراد، جو آج لاس اینجلس کی آگ پر خوشیاں منا رہے ہیں، وہ کل کسی آفات یا مصیبت کے وقت مغرب سے امداد کی درخواست کرنے میں پیش پیش ہوں گے۔" ایسے افراد کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں اور جب ضرورت ہوتی ہے، تو دنیا کے دیگر ممالک سے مدد کی امید کرتے ہیں۔ اگر انہیں اس آگ کے اثرات سے بچانے کے لیے ویزہ کی پیشکش کی جائے، تو یہ وہ لوگ ہوں گے جو سب سے پہلے لائن میں کھڑے ہوں گے۔ یہ دوہرا معیار ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ہمدردی اور انسانیت صرف دکھاوے تک محدود ہے، اور اصل میں ان کے دل میں نہ تو انسانیت کا درد ہے اور نہ ہی ہمدردی کا جذبہ۔ میں تحصیل نکیال آزاد جموں کشمیر کے ان نوجوانوں سے سوال کرنا چاہتا ہوں جو اس وقت جہالت میں جشن منا رہے کہ امریکہ جل رہا ہے ، کیا ان کو نکیال میں جنگلات میں لگی، ایک دو سال قبل شہر میں لگی آگ نظر نہیں آتی ہے۔ یہاں تو آپ کے پاس ایک دھکا اسٹارٹ فائر بریگیڈ ہے۔ جو عجوبہ ہے۔ جس میں پانی بھی نہیں ہوتا ہے ۔ نکیال میں تو ریسکیو کا محکمہ تک نہیں ہے ۔ نکیال میں دو ایکسویٹر مشین کے آپریٹر نوجوان کئی گھنٹے ریسکیو نہ ہونے کی وجہ سے سسکتے ہوئے مر گے ہیں۔ یہاں ایک کتا گیڈر کاٹ لے تو ویکسین نہیں ۔ فلسطین کے حق میں سب سے زیادہ منظم موثر بڑے احتجاجی مظاہرہ تحریک یورپ، امریکہ میں انسان دوستی کی بنیاد پر عوام نے کیے اور چلائی ہیں۔ نکیال آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان میں تو احتجاج ہی نہیں ہوئے ، جمعہ کے روز چند سینکڑوں تک مظاہرین تھے۔ بلکہ اسلام آباد میں تو فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والے پر ڈنڈے برسائے گئے ۔ یہاں چند مولویوں نے جہاد کا اعلان کیا لیکن اسکے بعد آج تک ان کا کوئی کرادر نظر نہیں آیا۔ اجتماعی بے حسی ، بے ضمیری کا مظاہرہ سامنے آیا تھا۔ "ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ قدرتی آفات اور ماحولیاتی بحران صرف انفرادی ممالک کا مسئلہ نہیں ہیں، بلکہ یہ عالمی سطح پر ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ ہمیں ایک مشترکہ عالمی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس تباہی کے اثرات کو کم کر سکیں اور ایک بہتر اور پائیدار مستقبل کی تشکیل کر سکیں۔" ہمیں اپنے معاشرتی، ماحولیاتی اور اخلاقی رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ "اگر ہم انسانیت کے حقیقی علمبردار بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے اندر وہ اخلاقی قوت پیدا کرنی ہوگی جو دوسروں کے دکھ میں شریک ہو، اور ان کی تکالیف میں ان کے ساتھ کھڑا ہو۔" ہمیں اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جب قدرتی آفات آئیں تو ہم صرف دوسروں سے مدد نہ مانگیں بلکہ اپنے نظام اور انتظامات کو بہتر بنا کر خود بھی ان آفات کا مقابلہ کر سکیں۔ "ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی دشمنوں کی تکلیفوں پر خوشی نہیں منائی، بلکہ ہمیشہ ان کی ہدایت کے لیے دعا کی۔ اسلام کا پیغام امن، انسانیت اور ہمدردی کا ہے، نہ کہ ظلم یا غیر مسلموں کی تکلیف پر جشن منانے کا۔" اسلام کی بنیاد بھی انسانیت کے فلسفہ پر قائم ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو کھیتی ، فصلیں، گھر ، جانور جلانے سے دشمنی میں درخت کاٹنے سے عورتوں بچوں کا پرامن نہتے لوگوں کا قتل کرنے سے بھی منع فرمایا ہے ۔ اصل مسلہ سوچ کا ہے۔ مجمند سوچوں کے بدلنے کا ہے۔ اِنسانیت کی بنیاد پر سوچ و بچار کرنا چاہیے ۔ "آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں دنیا کے زیادہ تر وسائل چند سرمایہ دارانہ قوتوں کے ہاتھوں میں ہیں، اور اسی نظام نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کو جنم دیا ہے۔ جب تک اس نظام کا خاتمہ نہیں ہوگا، تب تک تباہی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔" ایسے واقعات پر عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات کی تباہ کاری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے "یہ نظام، جو دنیا کے قدرتی وسائل کو اپنی مرضی سے قابو کرتا ہے، عالمی ماحولیاتی بحران کا ذمہ دار ہے۔ اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم قدرتی وسائل کا تحفظ کر سکیں اور عالمی سطح پر ماحولیاتی توازن برقرار رکھ سکیں۔"سرمایہ دارانہ نظام نے ماحولیاتی نظام تباہی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ ہمیں اپنی سوچ اور نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم انسانیت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں اور دنیا کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ "اگر ہمیں دنیا میں ایک بہتر تبدیلی لانی ہے تو ہمیں اپنے اندر کی اصلاحات پر کام کرنا ہوگا اور ایک ایسا معاشرہ بنانا ہوگا جو انسانیت کے اصولوں پر مبنی ہو، جہاں کسی کی تکلیف پر جشن منانے کی بجائے، ہم سب ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔" ہمیں اخلاقی تعلیمات بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی بحران اور معاشرتی ذمہ داریوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ افراد اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور عالمی سطح پر ایک ہم آہنگ، انسان دوست، کلائمیٹ دوست اور پائیدار، انصاف و مساوات مبنی غیر طبقاتی طور پر مستقبل کے لیے کوششیں کریں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...