نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آزاد جموں و کشمیر ، قانون ساز اسمبلی میں سور مار کمیٹی کا قیام ؟ ایک تجزیہ ۔

آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کا سور مار وزراء کمیٹی کا قیام: ایک تجزیہ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی 03418848984 snsher02@gmail.com پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں مورخہ 10 جنوری 2025 کو قانون ساز اسمبلی نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں سوروں (Pigs) کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خطرات اور ان کے سدباب کے لیے ایک وزراء کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کی تشکیل کا مقصد، خاص طور پر مظفرآباد میں سوروں کے جھنڈ کی تعداد میں ہونے والے اضافے اور اس کے انسانی زندگیوں پر اثرات کا جائزہ لینا ہے۔ اس کمیٹی کو اسلام آباد سی ڈی اے کے متعلقہ حکام سے رابطہ کر کے ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کمیٹی میں سردار محمد جاوید، راجہ فاروق حیدر، خواجہ فاروق احمد، سردار امیر اکبر خان، سردار ماجد خان، راجہ فیصل راٹھور اور اکمل سرگالہ جیسے وزراء اور ممبران اسمبلی شامل ہیں۔ مذکورہ نوٹیفکیشن کے بعد سوشل میڈیا پر اس کمیٹی کی تشکیل پر وسیع بحث اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ عوامی سطح پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا سوروں کے خلاف یہ کمیٹی ایک حقیقی اقدام ہے یا محض عوام کو خوش کرنے کے لیے ایک غیر مؤثر اقدام؟ کیا قانون ساز اسمبلی نے عوامی مسائل کو درستی سے سمجھا ہے یا اس کمیٹی کو محض ایک دکھاوا سمجھا جائے؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے اس نوعیت کی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں تو کیا یہ کمیشن اور کمیٹیاں اصل مسئلے کا حل فراہم کر پاتی ہیں؟ یہ سوالات اس کمیٹی کے قیام پر عوامی ردعمل کو بڑھا رہے ہیں۔ در حقیقت سوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد واقعی ایک حقیقی چیلنج بنتا ہے ۔ آزاد جموں و کشمیر میں سوروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر مظفرآباد اور نکیال جیسے علاقوں میں، جہاں ان جانوروں کی موجودگی نے فصلوں اور کھیتوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مقامی افراد اور کسانوں کا کہنا ہے کہ سوروں کے "جھنڈ " رات کو کھیتوں میں گھومتے ہیں، جس سے ان کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ کچھ علاقوں میں سوروں کا شکار بھی کیا جا رہا ہے، مگر ان کو مارنا اور دفن کرنا دونوں ہی پیچیدہ کام ہیں۔ اس صورت حال میں، حکومت کا یہ اقدام کہ سوروں کے تدارک کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے، بظاہر خوش آئند ہے، کیونکہ اس سے کم از کم یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ قانون ساز اسمبلی کو اس مسئلے کا علم ہوا ہے اور جس پر فوری ایکشن لیا گیا ۔ تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت صرف سوروں کے تدارک کے لیے کمیٹی بنا کر اپنی ذمہ داریوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ کیا سوروں کے علاؤہ مسائل موجود نہیں ہیں ؟ آزاد جموں و کشمیر کی پسماندگی ایک حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کی 45 لاکھ آبادی میں سے بیس لاکھ لوگ بیرون ملک روزگار کے لیے گئے ہوئے ہیں، اور 53 ممبران پر مشتمل ایک مہنگی قانون ساز اسمبلی ہے، جس کا اصل کام عوام کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ اس اسمبلی کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق، تعلیم، صحت، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ عوام آج بھی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ نہ تو یہاں کوئی معیاری تعلیمی ادارے ہیں، نہ ہی صحت کے مراکز۔ اس کے علاوہ، آزاد جموں و کشمیر میں کرپشن اور حکومتی بدعنوانی کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ یہاں کی مارکیٹوں میں پنجاب پاکستان کی سب سے گندی، زائد المعیاد، مضر صحت اشیاء خوردونوش باآسانی دستیاب ہیں، اور جعلی ادویات کا کاروبار بھی زوروں پر ہے۔ ان حالات میں سور مار کمیٹی کی تشکیل ایک سوالیہ نشان بنتی ہے، کیونکہ عوامی سطح پر پسماندگی اور عوامی مسائل پر کبھی کسی کمیٹی کا قیام نہیں کیا گیا۔نہ کوئی کوشش کی گئی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں کرپشن کی سطح انتہائی زیادہ ہے۔ یہاں کے عوام سرکاری اداروں اور حکومتی ملازمین کی بدعنوانیوں کے سبب شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ نہ صرف یہ کہ عوام کو صحت، تعلیم اور بنیادی ضروریات کی کمی کا سامنا ہے، بلکہ عوامی سطح پر رشوت، سفارش، اور تعصبات کی لعنت بھی پھیل چکی ہے۔ سرکاری محکموں میں کام کرنے والے اکثر ملازمین کو یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ کرپشن ان کا حق ہے۔ عوام کے لیے انصاف کا حصول ایک خواب بن چکا ہے، اور جو لوگ انصاف کے لیے کوشش کرتے ہیں، وہ سب سے زیادہ ذلیل اور خوار ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب حکومت نے کبھی عوامی مسائل پر سنجیدہ اقدامات نہیں کیے، تو یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ سور مار کمیٹی کا قیام کس حد تک عوامی مفاد میں ہے؟ کیا یہ کمیٹی صرف ایک عوامی تاثر پیدا کرنے کی کوشش ہے یا واقعی یہ کمیٹی سوروں کے تدارک کے لیے کوئی عملی اقدامات کرے گی؟ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے جو کمیٹی تشکیل دی ہے، اس کے پیچھے غالباً سیاسی مفادات کارفرما ہیں۔ کمیٹیاں بنانا، فنڈز کی تقسیم اور سیاسی فوائد حاصل کرنا حکومتی حلقوں کے لیے ایک معمول بن چکا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے حکمران طبقہ کا یہ محبوب مشغلہ ہے ۔ اب اس بارے خدشہ ہے کہ فنڈز بھی منظور ہوں گے۔ اور چانس ہیں کہ سور مار وزرات کا محکمہ بھی قائم نہ کر دیا جائے ۔ یہ بات اہم ہے کہ آیا یہ کمیٹی صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے قائم کی گئی ہے یا واقعی یہ عوام کے فائدے کے لیے کام کرے گی؟ سوروں کے تدارک کے لیے کمیٹی کا قیام ایک محدود اقدام نظر آتا ہے، کیونکہ ریاست میں بے شمار دیگر مسائل بھی ہیں جن پر کبھی کسی کمیٹی یا حکومتی ادارے نے غور نہیں کیا۔اب سوروں کو کیا کریں گے ، اب سوروں کے نام پر بھی مال بٹورنے کا نیاء حربہ ہے۔ سور مار کمیٹی میں کوٹلی ضلع کو نظرانداز کرنا ایک واضح اور غیر منصفانہ عمل ہے۔کوٹلی کے نصف درجن ممبران یا وزراء میں سے کسی کو سور مار کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا ۔ جبکہ مظفرآباد اور نکیال میں سوروں کے مسئلے کی شدت ہے، لیکن کوٹلی جیسے علاقے بھی اس مسئلے سے متاثر ہیں۔ سوشل میڈیا پر ضلع کوٹلی کے عوام نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ انہیں اس کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا، اور احتجاج کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یہ عوامی ردعمل اس بات کا غماز ہے کہ حکومتی اقدامات کو صرف کچھ مخصوص علاقوں تک محدود کرنا پوری ریاست کی نمائندگی نہیں کرتا۔سور مار فنڈ صرف مظفرآباد تک ہی نہیں ہونا چاہیے ۔ قارئین! یہ بات بھی اہم ہے کہ سور مار کمیٹی کے قیام کے پیچھے ایک ممکنہ مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت سوروں کے خلاف اقدامات کے نام پر فنڈز کی تقسیم کرے اور ان فنڈز کا صحیح استعمال یقینی بنائے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہو سکتی ہے، کیونکہ جب کسی مسئلے کو فنڈز کی بنیاد پر حل کیا جائے گا تو اس کا ممکنہ نتیجہ وہی ہو سکتا ہے جو چوہے مار کمیٹی کہانی کا تھا ۔ اس کہانی میں چوہوں کے خلاف کمیٹی بنائی گئی، حکومت تھک گی تو اعلان ہوا کہ لوگ چوہے پکڑ کر فروخت کریں گے اور لوگوں نے چوہے پال کر حکومت کو بیچنا شروع کر دیے۔جب چوہے ختم ہوئے تو حکومت عوام دونوں کا دھندہ بند ہو گیا پھر حکومتی ایماء پر لوگوں نے گھریلو چوہے پالنا شروع کر دئیے اور حکومت نے خریدنا ۔ آزاد جموں و کشمیر میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ سوروں کے تدارک کے نام پر ایک نیا کاروبار نا شروع ہو جائے۔ آزاد جموں و کشمیر کی سور مار کمیٹی کا قیام ایک سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔ جب ریاست میں دیگر عوامی مسائل کی حالت اتنی بدتر ہو، تو صرف سوروں کے تدارک کے لیے کمیٹی بنانا کوئی سنجیدہ حکومتی اقدام نہیں معلوم ہوتا۔ اگر حکومت واقعی عوام کی فلاح چاہتی ہے، تو اسے سوروں کے علاوہ دیگر مسائل جیسے کرپشن، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے نظام میں اصلاحات کے لیے بھی کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں۔ ایسے ناسور کے خلاف کام کرے جب تک حکومت عوامی مفاد میں سنجیدہ اقدامات نہیں کرے گی، سور مار کمیٹی جیسے اقدامات صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تک محدود رہیں گے۔قانون ساز اسمبلی کی جگ ہنسائی ہوتی رہی گی۔ (ختم شد)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...