نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حلقہ نکیال میں بلدیاتی انتخابات کے التواء کا سنگین مسئلہ؟

حلقہ نکیال میں بلدیاتی انتخابات کے التواء کا سنگین مسئلہ؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ، ہائی کورٹ، snsher02@gmail.com سیاست میں جمہوریت کی اصل حقیقت یہی ہے کہ عوام کی رائے کا احترام اور ان کے حقِ انتخاب کو یقینی بنایا جائے۔ سیاست کا مقصد عوام کی خدمت اور ملک و معاشرے کے نظام کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ سیاست کی بنیاد معیشت اور عوامی مسائل پر استوار ہوتی ہے، جو ہر حکومتی عمل کی سمت اور ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ اس تناظر میں، انتخابات کا بروقت انعقاد جمہوریت کی جان اور اس کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں۔ انتخابات، چاہے وہ قانون ساز اسمبلی کے ہوں یا مقامی بلدیاتی، ہر سطح پر عوام کی نمائندگی کی اصل علامت ہیں۔ اگر انتخابات نہ ہوں تو ملک کا سیاسی نظام اپنی ساکھ اور استحکام کھو دیتا ہے، اور ریاست ایک ایسے نظام میں تبدیل ہو جاتی ہے جہاں اقتدار غیر جمہوری طریقوں سے چلایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کو جمہوریت کی ایک اہم اساس سمجھا جاتا ہے جو نہ صرف عوام کی آواز کو بلند کرتا ہے بلکہ حکومتی اداروں کو عوام کے سامنے جوابدہ بھی بناتا ہے۔ سیاسی نمائندے، لوکل کونسلر اور ایم ایل اے عوامی مسائل کے حل کے لیے براہ راست عوام کے درمیان ہوتے ہیں، اور اگر یہ نمائندے فعال نہ ہوں تو عوام کے مسائل حل ہونے میں تاخیر ہوتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ عوام کو اپنے منتخب نمائندوں سے براہ راست جڑنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اب اگر ہم آزاد جموں و کشمیر کے حلقہ نکیال کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہاں کی عوامی مشکلات کا ایک واضح مثال سامنے آتا ہے۔ نکیال میں بلدیاتی نمائندگان کی سیٹوں پر انتخابات کئی ماہ سے التواء کا شکار ہیں۔ یہ مسئلہ صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں بلکہ عوامی اعتماد کا بھی معاملہ ہے۔ ان سیٹوں پر انتخابات نہ کرانے سے نہ صرف عوام میں بے چینی اور مایوسی بڑھ رہی ہے بلکہ انتخابی عمل کے ذریعے جمہوریت کی اصل روح بھی مجروح ہو رہی ہے۔ حلقہ نکیال میں چھ سے زائد لوکل کونسلر کی سیٹیں خالی ہیں، جن میں سے کچھ سیٹیں اراکین کی وفات کی وجہ سے خالی ہوئی ہیں، جبکہ دیگر سیٹیں این ٹی ایس کے نتائج کے بعد متعین ہونے والے ملازمین کی وجہ سے خالی ہیں۔ ان سیٹوں کی عدم تکمیل اور انتخابی عمل میں تاخیر عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا رہی ہے۔ اس کے باوجود، الیکشن کمیشن آف آزاد جموں و کشمیر نے اس معاملے پر کوئی واضح پیش رفت نہیں کی، جس کی وجہ سے عوام اور نوجوانوں میں یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ آخر ان انتخابات کا التواء کیوں کیا جا رہا ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن میں اس معاملے پر کوئی سنجیدہ دلچسپی نہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ نکیال کے عوام میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ شاید بلدیاتی انتخابات کو مزید ملتوی کرنے کی ایک سازش کی جا رہی ہے تاکہ منتخب نمائندے اپنے عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے حکومتی پالیسیوں کے تابع رہیں۔ اس صورتحال میں عوام کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور ان کا اعتماد حکومت اور الیکشن کمیشن پر کمزور ہو رہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے التواء کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل کے حل میں تاخیر کا سبب بنتا ہے۔ جب تک یہ انتخابات نہیں ہوتے، عوام کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے حکومت کے اعلیٰ حکام کے دروازے تک رسائی حاصل نہیں ہو پاتی، جس سے ان کے مسائل میں مزید پیچیدگیاں آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نکیال کی عوامی کمیٹی، جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے اس معاملے کی طرف توجہ دلانے کے لیے الیکشن کمیشن اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر خالی سیٹوں پر بلدیاتی انتخابات کرائے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 30 جنوری تک کی ڈیڈ لائن بھی دی ہے، تاکہ الیکشن کمیشن اور حکومت پر اس معاملے کو حل کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں، لیکن ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انتخابات کا انعقاد عوام کا حق ہے، جسے فوراً پورا کیا جانا چاہیے۔ الیکشن کمیشن اور حکومت کے لیے یہ ایک امتحان کا لمحہ ہے۔ اگر وہ اس معاملے پر فوری طور پر اقدامات نہیں کرتے، تو نہ صرف ان کی ساکھ متاثر ہوگی، بلکہ عوام میں حکومت کے بارے میں عدم اعتماد مزید بڑھ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام متعلقہ حکام کو اس مسئلے کو جلد حل کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ جمہوریت کی مضبوطی اور عوامی مسائل کے حل کی بنیاد رکھی جا سکے۔ آخرکار، جمہوریت کے حقیقی معانی صرف اس وقت سامنے آتے ہیں جب انتخابات بروقت اور شفاف طریقے سے منعقد کیے جائیں۔ بلدیاتی انتخابات کا التواء ایک سنگین مسئلہ ہے جسے جلد از جلد حل کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں اور ان کا اعتماد جمہوری عمل میں بحال ہو۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...