برفباری میں پھنسے وادی نیلم کے دکھوں کا مداوا کب ہو گا؟
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ
سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی
03418848984
snsher02@gmail.com
وادی نیلم، جو قدرتی حسن سے مالا مال ہے، ہر سال برفباری کے موسم میں ایک نیا عذاب بن جاتی ہے۔ یہ برف، جو ہر سال نیلم کی زمین کو ڈھانپ لیتی ہے، انسانوں کے لیے ایک قدرتی آزمائش بن جاتی ہے۔ برفباری فطرت کا حصہ ہے، جس کا سامنا دنیا بھر میں ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جب قدرتی آفات آتی ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے حکومتوں کی ذمہ داری کیا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک میں برفباری جیسے قدرتی حالات کو بہتر طور پر سنبھالنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور وسائل استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں برف کی صفائی، سڑکوں کی فوری مرمت، اور طبی سہولتوں کا مضبوط نیٹ ورک عوام کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔ اگرچہ برفباری ان ممالک میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، لیکن وہاں حکومتی ادارے اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرتے ہیں، تاکہ عوام کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
مثال کے طور پر فن لینڈ اور سوئیڈن جیسے ترقی یافتہ ممالک میں برفباری کا موسم ایک معمولی سی بات ہے۔ ان ممالک میں ہر سال شدید برفباری ہوتی ہے، لیکن حکومتی ادارے اور مقامی انتظامیہ اس قدرتی آفت کو اپنی طاقت بناتے ہیں۔ وہاں برف صاف کرنے کے لیے جدید مشینری کا استعمال کیا جاتا ہے، سڑکوں کو فوراً کھولا جاتا ہے، اور شہریوں کے لیے ضروری سامان اور طبی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ ان ممالک میں برفباری کو ایک چیلنج کے طور پر نہیں، بلکہ ایک معمول کے موسم کے طور پر لیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے مکمل حکمت عملی اور وسائل موجود ہیں۔
تاہم، یہاں آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے آج تک اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے، جس کے نتیجے میں نیلم کی عوام برفباری کی شدت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نیلم میں برفباری کے دوران سڑکیں بند ہو جاتی ہیں، طبی سہولتیں ناپید ہو جاتی ہیں، اور امدادی کارروائیاں انتہائی سست ہوتی ہیں۔ اس صورتحال کا سب سے بدترین اثر ان لوگوں پر پڑتا ہے جو طبی طور پر مشکلات کا شکار ہیں اور برفباری کے دوران ان تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
گزشتہ دنوں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس میں اپر گریس کی ایک خاتون، دختر غلام علی، جو راستے میں برف کے باعث سسک رہی تھی، زندگی کی بازی ہار گئی۔ اس کے بعد ناصرہ ولد محمد علی، عمر 21 سال، جو سات ماہ کی حاملہ تھی، بھی بیماری کی حالت میں طبی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث ہلمت آرمی اے ڈی ایس میں اللہ کو پیاری ہو گئی۔
یہ دونوں خواتین اپنی زندگی کی بازی ہار گئیں، کیونکہ نہ تو سڑکیں کھلی تھیں اور نہ ہی فوری طبی امداد میسر تھی۔ ان کی موت صرف قدرتی آفات نہیں، بلکہ حکومتی غفلت کا نتیجہ ہے۔
ان واقعات کے ذریعے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے برفباری کے دوران عوام کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے کسی قسم کی سنجیدہ حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ سڑکوں کی صفائی اور طبی امداد کی فراہمی میں ناقص حکمت عملی کی وجہ سے لوگوں کی جانیں خطرے میں ہیں۔ برفباری کے موسم میں سڑکوں کی بندش، امدادی مشینری کی کمی، اور موبائل سروسز کی بندش جیسی مشکلات نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر برفباری کے دوران سڑکیں بند ہوں اور طبی سہولتیں فراہم نہ کی جائیں، تو یہ صرف قدرتی آفات کا نتیجہ نہیں، بلکہ حکومت کی نااہلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جہاں برفباری سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور فوری اقدامات کیے جاتے ہیں، وہاں کے حکام نے عوامی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے نہ صرف سڑکوں کی صفائی کو ترجیح دی، بلکہ عوام کو فوری امداد فراہم کرنے کے لیے ہنگامی منصوبے بھی تیار کیے ہیں۔
لیکن یہاں آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے اس حوالے سے کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں اپنائی۔ نیلم جیسے علاقوں میں جہاں قدرتی خوبصورتی ہے، وہاں کے عوام کو سردیوں کے دوران برفباری کی شدت سے نمٹنے کے لیے بہترین سہولتوں کی ضرورت ہے، جو آج تک فراہم نہیں کی گئیں۔ حکومتی عدم دلچسپی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے نیلم کے عوام آج بھی پتھر کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
نیلم کے ان علاقوں میں سیرو سیاحت کی قدرتی خوبصورتی کا پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت کو ان عوام کے لیے فوری طور پر امدادی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سردیوں میں سڑکوں کی صفائی کے لیے جدید مشینری کا استعمال، طبی سہولتوں کی فوری فراہمی، اور امدادی کارروائیوں کے لیے ہنگامی منصوبے تیار کرنا ضروری ہیں۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو نیلم کے عوام کے دکھوں کا مداوا کبھی نہیں ہو سکے گا۔
یہ ایک چھوٹے سے علاقے کی عوام کا مطالبہ ہے کہ ان کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، اور انہیں زندگی گزارنے کے لیے بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ نیلم کی خوبصورتی کو ایک آفت میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ ہم وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ وادی نیلم کے عوام کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیں جو ان کی مشکلات کا فوری طور پر جائزہ لے اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔ اس کمیٹی کا مقصد عوامی فلاح کے لیے ضروری اقدامات تجویز کرنا اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔
یہ وہ وقت ہے جب حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہیے، تاکہ نیلم کے عوام بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح سکون کی زندگی گزار سکیں۔ وادی نیلم کی قدرتی خوبصورتی میں جنت کی جھلک ہے، مگر اس کی موجودہ حالت میں حکومتی غفلت اور نااہلی کے باعث یہاں کے لوگ مشکلات میں گھِرے ہوئے ہیں۔نیلم میں لوگ کبھی ٹریفک حادثوں میں کبھی سانحہ لیسوا میں تو کبھی برف تلے دب کر مر جاتے ہیں اتنی اموات تو طبعی موت سے نہیں ہوتی ہیں ۔ واری کشمیر میں بھی تو اس طرف برفباری ہوتی ہے لیکن وہاں کی حکومتوں نے حکمت عملی وسائل اور وقت کے تقاضوں عوامی مطالبات ، امنگوں کے مطابق برفانی مسائل کو تقریبا بہت بہتر کر دیا ہے۔
(ختم شد)
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں