نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تجاوزات، جنگلات کا کٹاؤ، اور غیر قانونی مداخلت کا سلسلہ دن بدن بڑھ رہا ہے، اور اب آگ کی صورت میں اس تباہی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔نکیال جنگلات تین دن سے مسلسل جل رہے ہیں ۔ حکام خاموش تماشائی بنے ہیں ۔

نکیال تین دن سےجلتے جنگلات: ذمہ دار کون؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ - نکیال راقم الحروف نے ایک ماہ قبل نکیال کے جنگلات میں لگنے والی آگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی پر روشنی ڈالی تھی، مگر بدقسمتی سے نہ صرف یہ صورت حال جوں کی توں ہے بلکہ اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ نکیال، میرپور ڈویژن کا وہ حسین خطہ ہے جہاں قدرتی خوبصورتی اور صحت افزا ماحول ہے، جہاں گھنے درخت اور مختلف قسم کے پودے، خاص طور پر چیڑھ کے درخت، ایک منفرد منظر پیش کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہاں کی جنگلاتی دولت کو قبضہ مافیا، محکمہ جنگلات اور انتظامیہ کی ملی بھگت نے تباہ کر دیا ہے ۔ تجاوزات، جنگلات کا کٹاؤ، اور غیر قانونی مداخلت کا سلسلہ دن بدن بڑھ رہا ہے، اور اب آگ کی صورت میں اس تباہی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔
جنوری 2025 کے مہینے میں راقم الحروف نکیال کے ایک درجن سے زائد مقامات پر جنگلات کو جلتے ہوئے دیکھا۔ خاص طور پر جھلکہ کا وہ جنگل جس میں نئی نباتات اور جنگلی حیات جیسے مور، بکریاں وغیرہ پائے جاتے تھے،اج تیسرے دن بھی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ تادم تحریر مسلسل جل رہا ہے ۔ جبکہ نرگل کریلہ کا دو دن جلتا رہا ہے ۔ اس دوران محکمہ جنگلات کے ملازمین، جنہیں آگ پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر کارروائی کرنی چاہیے تھی، آج وہ پانی اطلاع کے مطابق ، آج ڈی ایف او کوٹلی کو آگ کا علم ہونے کے بعد ردعمل پر آپس میں ایک دوسرے کو کال کر رہے تھے اور آگ بجھانے کے لئے مشاورت کر رہے تھے اور چند ملازمین جنہوں نے دیانتداری سے آگ بجھانے کی کوشش کی، وہ بھی تھک کر بے بس ہو چکے تھے۔ ان تمام حالات کے باوجود نہ تو کوئی مقدمہ درج کیا گیا، نہ ہی محکمہ جنگلات نے اس سنگین مسئلے کو سنجیدگی سے لیا۔اب تیسرے دن ڈی ایف او کوٹلی کی کال پر سوچ بچار کر رہے ہیں ۔جو کہ لمحہ فکریہ ہے ۔ حتی کہ ایک بھی درخواست نہیں دی ۔ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرائی جائے تو روائیتی سیاسی طبقہ متحرک ہو کر اپنے اپنے کارکنوں کو چھڑوا کر لے جائیں گے ۔ صورتحال کو سماج اور ماحول دشمنوں نے گھمبیر بنا دیا ہے ۔ ناسور بن چکی ہے ۔ نکیال کی انتظامیہ بھی مکمل خاموش ہے، حتیٰ کہ اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلدار جیسے افسران جنہیں جنگلات کے تحفظ کے لئے کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے، وہ بھی اس معاملے پر چپ ہیں۔بلکہ جنگلات پر قبضہ کے کیس مسائل جب اسسٹنٹ کمشنر ، تحصیلدار کورٹس میں آتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں ہی نہیں ہیں۔ حالانکہ کمیٹی کے ممبر ہیں ۔اگر لوگ ایک دوسرے کی شکایات نہ دیں اپنی ناراضگی کی بنیاد پر تو ایک ہفتہ میں سب کچھ ختم ہو جایے۔ جب محکمہ جنگلات بارے فارسٹ مجسٹریٹ کورٹ کوٹلی ہے۔ نکیال کا مجسٹریٹ کوٹلی میں بیٹھا ہے ۔ عوام ہزاروں روپے خرچ کرکے ذلیل خوار ہو کر کس طرح محکمہ جنگلات کے پاس کیس کرے۔ اس لیے جنگلات کی سماعت کا دائرہ کار سول ججوں کو دیا جائے۔ جوڈیشل کیا جائے اس نظام کو ۔ عوامی سطح پر بھی علماء کرام اور دیگر طبقے، جن سے یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ عوام کو آگاہ کریں گے اور اس کی روک تھام کے لیے کوئی قدم اٹھائیں گے، وہ بھی بے حسی کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ بس انہی تک نہیں نکیال وکلاء ، صحافی، تاجر، عوام سب اس حمام میں ننگے اور خاموش ہیں۔ نکیال کے عوام اس وقت شدید جہالت اور لالچ کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی سیاست نے عوام میں تعصب، نفرت اور موقع پرستی کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ وہ اپنے ہی مفاد کے لئے جنگلات کو جلا کر تباہ کرنے میں بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ یہ سیاسی جماعتیں، خواہ وہ پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ ن ہو یا پاکستان تحریک انصاف، اپنے سیاسی مفادات کے لیے جنگلات پر قبضہ کرنے میں ملوث ہیں۔ان کے پاس اپنے کارکنوں کی ایڈجسٹمنٹ کا یہی سب سے بڑا کارڈ ہے کہ جنگلات پر قبضہ کراؤ اور ووٹ لو ۔ نکیال کے حکمران طبقہ اور ان کے سیاسی حمایتیوں نے نہ صرف جنگلات کو فروخت کیا بلکہ ان کے خلاف ہونے والی کسی بھی کارروائی کو روک دیا، انتظامیہ ، محکمہ جات پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ جنگل تو ایک ہے لوگ کارکنان کی شکل میں ان دو روائیتی سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو گے جنہوں نے چھتری رکھ کی ہے۔ نتیجتاً جنگلات کی تباہی کی رفتار اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی واضح مثال نیشنل پارک کھنڈیال کی ہے، جسے حکمران طبقہ نے اربوں روپے میں فروخت کیا۔ نکیال میں لاکھوں کروڑوں کے جنگلات خالصے فروخت کر دییے گئے سلسلہ جاری ہے نکیال میں اس وقت جنگلات کی تباہی کی ایک اور وجہ وہ آبادکاری بھی ہے جو سیز فائر لائن سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے ہوئی ، درجنوں کالونیوں کی وجہ سے جنگلات سکڑے ہیں ۔ اب مقامی اور غیر مقامی ترقی حثیت تجاوز کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے ۔ اب یہ نکیال کے باشعور نوجوانوں پر منحصر ہے کہ وہ نکیال کے روایتی سیاسی نظام اور حکمرانوں کی سازشوں کو سمجھیں اور اس سے باہر نکل کر ایک حقیقی سیاسی متبادل فراہم کریں۔ ان حالات میں، جب تک نکیال کے عوام کو ایک مضبوط سیاسی رہنمائی نہیں ملے گی، یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔عوام کی ذہنی نشوونما کے لیے سائنسی سیاسی بنیادوں پر متبادل نظام ہی اس نظام کی تباہی کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو دو سال بعد نکیال کا وہ حسین منظر ایک تباہ کن حقیقت بن جائے گا، جس میں انسانوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ پیدا ہو گا۔ نکیال کے جلتے جنگلات، ان کے اٹھتے دھویں کے ساتھ، حکام کی گڈ گورننس کے دعووں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہیں اور سب کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں۔ (ختم شد)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...