نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نکیال تعلیمی مسائل پر عوامی تشویش ، تشویشناک ، نکیال کے بڑھتے ہوئے تعلیمی مسائل کو حل کیا جائے ۔ نکیال میں سرکاری ڈھانچہ تنزیلی کا شکار ہے ۔

نکیال: حکام تعلیمی مسائل اور ٹیچرز کے آن ڈیوٹی معاملات پر عوامی تشویش دور کریں شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال راہنما جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی 03418848984 نکیال، کریلہ مجہان اور دھروتی موہڑہ میں ٹیچرز کے آن ڈیوٹی معاملات کے حوالے سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، جو حکام کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے جسے فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کی تکلیف اور بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گورنمنٹ مڈل سکول کریلہ مجہان نکیال کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ گورنمنٹ بوائز مڈل سکول کریلہ مجہان کے تین ایلیمنٹری ٹیچرز کو ترکنڈی کھنڈہار اور کھنڈہار بالا میں آن ڈیوٹی بھیجا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں علاقے کے بچوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ یہ اس لیے اور بھی سنگین ہے کہ اس اسکول میں پہلے ہی چار ٹیچرز کی کمی ہے، اور اس فیصلے سے بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح، گورنمنٹ بوائز مڈل سکول دھروتی موہڑہ میں بھی تعلیمی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہاں 250 سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں، اور سالانہ امتحانات کے قریب ہونے کے باوجود، گزشتہ دنوں ڈی۔ای۔او صاحب کوٹلی نے اس اسکول کے ٹیچرز کو غیر قانونی طور پر آن ڈیوٹی مختلف علاقوں میں بھیج دیا۔ ان اقدامات سے عوامی غم و غصہ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ متاثرہ علاقوں کے عوام نے این ایس ایف اور نیپ کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرائی ہے، اور ترقی پسند سیاسی رہنماؤں نے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ حکام کو یاد رکھنا چاہیے کہ ٹیچرز کے آن ڈیوٹی تبادلے ایسے تعلیمی اداروں میں جہاں پہلے ہی ٹیچرز کی کمی ہو، ایک سنگین مسئلہ بن جاتے ہیں۔ جب ٹیچرز کو غیر ضروری طور پر دوسرے علاقوں میں بھیجا جاتا ہے، تو اس سے کئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں تعلیمی معیار میں کمی، طلباء کی تعلیمی کارکردگی پر اثرات، اور تسلسل کا فقدان شامل ہیں۔ اساتذہ کا تسلسل انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاکہ طلباء اپنی تعلیمی سفر میں استحکام محسوس کریں۔ بار بار ٹیچرز کی تبدیلی سے طلباء کی تعلیم میں تسلسل کا فقدان پیدا ہوتا ہے اور وہ ذہنی طور پر غیر مستحکم ہو جاتے ہیں۔ اساتذہ پر اضافی بوجھ، جب اساتذہ کو اضافی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں، تو وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا اثر ان کی کارکردگی پر پڑتا ہے اور طلباء کو درست طریقے سے تعلیم دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ علاوہ ازیں، آن ڈیوٹی تبادلے کے باعث کم تجربہ کار اور کم تعلیم یافتہ اساتذہ کی تعیناتی کا امکان بڑھتا ہے، جو تعلیمی معیار کو مزید کمزور کرتا ہے۔ تعلیمی ماحول میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت بھی نمودار ہوتی ہے۔ طلباء کے لیے جب اساتذہ کی موجودگی غیر مستقل ہو، تو یہ ان کے ذہنی سکون میں خلل ڈال دیتا ہے اور وہ تعلیمی ماحول میں بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ خاص طور پر امتحانی نتائج پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹیچرز کی کمی اور ان کے تبادلے کا براہ راست اثر طلباء کے امتحانی نتائج پر پڑتا ہے۔ خاص طور پر جب امتحانات قریب ہوں، تو طلباء کی تیاری متاثر ہوتی ہے اور ان کے نتائج خراب ہو جاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے، امتحان قریب ہیں۔ حکام کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس اقدام سے مقامی سطح پر حکومتی فیصلوں کے خلاف ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے، اور یہ عوامی تنقید کا باعث بنتا ہے کہ حکام تعلیمی اداروں کی ضروریات کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ نکیال کے تعلیمی اداروں کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ ٹیچرز کی کمی، اسکولوں میں فرنیچر اور بنیادی سہولتوں کی کمی، اور بوسیدہ عمارتیں ان تمام مسائل نے طلباء کی تعلیم میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ زیادہ تر اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خستہ حال ہو چکی ہیں، اور بچے آج بھی پتھروں کے زمانے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا غماز ہے کہ حکام نے تعلیمی شعبے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں سنگین غفلت برتی ہے۔ نکیال میں تعلیمی مسائل حل کرنے میں حکومتیں اور حکام مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ آن ڈیوٹی کے فیصلے بالکل ناقابل فہم ہیں کیونکہ ان اداروں میں پہلے ہی اسٹاف کی کمی ہے۔ ان اقدامات سے عوام کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ کس قسم کے انصاف یا میرٹ پر یہ فیصلے کیے جا رہے ہیں؟ موجودہ حکومت تعلیمی اداروں کو مفلوج کر کے نجی تعلیم کے کاروبار کو فروغ دے رہی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم کو کمزور کر کے، تعلیم کو ایک تجارتی کاروبار میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جو عوام کے حق میں نہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومتوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ تعلیم کو سب کے لیے مفت اور یکساں بنایا جائے، اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے۔ غریب کے بچے آج بھی سخت حالات میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ امیروں کے بچے پرائیویٹ اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس طبقاتی تفریق کو ختم کرنے کے لیے نوجوانوں اور طلبہ کو چاہیے کہ وہ اس نظام کے خلاف آواز اٹھائیں اور حکمرانوں کے اس استحصالی نظام کا محاسبہ کریں۔ عوامی مطالبات کو نظرانداز کرنے والے حکام کا احتساب ضروری ہے تاکہ وہ تعلیمی حقوق کے معاملے میں شفافیت، انصاف اور برابری کا احترام کریں۔ سرکاری ٹیچرز، وزیر ، مشیر، حکمران طبقہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرائیں ۔ آن ڈیوٹی یا آف ڈیوٹی نہیں، عوام کا مطالبہ ہے کہ حکمران طبقہ معیاری، شفاف، یکساں اور مفت تعلیم فراہم کرے۔ جب تک یہ مطالبات پورے نہیں ہوتے، تب تک استحصال کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہمیں تعلیم چاہیے۔ (ختم شد)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...