نکیال سیز فائر لائن تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کو دو کس جدید ایمبولینس فراہم کی جائیں ۔ سیز فائر لائن کے عوام کو نظر انداز کرنا تشویشناک اقدام ہے ۔ عوام علاقہ نکیال کے حقوق پر شب خون کیوں مارا جاتا ہے ۔ پہلے بھی سیز فائر لائن نکیال کے لیے ایمبولینس فائر بریگیڈ ائی لیکن نکیال کو فراہم نہیں کی ھی۔ نکیال کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ عوام علاقہ سراپا احتجاج کیوں ؟؟؟
https://www.facebook.com/share/p/1BQDa2GeFi/
نکیال،آزاد کشمیر صحت کے مسائل اور تیس سال پرانی ایمبولینس؟؟؟ نکیال کو ایمبولینس دی جائے
شاہ نواز علی شیرایڈووکیٹ۔نکیال
ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ، راہنما جموں کشمیر نیپ ، سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال
صحت ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔
ریاست آزاد جموں کشمیر،سیز فائر لائن کی سب سے زیادہ متاثرہ تحصیل و حلقہ نکیال کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد عوام کو صحت کی یکساں،بنیادی و جدید سہولیات و ضروریات فراہم کرنے میں بہتر سالوں سے ناکام ہے۔
جس کی وجہ سے صحت کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اس حوالہ سے ریاست حکومتوں و حکام کی جانب سے آج تک عدم دلچسپی و غیر سنجیدگی کامظاہرہ کیا گیا۔
حالانکہ یہ تحصیل سیز فائر لائن کی وجہ سے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے دو اضلاع ضلع راجوری اور پونچھ سے متصل ہے ستر فیصدحد متارکہ کے رقبہ سے جڑی ہے جس کی وجہ سے اکثر بھارتی گولہ باری و جنگی جنون و جارحیت کا نشانہ بنی رہتی ہے۔
گولہ باری کی وجہ سے اب تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہو چکا۔لیکن اس کے باوجود صحت کی سہولیات و ضروریات کی فراہمی اور ادارتی مسائل کے خاتمہ کو یقینی نہیں بنایا جا سکا۔نہ ہی کوئی مثبت،انقلابی،تبدیلی کے حامل اقدمات کیے گے نہ اصلاحات؟؟؟
صحت بارے ڈیڑھ لاکھ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ معمول بنا ہوا ہے۔ صحت جیسے بنیادی مسلہ سے جڑے ہیلتھ سنٹر کے علاوہ دیگر شعبہ جات مثلا صفائی کا نظام،بنیادی صحت کی تعلیم اور آگاہی کو بہتر ہی نہیں کیا گیا۔مثلا ٹائیفائیڈ سیوریج نظام سے پھیلتا ہے اس کا جراثیم انسانی فضلے سے سیورج لائنوں سے پینے کے پانی میں شامل ہوکر صحت کو متاثر کرتا ہے۔
غرض یہ کہ وائرل بیماریوں کا علاج زیادہ احتیاط اور بہتر نکاسی آب کے نظام میں پوشیدہ ہے علاوہ ازیں بنیادی تعلیم،صحت کی تعلیم،کھانے کے معیاراور ترسیل کے نطام،زبردست مضبوط فعال میونسپلٹی کا نظام و دیگر محرکات و لوازمات یقینا صحت کی صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن یہاں تو ون ہیلتھ کنسپٹ کا تصور ہی نہیں۔
اس ریاست میں صحت کے مسائل اور ان کااصل حل کیا ہے یہ ریاست،حکومتوں اور محکمہ صحت کا سبجیکٹ نہیں؟اگر ریاست چاہیے تو ستر فیصد بیماریوں کا خاتمہ عملی صحت پالیسی کے نفاذ سے ممکن ہے۔
لیکن اچھی خالص خوراک و متوازن غذا کا انتخاب، ورزش،صاف معیاری پینے کا پانی اور سیورج نظام پر کنٹرول جیسے بنیادی اقدمات کون کرے۔
یہاں تو ویکسی نیشن،ماحولیاتی صفائی،نکاسی آب کا نظام،ہیلتھ کئیر انفراسٹریکچر اور بجٹ بارے حکومتی اقدمات مایوس کن ہیں،قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکامی کے علاوہ کوالٹی کنٹرول کا مسلہ جوں کا توں ہے
شہریوں کو یکساں صحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی آئینی و قانونی اخلاقی ذمہ داری ہے۔آج بھی عوام کے ٹیکسوں کا روپیہ عوام کی صحت و تعلیم فلاح و بہبود پر نہیں لگایا جا تا اور زاکوت کے روپے سے یہاں کا حکمران طبقہ بیرون ممالک میں کئی مرتبہ علاج کروا چکا ہے۔
بلکہ حکومتیں اپنی سرکاری سرپرستی میں ان اداروں کو غیر فعال بنا کر بیماریوں،مایوسی کے مسکن، اتائیت کے مراکز،کرپشن،لوٹ مارمافیا بنا چکیں۔
تحصیل ہیڈ کواٹر،بنیادی صحت مرکز،رورل سپورٹ سنٹرز میں ڈاکٹروں،سٹاف کی شدیدکمی ہے۔جو ڈاکٹرز موجود ہیں ان کی بڑی تعداد گاوں یا سیز فائر لائن کے مضافاتی سینٹرز میں جانے کو ہی تیار نہیں۔
اتائیت،غیر تربیت یافتہ دائیوں،نیم حکیموں اور جعلی ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹور،کلینکس کی بھرمار ہے۔
ڈرگ انسکپٹر کبھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔ہسپتال ڈسپنسریوں میں سہولیات،سازو سامان،ادویات اور سٹاف کا سنگین فقدان ہے۔
ہسپتالوں میں تعنیات ڈاکٹرز کی ذاتی دلچسپی اپنے کلینکس کیجانب ہے۔بغیر لائسنس کے کلینکس نے نیشنل ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنیوں کی جعل ساز،ناقص غیر معیاری ادویات کی ترسیل سے لوٹ سیل کے دروازے کھولے ہیں۔جہنوں نے ڈاکٹروں کو ان کی فلاح و بہبود کے نام پر مختلف پیکجز سے خرید کر بطور ہتھیار استعمال کیا ہوا ہے۔
ادروں کے مسائل خاص طور پر مین پاور کی کمی کی وجہ سے ادارے دستیاب وسائل کے ساتھ آٹے میں نمک کے برابر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جس سے غریب سفید پوش مجبور عوام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حکام کی طرف سے ان اداروں کے مسائل ختم کرنے،ادویات کی کمی کو پورا کرنے،معاملات کی چیکنگ،مانیٹرنگ کا فعال آزادانہ اور شفاف نظام ہی موجود نہیں۔ادویات کے عمدہ معیار کا اب تصور ہی رہ گیا۔
قسط نمبر 2،آخری قسط
روزانہ سیکنڑوں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت و حیات کی کشمکش میں غربت کسمپرسی بے بسی کے عالم میں جن کے پاس ایک سو روپے کرایہ بھی نہیں ہوتا جب ٹی ایچ کیو میں آتے ہیں تو ادویات کی کمیابی کا عذاب ان کی زبوں حالی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔
یہ ہسپتال علاج کی جگہ ہونے کے بجائے مرض خانہ تصور کیا جاتا ہے۔ اک اک کر کے مر گے سارے سب چیخیں خاموش ہوئیں۔بستی کا رکھوالا سمجھا روگ کٹے بیماروں کے۔
کہنے لکھنے پڑھنے اور بولنے کو تو یوں تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال ہے لیکن اس کے اندر موجود سہولیات،سٹاف،اداویات و ضروریات کی کمی و تشویشناک صورتحال کے تناظر میں یہ عملا ایک بنیادی ہیلتھ یونٹ کی حثیت کا حامل ہے۔
یہ ہسپتال ضلع کوٹلی کا پہلا ٹی ایچ کیو ہے جس پر پوری سیز فائر لائن اور ڈیڑھ لاکھ نفوس کا براہ راست لوڈ ہے۔
حالانکہ کاغذوں اور زمین پر تو قمروٹی،کریلہ اور ڈبسی میں رورل ہیلتھ سنٹرز ہیں جبکہ موہڑہ،جندروٹ متھرانی میں بی ایچ یو لیکن وہ بھی سٹاف،عمارتوں،ادویات سہولیات کی کمی کے باعث محض ڈھانچے ہیں۔
جہاں شاید فرسٹ ایڈ تک کی سہولت موجو د نہیں۔اور نہ ڈاکٹرز نے ان کے منہ دیکھے؟
پچاس بیڈ پر مبنی ٹی ایچ کیو نکیال میں اس وقت ڈاکٹرز کی کمی ہے پوسٹیں انتہائی کم ہیں خاص کر ایم اوز کی۔مین پاورز کی کمی مسائل کی جڑ ہے۔
ضلع کوٹلی میں تحصیل سہنسہ کا ہسپتال تقریبا مثالی ہے کم ازکم اس ہسپتال کو سہنسہ کے مساوی تو کرنا چاہیے۔
گولہ باری کی وجہ سب زخمیوں کو اسی ہسپتال میں لایا جا تا ہے جہاں بعد ازاں طبی امداد کوٹلی ریفر کر دیا جاتا ہے۔
ہسپتال کا سالانہ بجٹ انتہائی کم ہے جو تقریبا چھبیس لاکھ کے قریب ہے حالانکہ اس کا بجٹ ایک کروڑ سے زائد ہونا چاہیے۔روزانہ او پی ڈی کے اڑھائی سو سے زائد مریض ہوتے ہیں جہنیں اگر پیناڈول کی ایک ایک گولی بھی دی جائے تو وہ بھی پوری نہیں ہوتی۔
ادویات کا کوٹہ آج تک نہیں بڑھایا گیا۔ماہانہ مریضوں کی تعداد تقریبا آٹھ ہزار سے زائد بنتی ہے۔
بجٹ کے حساب سے نکیال کے آبادی کے تناسب سے ریاست تقریباپانچ روپے صحت پر خرچ کرتی ہے؟؟؟
ریاڈیالوجسٹ اور میڈکل سپیسلٹ ایم اوز کی پوسٹیں ہی نہیں۔سرجن آتا ہی نہیں ہے، بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر ہی نہیں۔
چار دیواری کا مسلہ ابھی تک برقرار ہے۔ ڈیجیٹل ایکسرے مشین بنیادی ضرورت ہے لیکن بہتر مشینری نہیں۔
ٹی ایچ کیو کا ایک ہی یکساں نعرہ اور منشور ہے کہ مریض کوآتے دیکھ کردور سے کہتے ہیں کہ فوری طور پر ڈی ایچ کیو کوٹلی یا پنڈی ریفر کر دیں۔
تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال کی دو ایمبولینس ہیں جو تیس سال پرانی،کٹھارہ،زنگ آلودہاپنی بوسیدہ حالت میں موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔
ایک ماہ قبل فرنٹ ہیڈ لائٹ لگائی گی،ایمبولینس کا اسٹریچر فیکسڈ ہے۔جس کو اترا کر باہر نہیں لے جایا جا سکتا ہے۔
فرسٹ ایڈ کٹ،کرونا سے بچاو کی کٹ،آکسیجن سلنڈر نہیں ہے،جب کوئی مریض آتا ہے تو بہت بڑاسلنڈر ایمبولینس میں رکھا جاتا ہے اور مریض کے ورثاء کو کہا جاتا کہ اس کو پکڑ کر رکھیں،
نکیال سے کوٹلی لے جاتے ہوئے کوئی مرتبہ یہ ایمبولینس خراب ہوتی ہے۔کئی مرتبہ ٹائر پھٹے ہیں۔کبھی کبھی دھکے لگانے پڑتے ہیں۔
محکمہ صحت کے ملازم ڈرائیوز تیس سال سے ایک ایمبولینس کو نہیں بلکہ ایک زندہ نعش کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
ایمبولینس بارے ہم نے ڈرائیور کا انٹرویو لیا جو سماج بدلو تحریک کے فیس بک کے آفیشل پیج پر موجود ہے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
ڈارئیور بہت دیانت دار،ذمہ دار اور تجربے کار ہے لیکن محکمہ و حکومت کی نااہلی کا شکار ہیں کہ انھیں جدید ایمبولنس نہیں دی گئی ہیں۔
سیز فائر لائن کی وجہ سے ستر سے زائد ہید،سینکڑوں معزور،زخمی ہوئے،اربوں کا مالیتی نقصان ہوا،لین عوام کے مایل کا حل نہیں نکالا گیا۔
ایک فوجی آفسیر گولہ باری سے مرتا ہے تو اس کو ہیلی کاپٹر پر لے کر جاتے ہیں جبکہ عوام کو تیس سالہ ایمبولینس دی ہوئی ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ سے درخواست ہے کہ اس گاڑی کو لے جا کر اپنے عجائب گھر میں رکھیں کیونکہ پورے آزاد کشمیر میں ایک نایاب عجوبہ ہے ۔
نکیال میں تعمیر و ترقی اور فاتح نکیال کے دعوے کرنے والوں اور ریاست کے نام نہاد لولے لنگڑے سہولت کاری کے عوض تفویض کردہ اقتدار کے ان حکمرانوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے جو نکیال میں آ کر بڑی بڑی تقرریں کرتے ہیں۔عوام کا صحت کے تناظر میں بدترین استحصال کیا جا رہا ہے۔ٹی ایچ کیو مکمل ناکام ہو چکا ہے۔
لوگوں کی بڑی تعداد ہسپتال میں جاتی ہی نہیں ہے۔البتہ ہسپیتال میں جانے کا یہ فائدہ ہے کہ موجود ڈاکٹر سے دوائی کا نسخہ لکھوا کر آپ تین سو روپے فیس بچا سکتے ہیں۔
یہ عالم ہے کہ ایک گولی تک نہیں دی جاتی ہے۔مریضوں اور گولہ باری زخمیوں کے لیے دو ایمبولینس ناکافی ہیں مزید تین ایمبولینس درکار ہیں اور ساتھ دو ڈرائیوزمزید تعنیات کیے جائیں۔
گولہ باری سے بچاو کے لیے بنکر قائم کرنا سٹاف کا حق ہے نکیال ہسپتال اور اگلے مراکز میں بنکرز انتہائی لازمی ہیں۔بلکہ طویل المدت منصبوں کے لیے ٹراما سنٹرز کو انڈر گراونڈ بنانا چاہیے کیونکہ اوپن سنٹر غیر محفوظ ہیں۔
ایک سروے کے مطابق ڈاکٹرز میں اپنے رویے و ذمہ داریوں میں ڈاکٹر عمر عوام بلخصوص محنت کش طبقہ میں فیورٹ ہیں۔ایسے آفسیر،ڈاکٹرز ہی سماج کے لیے سود مند ہوتے ہیں۔
جب کہ ٹی ایچ کیو میں یہ صورتحال ہے کہ کھانا پکانے والے،صفائی کرنے والے اکثر اوقات انجیکشن لگاتے ہوئے دیکھے گے ہیں۔
مختلف قسم کی ذمہ درایاں دیگر سٹاف کے اہکاران سر انجام دے رہے ہیں۔اس پر آئندہ کالم میں مزید مرقوم کیا جائے گا۔(ختم شد)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں