نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سیز فائر لائن اور ایل او سی کے الفاظ کی حقیقت ۔۔۔۔جموں و کشمیر کے عوامی مؤقف سے فرق کی وضاحت پیش خدمت ہے اس پر غور کریں ۔ تحریر شاہ نواز علی شیر

سیز فائر لائن اور ایل او سی کے الفاظ کی حقیقت ۔۔۔۔جموں و کشمیر کے عوامی مؤقف سے فرق کی وضاحت پیش خدمت ہے اس پر غور کریں ۔ تحریر شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال سیز فائر لائن (Ceasefire Line) اور ایل او سی (Line of Control) محض دو اصطلاحات نہیں بلکہ جموں کشمیر کے مسئلے پر دو متضاد نظریات کی علامتیں ہیں۔ ان دونوں اصطلاحات کے درمیان فرق صرف لغوی یا عسکری نہیں بلکہ گہرا سیاسی، تاریخی اور نظریاتی پس منظر رکھتا ہے۔ سیز فائر لائن ۔۔۔۔ عوامی نمائندگی اور اقوام متحدہ کا تسلیم شدہ مؤقف ہے۔ پہلے اس کو سیز فائر لائن ہی کہا جاتا تھا ۔ سیز فائر لائن وہ لکیر ہے جو 1949ء میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ، جموں کشمیر کے تنازعہ پر جنگ بندی کے بعد کھینچی گئی تھی ۔ یہ لکیر بین الاقوامی طور پر جموں کشمیر کے متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتی ہے اور یہ واضح کرتی ہے کہ جموں کشمیر ایک حل طلب تنازع ہے ۔ کو پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر اور ہندوستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کہا جاتا ہے ۔ دونوں ممالک کی زمہ داری اس وقت اقوام متحدہ نے اس مسلہ کے حل ہونے تک ایک ایڈمنسٹریٹر کی لگائی ہوئی ہ ے ۔ جس طرح پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں چیف سیکرٹری ، آئی جی، ایڈیٹر جنرل کے عہدے ہیں۔ جموں کشمیر کے عوام بلخصوص خالص آزادی پسند تحریکیں اس لائن کو "سیز فائر لائن" اس لیے کہتے ہیں کہ یہ اپنوں کو اپنوں سے جدا کرنے والی خونی لکیر ہے، نہ کہ کسی ریاست یا سرحد کی باقاعدہ حد بندی۔۔ کیوں کہ سیز فائر لائن اپنی ہی منقسم ریاست کو جو پہلے ایک تھی متحدہ تھی اسکو ایک دوسری سے جبرا جدا کر کے نکالی گئی جس کشیدگی کو وہی روک کر ویز فائر کرایا گیا تو اس کا نام سیز فائر لائن رکھا گیا ۔ یہ اصطلاح مسئلہ جموں و کشمیر کو حقِ خودارادیت اور عوامی آزادی کے تناظر میں دیکھتی ہے، جس کی تصدیق اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی کرتی ہیں۔ جبکہ ایل او سی ۔۔۔۔شملہ معاہدہ اور دو ریاستی فریم ورک کی پیداوار ہے۔۔ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان آپسی دو ممالک کے ذاتی معائدہ جات کے باہمی سودے بازی کا عمل ہے ۔ ایل او سی (Line of Control) کی اصطلاح 1972ء کے شملہ معاہدے کے بعد سامنے آئی، جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدے میں جموں کشمیر کے مسئلے کو دو ملکوں یعنی پاکستان بھارت کے درمیان علاقائی/ سرحدی تنازع کے طور پر بیان کیا گیا، اور اس میں جموں و کشمیر کے عوام کو بطور فریق تسلیم ہی نہیں کیا گیا ۔ اور ان کے مسلہ کو جموں کشمیر کے عوام کے بنیادی پیدائشی حق خودارادیت یا آزادی کے مسلہ کے طور پر دیکھا گیا ہے ۔ جس میں دونوں ممالک نے طے کیا کہ وہ جموں کشمیر سمیت دیگر معاملات باہمی طور پر حل کرے گے۔ ۔۔ اقوام متحدہ کی مدعیت ، نگرانی کے بغیر۔ ۔۔ اس معاہدے کے تحت سیز فائر لائن کو "ایل او سی" کا نام دے کر، مسئلہ جموں و کشمیر کو عوامی حق خودارادیت کے بجائے، محض جغرافیائی یا سرحدی مسئلہ قرار دیا گیا۔ حالانکہ جموں کشمیر کا مسلہ نہ مذہبی یعنی نہ دو قومی نظریہ کا ہے اور نہ ہی دو ممالک کے درمیان سرحد یا زمین کا آپسی مسلہ ہے۔ بلکہ یہ جموں کشمیر کے منقسم عوام کے پیدائشی حق خودارادیت ، حق آزادی کا مسلہ ہے ۔ جو قوتیں ایل او سی کو تسلیم کرتی ہیں، وہ دراصل شملہ معاہدے کو قبول کرتی ہیں، وہ ایسا دانستہ یا نادانستہ طور پر کرتی ہیں ۔ اور نتیجتاً مسئلہ جموں و کشمیر کو اقوام متحدہ سے ہٹا کر دو طرفہ خفیہ ایجنڈے کے تابع کرنا چاہتی ہیں۔ اس لیے ہمارا جموں و کشمیر کے عوام کا واضح، اصولی اور نظریاتی مؤقف یہی ہونا چاہیے کہ ہم نہ شملہ معاہدہ کو مانتے ہیں، نہ ایسے تمام معاہدات کو جو جموں و کشمیر کو ان کے بنیادی حق خودارادیت سے محروم کرتے ہیں۔ ہم اس خونی لکیر کو سیز فائر لائن ہی کہیں گے، کیونکہ یہ حقائق، تاریخ، بین الاقوامی قانون اور ہمارے قومی مؤقف سے مطابقت رکھتی ہے ۔کیوں کہ ہم اس کو مستقل نہیں کہتے نا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ کم اس کو توڑ کر ریاست کی وحدت بحال دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان علاقوں کو "پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر" اور "بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر" کہیں گے ۔۔۔۔ کیونکہ دونوں حصے متنازعہ اور تقسیم شدہ خطے کا حصہ ہیں۔ ہم جموں کشمیر کو ایک متنازعہ ریاست مانتے ہیں جس کے باشندے ہی اس کے اصل، فطری اور بنیادی فریق ہیں ۔ شملہ معاہدہ کا ختم ہونا دو ممالک پاکستان بھارت کے درمیان معاہدہ کا ختم ہونا ہے۔ اب جموں کشمیر کی یہ لائن 1948 کی پوزیشن پر چلی گئی ہے ۔ ہمارے ساتھ الفاظ کا ہیر پھیر کیا گیا ۔ جس طرح کشمیر سے مراد صرف وادی کو قرار دیا ۔ تحریک آزادی ، حق خودارادیت سے مراد صرف سری نگر کو یا اس کی آزادی کو کہا گیا۔ ۔۔ اس لیے ان الفاظ کے استعمال کے بارے میں غور کرنا انتہائی ضروری عمل ہے۔ ختم شد ۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...