نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

این ایس ایف صدر اور کور کمیٹی ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی مجںتی بانڈے کی کئی روز سے گرفتاری پر خاموشی کیوں ؟ مت قتل کرو ایسی آواز کو نہ قتل ہونے دو ایسی آوازوں کو۔ اس خطہ کے ہر ایک انسانی آزادیوں ، انسانی آدرشوں اور انسانی حقوقِ پر یقین رکھنے والوں کا فرض ہے کہ وہ ریاستی قومی جبر کے خلاف پوری سچائی قوت سے آواز بلند کریں ۔ ایسے مزاحمت کار سماج کا مشترکہ سرمایہ ہیں ۔

مجںتی بانڈے مظفرآباد حوالات میں قید: مجںتی بانڈے کی گرفتاری پر خاموشی؟
تحریر: کامریڈ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی جموں کشمیر پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقہ مظفرآباد نیلم سے تعلق رکھنے والے مجںتی بانڈے، جو اس خطہ کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم، جموں کشمیر این ایس ایف کے مرکزی صدر ہیں اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی کے ممبر بھی ہیں، کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ وہ مظفرآباد نیلم میں مزاحمت اور جدوجہد کی علامت ہیں۔ نوجوان ہیں، لیکن ان کا اثر اس خطے کی سیاست میں انتہائی گہرا اور مؤثر ہے۔ موجودہ عوامی حقوق کی تحریک، طلبہ حقوق سمیت عوامی، قومی، اور طبقاتی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں ان کا کردار ناقابل فراموش اور بنیادی ہے۔ ان کی قربانیاں اور جدوجہد ہر دل میں زندہ ہیں۔ مجںتی بانڈے اب تک عوامی حقوق کی تحریک میں کئی مرتبہ گرفتار ہو چکے ہیں، اور ان پر درجنوں مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ 18 فروری کو مظفرآباد میں مقبول بٹ شہید کا یومِ پیدائش منانے کی پاداش میں، اور منقسم ریاست کے اس حصے پر غاصبوں کو للکارنے، قومی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے اور غاصبانہ قبضہ کو للکارنے کے جرم میں، مجںتی بانڈے کو غاصب طاقتوں نے موجودہ حکومت، انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کر لیا۔ دو دن بعد انہیں رہا کیا گیا، لیکن اسی شام پھر بازار سے تشدد کرتے ہوئے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اب وہ سخت ترین تشدد کا شکار ہیں اور مظفرآباد سٹی تھانہ میں ان کی زندگی کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ مجںتی بانڈے کے خاندان پر بھی اس وقت شدید دباؤ ہے کہ وہ مجںتی کو خاندانی طور پر پابند کریں کہ وہ موجودہ قومی عوامی جدوجہد سے لاتعلق ہو جائے، اور سیاست سے خاموش ہو جائے۔ ان کے خاندان کو جس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے، جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ لیکن مجںتی بانڈے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے مکمل انکاری ہیں، جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف رہائی نہیں مل رہی بلکہ انہیں بدترین استحصال اور جسمانی و ذہنی تشدد کا سامنا ہے۔ مجںتی بانڈے پر اس وقت ایک جھوٹے اور بے بنیاد دہشت گردی کے مقدمے میں پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ ان کا پہلا روزہ بھی حوالات کی سختیوں میں گزر رہا ہے۔ اگر ایک طرف پاکستان کے زیر اہتمام جیلوں میں مجںتی بانڈے پابند سلاسل ہیں، تو دوسری طرف بھارت کی جیلوں میں یاسین ملک بھی قید ہیں۔ مجںتی بانڈے کی رہائی کے لیے جموں کشمیر این ایس ایف اور جموں کشمیر نیپ کی جانب سے ریاست گیر احتجاجی مظاہرے اور یورپ و کینیڈا میں احتجاج بھی ہوئے ہیں۔ لیکن مجںتی بانڈے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی توانا آواز ہیں اور کور کمیٹی کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ اس وقت وہ واحد اسیر ہیں جو حکمران طبقے کی جیل میں گرفتار ہیں۔ لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی کی طرف سے مجںتی بانڈے کی رہائی کے لیے ابھی تک کوئی سرگرمی یا اعلامیہ جاری نہیں ہوا، جو عوام، آزادی پسندوں اور طلبہ میں شکوک و شبہات کا باعث بن رہا ہے۔ لیکن مزید تشویشناک پہلو یہ بھی ہے اس خطہ میں آزادی پسندوں ترقی پسندوں قوم پرستوں کے بننے والے اتحادیوں الائنس کی جانب سے مشترکہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ مجںتی بانڈے کا تعلق انقلابی طلبہ تنظیم سے ہے اور خودمختاری کی سوچ سے منسلک ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایکشن کمیٹی کے مظفرآباد ڈویژن سے انتہائی اہم اور متحرک ممبر ہیں۔ وہ ہمیشہ تمام سرگرمیوں میں نیلم سے بھمبر تک بھرپور حصہ لیتے ہیں، نوجوانوں اور عوام کو منظم کرتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ مجںتی بانڈے کو اس وقت جو سزا مل رہی ہے، وہ آزادی و انقلاب کا نعرہ بلند کرنے کی پاداش میں ہے۔ لیکن بنیادی طور پر ان کا کردار ایکشن کمیٹی میں مظفرآباد ڈویژن سے انتہائی اہم غیر جانبدار و جاندار رہا ہے، جس کی وجہ سے ان پر انتقاماً تشدد کیا جا رہا ہے۔ اس مرحلے پر ایکشن کمیٹی کی خاموشی تشویشناک اور افسوس ناک ہے۔ میں، بطور ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، اس ریاست کے شہری اور انسانی حقوق کے کارکن کی حیثیت سے یہ سوال اٹھاتا ہوں کہ ایکشن کمیٹی کا اپنا واضح اور دوٹوک موقف سامنے آنا چاہیے۔ یہ صرف مجںتی بانڈے کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ پورے ریاستی جبر کا سوال ہے۔ اگر کسی شہری کو ریاستی جبر اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں اور آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جاتی ہے، تو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو ہر صورت مزاحمت کرنی چاہیے اور اس جبر کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ کیوں کہ انسانی آزادی اور حقوق کے مغائر کسی ناانصافی کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے مجںتی بانڈے، بالعموم پوری ریاست اور خاص طور پر مظفرآباد ڈویژن کی آزادی، انقلاب اور عوامی حقوق کی جاندار، شاندار اور توانا آواز ہیں۔ وہ ہماری طاقت ہیں۔ آج اگر حکمران طبقہ مجںتی بانڈے کی آواز کو دبانے میں ناکام ہو جاتا ہے، تو یہ نہ صرف ایک آواز کا قتل ہوگا، بلکہ پورے مزاحمتی عوامی و قومی خیمے کی بنیادیں بھی ہل جائیں گی۔ اس کے بعد سوالات اٹھیں گے، اور ریاستی ڈھانچے کے تضادات اور بوسیدہ نظام کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں گی۔ اس لیے، اس نامساعد حالات میں نہ صرف آزادی پسندوں، ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کا فرض بنتا ہے، بلکہ ہر اس شہری کا فرض ہے جو انسانی آزادی، جمہوریت اور انسانی آدرشوں پر یقین رکھتا ہے کہ وہ مجںتی بانڈے کی رہائی کے لیے پوری قوت کے ساتھ آواز بلند کرے، یکجہتی کا اظہار کرے اور سڑکوں پر نکل آئے۔ راقم الحروف ،غاصب حکمرانوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ آپ بولنے والی آوازوں کو مت قتل کریں، ان کو بولنے دیں، نہ روکا جائے نہ دبایا جائے، ورنہ یہ آوازیں تلواریں بن کر نکل آئیں گی۔ اس لیے لوگوں کو بولنے دو۔ اس تحریر کے ذریعے آزاد جموں و کشمیر کے طلبہ سے اپیل ہے کہ آپ بھی موثر احتجاجی تحریک شروع کریں، تاکہ مظفرآباد پر مسلط حکمران طبقے کا حشر بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسا ہو۔ راقم کا مقصد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی یا اس کے کسی قابل فخر ممبر کو نشانہ بنانا نہیں ہے، بلکہ انسانی حقوق کی پامالیوں اور ممبران کے ساتھ ہونے والے ناانصافی پر مبنی ظلم کے خلاف توجہ مبذول کرانا ہے۔ بے شک جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ ہے اور ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا ہے، لیکن موجودہ بوسیدہ اور ملعون نظام کے بڑھتے ہوئے تضادات نے کمیٹی سے جڑنے کی ضرورت پیدا کر دی ہے۔ مجںتی بانڈے جیسے ترقی پسند، انسان دوست، قومی عوامی طبقاتی جدوجہد کے حامل کامریڈ پورے عوام، قوم، ریاست اور سماج کا اثاثہ ہیں، جنہیں مشروط و محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ان نوجوانوں کا پشت بان بننا ہمارا فرض ہے۔ ختم شد

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...