نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تعلیم یا جبر؟ جامعہ کشمیر میں طلبہ پر ریاستی تشدد

تعلیم یا جبر؟ جامعہ کشمیر میں طلبہ پر ریاستی تشدد تحریر: عبدالمعیز عالم چودھری ، راہنما جموں کشمیر این ایس ایف تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مگر جب یہی حق حاصل کرنے کے لیے طلبہ کو سڑکوں پر آنا پڑے اور بدلے میں انہیں ڈنڈے، آنسو گیس اور تشدد کا سامنا کرنا پڑے، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہم ایک علمی معاشرے کے بجائے جبر کے نظام میں قید ہیں۔ جامعہ کشمیر، مظفرآباد کے سٹی کیمپس میں حالیہ واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ریاست اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کس حد تک طلبہ دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ طلبہ فیسوں میں بے تحاشا اضافے اور امتحانی ہال سے زبردستی نکالے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، مگر ان کے مطالبات سننے کے بجائے پولیس کو یونیورسٹی میں داخل کر کے ان پر بدترین لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی۔ یہ نہ صرف ایک غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدام ہے بلکہ طلبہ کے آئینی و جمہوری حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ جامعہ کشمیر سمیت ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں فیسوں میں بے تحاشا اضافہ ایک عام روایت بن چکا ہے۔ طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا پہلے ہی ایک چیلنج ہے، اور جب تعلیمی ادارے کاروباری مراکز کی طرح فیسوں میں مسلسل اضافہ کرتے ہیں تو یہ تعلیم کو عام آدمی کی پہنچ سے مزید دور کر دیتا ہے۔ یہ معاملہ صرف فیسوں تک محدود نہیں، بلکہ تعلیمی سہولیات کا فقدان، اقامتی مسائل، اور انتظامیہ کی نااہلی بھی ایک بڑی حقیقت ہے۔ جب طلبہ ان مسائل کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، تو ریاست اور یونیورسٹی انتظامیہ ان کا سامنا کرنے کے بجائے جبر و تشدد کا سہارا لیتی ہے۔ جامعہ کشمیر میں پولیس کا تعلیمی ادارے میں داخل ہونا اور طلبہ پر حملہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلبہ کے مسائل حل کرنے کے بجائے انہیں خاموش کرانے کے لیے ہر حد تک جا سکتی ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ ماضی میں بھی مختلف یونیورسٹیوں میں طلبہ پر تشدد کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ ریاست کا یہ جبر اس خوف کو جنم دیتا ہے کہ اگر آج طلبہ نے اس کے خلاف مزاحمت نہ کی تو آنے والے دنوں میں تعلیمی ادارے جیلوں اور پولیس کی چھاؤنیوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ ایسے واقعات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آیا ہم واقعی ایک جمہوری ریاست میں رہ رہے ہیں یا پھر آمریت کے کسی نئے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ جامعہ کشمیر میں طلبہ پر تشدد میں ملوث تمام اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ فیسوں میں بے تحاشا اضافے کو فوری واپس لیا جائے اور طلبہ کے مسائل حل کیے جائیں۔ تعلیمی اداروں میں ریاستی مداخلت بند کی جائے اور طلبہ کے جمہوری حقوق بحال کیے جائیں۔ طلبہ یونین پر عائد غیر جمہوری پابندی ختم کی جائے تاکہ طلبہ کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم مل سکے۔ یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بلکہ یکجہتی کے ساتھ جبر کے خلاف کھڑے ہونے کا ہے۔ کیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی ظلم کا شکار ہوں گی۔ میرے دیس کے طلبہ زندہ ہیں، ظلم کے خلاف یکجا ہیں! (ختم شد ) #ReleaseMujtabaBanday

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...