سابق وزیر خوراک جاوید بڈھانوی صاحب کا وہ وڈیو بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سہنسہ فلور مل کی گندم کو اعلیٰ معیار کی قرار دیا گیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ گندم کیڑے اور بدبو سے بھری ہوئی تھی۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبر امتیاز اسلم نے جب سہنسہ فلور مل پر چھاپہ مارا تو اس گندم کی حقیقت عوام کے سامنے آ گئی
نام نہاد آزاد جموں و کشمیر کے حکمران طبقے میں سرکشی کی ایک اور حقیقت
تحریر: کامریڈ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے حکمران طبقے میں جو سرکشی اور بے حسی کا رویہ دکھائی دے رہا ہے، وہ اس موجودہ نظام کا ایک واضح عکاس ہے۔ یہ رویہ غریب و امیر، بالا دست و زیر دست طبقوں کے درمیان گہرے تضادات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس نظام میں حکمران طبقہ عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کی حد تک جا پہنچا ہے، اور وہ جانتے ہوئے کہ یہ اشیاء انسانی صحت کے لیے مضر ہیں، پھر بھی انہیں ایک پُرکشش، حسین اور اعلیٰ معیار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ حکمران طبقہ اتنے بے شرم ہو چکا ہے کہ انہیں نہ شرم آتی ہے اور نہ ہی رسوائی کا احساس ہوتا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے حکمران طبقے کو یہ اختیار صرف اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ جھوٹ بولنے میں ماہر ہوں۔ ان کے لیے سچ کو چھپانا اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوئی حد نہیں۔ یہ حکمران طبقہ ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے عوام کو جھوٹ کے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ وہ سچ سے دور رہیں اور ان کی مفاد پرستی کامیاب ہو۔
سابق وزیر خوراک جاوید بڈھانوی صاحب کا وہ وڈیو بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سہنسہ فلور مل کی گندم کو اعلیٰ معیار کی قرار دیا گیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ گندم کیڑے اور بدبو سے بھری ہوئی تھی۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبر امتیاز اسلم نے جب سہنسہ فلور مل پر چھاپہ مارا تو اس گندم کی حقیقت عوام کے سامنے آ گئی۔
انوار الحق اس پورے نظام میں سرکشی کی سب سے اعلی مثال ہے ۔
یہ حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ وہ عوام کو جو گندم فراہم کرتے ہیں، وہ پاکستان کے احسانات ہیں، اور انہیں فخر ہے کہ وہ عوام کو یہ "مفید" اشیاء دے رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ عوام کی صحت سے کھیل رہے ہیں اور اس کا ذمہ دار اس نظام کو ٹھہرا رہے ہیں جس نے انہیں یہ اختیار دیا ہے۔ ان حکمرانوں کو اس بات کا قطعی احساس نہیں ہے کہ وہ کس طرح انسانوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، اور کس طرح اپنی ذاتی عیاشیوں کے لیے ان کے صحت کے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔
اس ساری صورت حال میں انوار الحق کا کردار بھی غیر معمولی ہے۔ انوار الحق نے اس نظام میں اپنی سرکشی کو بڑھاوا دیا ہے اور حکومتی مشینری کو عوام کے خلاف استعمال کیا ہے۔ انوار الحق کا رویہ ان حکمرانوں کے گروہ کا مکمل عکاس ہے، جو عوام کو بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھنے کے بعد اپنی ذاتی عیاشیوں میں مگن ہیں۔ انوار الحق اور ان کے ساتھی عوام کی حالت زار سے غافل ہیں، اور انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ ان کے فیصلے عوام کے لیے کس قدر تباہ کن ہیں۔
یہ حکمران طبقہ عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کرتا ہے۔ یہ سہولت کار جو کہ پاکستان کے مختلف بڑے علاقوں جیسے رائے ونڈ، لاڑکانہ اور بنی گالہ سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے یہاں اقتدار میں آتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف اپنی عیاشیوں کو بڑھانا اور عوام کو بدحال کرنا ہے۔ ان کی زندگی میں جو آسائشیں ہیں، وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے آئی ہیں، اور ان کا ضمیر اس بارے میں بیزار ہو چکا ہے۔
ایک نیک اور عوامی خدمت گزار لیڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو سامنے لائے، ان کے حل کے لیے اقدامات کرے اور انہیں متبادل فراہم کرے، نہ کہ وہ ان کی مشکلات میں اضافہ کرے۔ جو سہنسہ فلور مل کی گندم تھی، وہ حکمرانوں کے کتے بھی نہیں کھاتے، ان حکمرانوں نے وہ بدبو بھی نہ سونگی ہوگی جو مزدوروں نے کھائی۔
یہ حکمران طبقہ عوام کے مسائل کو نظرانداز کرتا ہے، کیونکہ ان کو عوام کی حالت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا علاج برطانیہ سے ہوتا ہے، اور ان کی روزمرہ کی خوراک امپورٹڈ ہوتی ہے۔ عوام کی حالت اور ان کے مسائل ان کے لیے بالکل غیر اہم ہیں۔ ان کے لیے ان کی ذاتی آسائشیں اور عیش و آرام سب سے اہم ہیں، اور انہیں عوام کے درد و غم سے کوئی غرض نہیں۔
یہ حکمران طبقہ جو سرکشی کی مثال بن چکا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اس نظام نے اتنی آزادی دے دی ہے کہ وہ عوام کو کمتر سمجھ کر ان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کرتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ بھی ایسا ہے جو عوام کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ایک ایسی نخوت اور غرور ہے جو ان کے عوام سے علیحدگی اور ان کی بے وقعتی کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ حکمران طبقہ ہمیشہ پاکستان کی غاصب طاقتوں کی ایماء پر برادری، پارٹی، خاندانی اور علاقائی بنیادوں پر اقتدار میں آتا ہے، اور عوامی ٹیکسوں سے اپنے عیش و آرام کے سامان فراہم کرتا ہے۔ جب عوام ان کو دیوتا کا درجہ دیتے ہیں، تو ان حکمرانوں کی سرکشی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ یہ حکمران اتنے بے شرم ہو چکے ہیں کہ وہ عوام کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں، اور پھر اس جھوٹ کو سچ ماننے کی کوشش کرتے ہیں۔
جو لوگ پہلے اس دھرتی پر آئے اور اپنے آپ کو خدا یا بادشاہ سمجھتے تھے، وہ آج مر چکے ہیں۔ ان کی اکڑ اور گھمنڈ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ وہ جو عوام کو پاؤں کی جوتی سمجھتے تھے، آج وہ مٹی میں دفن ہیں، ان کی کھوپڑیوں میں سانپ نے بچے پیدا کیے ہیں، اور ان کی جائیدادیں بھی اب محض آزمائش بن چکی ہیں۔ ان کی شان و شوکت کا زوال اسی طرح ہوگا جیسے پچھلے حکمرانوں کا ہوا تھا۔
عوام کو چاہئے کہ وہ باشعور ہو جائیں، متحد و منظم ہو جائیں اور عوامی جدوجہد سے جڑ کر اس نظام کے خلاف ایک سنجیدہ، پرامن انقلابی جدوجہد کریں تاکہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے۔ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے جس میں عوام کا مفاد مقدم ہو، جہاں حکمران عوام کی خدمت کریں، نہ کہ ان کے حقوق کا استحصال کریں۔
صرف سچے جذبوں کی فتح ہو گی۔ یہ تبدیلی کے دن ہیں، اور ان دنوں میں ہم سب کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی۔ ہم سب کا اتحاد ہی اس ظالم حکمران طبقے کو شکست دے گا۔
سرخ سلام
(ختم شد)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں