پاکستانی زیر انتظام قانون ساز اسمبلی کے حکمران طبقہ کی
تنخواہوں میں اضافہ؟؟؟

تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ
ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جموں کشمیر/نکیال/کوٹلی
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں وزیراعظم کی سیاسی پنڈتوں پر نوازشات کی بارش ہو رہی ہے، سیاست برائے خدمت کے بجائے سیاست برائے کاروبار اور عیاشی بن چکی ہے۔ یہ خطہ حکمران طبقہ کے لیے ایک سرسبز چراگاہ بن چکا ہے ،
جہاں وہ بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔ یہاں اختیار و بے وقار کھٹ پتلی قانون ساز اسمبلی کی موجودگی میں ہر وزیر کی تنخواہ 9 لاکھ روپے، ہر ممبر اسمبلی کی 4 لاکھ اور ہر مشیر کی 6 لاکھ روپے ماہانہ کر دی گئی ہیں۔
یہ خطہ وہ واحد جگہ ہے جہاں وزراء اور ممبران اسمبلی کو نہ صرف لاکھوں روپے کی تنخواہیں دی جاتی ہیں، بلکہ ان کے لئے سالانہ پنشن بھی مختص کی جاتی ہے،
حالانکہ یہ ممبران اسمبلی کوئی سرکاری ملازم نہیں ہوتے۔ ان مراعات کے باوجود ان ممبران کو پنشن دینا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس کے علاوہ، ٹی اے ڈی، پیٹرول ڈیزل، سفری الاؤنس، پیکجز، پانچ سالہ پانچ کروڑ کے فنڈز، اور درجنوں لاکھوں کروڑوں کی مراعات ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ کروڑوں مالیت کی گاڑیاں ان کے ذاتی استعمال کے لیے فراہم کی جاتی ہیں، نہ صرف ان کی ذاتی گاڑیاں بلکہ ان کے خاندان کے لیے بھی گاڑیاں فراہم کی جاتی ہیں۔
یہ وزراء اور ممبران اسمبلی صرف عیش و عشرت کے فائدے ہی نہیں اٹھاتے، بلکہ ان کو کھلی کرپشن اور بے لگام آزادی بھی دی جاتی ہے۔ کروڑوں اربوں مالیت کی جائیدادیں، کوٹھیاں، بنک بیلنس اور زمینوں کے ذخیرے ان کے لیے معمول بن چکے ہیں۔ یہاں کے حکمرانوں کے لیے یہ خطہ سونے کی کان بن چکا ہے، جہاں ان کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔
یہاں کی روایتی سیاست برادری، قبیلہ، خاندان اور دیگر تعصبات پر مبنی ہے جو حکمران طبقہ کی میراث بن چکی ہے۔ ان حکمرانوں کی پولیس ان کے کرائے کے غنڈوں کی طرح کام کرتی ہے، اور انتظامیہ و ریاستی حکومتی مشینری ان کے شاہانہ پروٹوکول اور عیاشیوں کے انتظام کے لیے کام کرتی ہے۔ یہاں کے حکمران طبقہ کو اقتدار پاکستان سے الحاق اور اس کی وفاداری کے عوض تفویض کیا جاتا ہے، اور ان پر اصل اختیارات کا حاکم پاکستان کی جانب سے غیر ریاستی افسران ہوتے ہیں۔
یہ خطہ بنیادی طور پر کرپشن، لوٹ کھسوٹ، اشرافیہ کی عیاشیوں، مراعات اور پروٹوکول کا اڈہ بن چکا ہے۔ حکمران طبقہ یہاں کے سرکاری تعلیمی و صحت کے محکموں میں علاج کرانے کے بجائے یورپ و بیرون ممالک علاج کرواتا ہے، اور لوٹ کھسوٹ کے بعد انہی ممالک میں رہنا پسند کرتا ہے۔
دوسری طرف، یہاں کے عوام کی حالت نہایت بدتر ہے۔ محنت کشوں کے حقوق کی پامالی اور بے روزگاری نے عوام کو مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس خطہ کی کل آبادی میں ایک لاکھ کے قریب ملازمین ہیں، جن کی زندگی محض روٹی کے لئے جدو جہد میں گزر رہی ہے۔ بیس لاکھ نوجوان بیرون ملک محنت کر کے اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں۔ یہاں کے ہزاروں بچے سکول جانے سے محروم ہیں اور چائلڈ لیبر کے شکار ہیں۔
یہاں کے عوام کا معیار زندگی انتہائی پست ہے، اور یہاں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جو راولپنڈی، اسلام آباد یا پنجاب کے اداروں سے موازنہ کیا جا سکے۔ نہ ہسپتال ہیں، نہ تعلیمی ادارے، نہ ہائی وے یا ریلوے ٹریک اور نہ ہی ہوائی اڈے موجود ہیں۔ معاشی نظام تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے اور عوام کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔
حکمران طبقہ کی طرف سے اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ ایک طرف جبکہ عوام کی حالت زار دوسری طرف، یہ فرق مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی مراعات میں اضافے کے لئے فوری طور پر اقدامات اٹھاتا ہے، لیکن عوام کے حقوق کے لئے کسی بھی نوعیت کی قانون سازی یا ریفارم کرنے میں پس و پیش کرتا ہے۔
آج سوال اٹھانا ضروری ہے کہ یہ حکمران طبقہ کس بنیاد پر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرتا ہے؟ ان کے اقدامات کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ خلفاء راشدین نے کہا تھا کہ ہماری تنخواہیں اتنی ہونی چاہیے جتنی رقم میں ایک مزدور کا گزر بسر ہو جائے۔ یہاں کا نظام اس سے بالکل مختلف ہے۔
حکمران طبقہ مزدوروں، غریبوں اور عوام کے حقوق کے خلاف سرگرم ہے۔ ان کی دوہرے معیار کی پالیسی واضح ہے؛ جہاں ورکنگ کلاس کے لیے پنشن بند کرنے کی بات ہو رہی ہے، وہیں حکمران اپنی مراعات میں اضافے کے لئے قانون سازی کر رہے ہیں۔ یہ واضح طور پر دکھا رہا ہے کہ یہاں دو ہی طبقے ہیں، ایک حکمران اور دوسرا محکوم۔
اب ضرورت ہے کہ غریب اور مزدور طبقہ متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائے۔ حکمران طبقہ نے اس خطہ کے وسائل کا استحصال کیا ہے اور عوام کو کچھ نہیں دیا۔ اگر عوام نے بروقت اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائی تو یہ استحصال اور عیاشی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ حکمران طبقہ یہ سب عیاشیوں لوٹ کھسوٹ عوامی ٹیکسوں پر کر رہا ہے اور عوامی ٹیکسوں کے عوض دس فیصد بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا ہے۔
آئے روز حکمران طبقہ کی تنخواہوں مراعات میں ہونے والے واقعات، اجلاس، اتفاقیہ سیشن عدم مساوات کا واضح اظہار ہیں۔ اس خطہ میں عدم مساوات کا یہ رجحان سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عدم مساوات نے محنت کشوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔
دوسری طرف اس خطہ کے جعلی نام نہاد بڑے بڑے عوام کے علمبردار محافظ سالار جمہوریت، حریت پسند، شیر، فرزند ارجمند، رکھوالے سب خاموش ہیں۔ کسی ممبر اسمبلی کے اندر اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ اسمبلی میں بیٹھ کر ان عیاشیوں اور بے تحاشا مراعات میں اضافے پر احتجاج کرے یا بولے۔ کیوں؟ سب بیتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
یہ جعلی نام نہاد قانون ساز اسمبلی سردار خالد ابراہیم خان جیسے راہنماؤں سے خالی و محروم ہو چکی ہے جو تنخواہوں اور مراعات کے خلاف احتجاج اور واک آؤٹ کرتے تھے۔ اب ان سب ممبران اسمبلی کے ہاتھ اس غلاظت سے بھرے ہوئے ہیں۔
اگر نوجوان عوام اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے حکمران طبقہ کی اشرافیہ کی ان مراعات عیاشیوں پر بروقت جاندار شاندار موثر احتجاجی تحریک مہم شروع نہ کی تو تو عیاشیوں کا یہ سفر جاری رہے گا۔
آخری پیغام یہاں کے نوجوانوں عوام کے لیے یہی ہے کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حکمران طبقہ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے سیاست برائے کاروبار، سیاست برائے پراپرٹی، خاندان، بنک بیلنس، جائیداد، سیاست برائے مراعات اور عیاشیوں تک محدود مشروط و مسدود کر دی ہے۔
یہ حکمران طبقہ محنت کشوں کا، عوام کا، نوجوانوں کا طرفدار نہیں ہے بلکہ یہ لٹیروں کا، مادہ پرستوں کا، ابن الوقت ٹولے کا طرفدار، آلہ کار اور سرمایہ دار ہے۔
اس لیے یہاں کے نوجوانوں کو آگے بڑھ کر اس پورے لوٹ کھسوٹ اور روایتی سیاست برائے کاروبار کے ڈھانچے کو بدلنا ہوگا۔ پورا نظام بدلنا ہوگا، سماج بدلنا ہوگا، اور ان حکمرانوں سے وہ سب کچھ چھین لینا ہوگا جو محنت کشوں کا، عوام کا ہے۔
ختم شد
تنخواہوں میں اضافہ؟؟؟

تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ
ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جموں کشمیر/نکیال/کوٹلی
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں وزیراعظم کی سیاسی پنڈتوں پر نوازشات کی بارش ہو رہی ہے، سیاست برائے خدمت کے بجائے سیاست برائے کاروبار اور عیاشی بن چکی ہے۔ یہ خطہ حکمران طبقہ کے لیے ایک سرسبز چراگاہ بن چکا ہے ،
جہاں وہ بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔ یہاں اختیار و بے وقار کھٹ پتلی قانون ساز اسمبلی کی موجودگی میں ہر وزیر کی تنخواہ 9 لاکھ روپے، ہر ممبر اسمبلی کی 4 لاکھ اور ہر مشیر کی 6 لاکھ روپے ماہانہ کر دی گئی ہیں۔
یہ خطہ وہ واحد جگہ ہے جہاں وزراء اور ممبران اسمبلی کو نہ صرف لاکھوں روپے کی تنخواہیں دی جاتی ہیں، بلکہ ان کے لئے سالانہ پنشن بھی مختص کی جاتی ہے،
حالانکہ یہ ممبران اسمبلی کوئی سرکاری ملازم نہیں ہوتے۔ ان مراعات کے باوجود ان ممبران کو پنشن دینا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس کے علاوہ، ٹی اے ڈی، پیٹرول ڈیزل، سفری الاؤنس، پیکجز، پانچ سالہ پانچ کروڑ کے فنڈز، اور درجنوں لاکھوں کروڑوں کی مراعات ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ کروڑوں مالیت کی گاڑیاں ان کے ذاتی استعمال کے لیے فراہم کی جاتی ہیں، نہ صرف ان کی ذاتی گاڑیاں بلکہ ان کے خاندان کے لیے بھی گاڑیاں فراہم کی جاتی ہیں۔
یہ وزراء اور ممبران اسمبلی صرف عیش و عشرت کے فائدے ہی نہیں اٹھاتے، بلکہ ان کو کھلی کرپشن اور بے لگام آزادی بھی دی جاتی ہے۔ کروڑوں اربوں مالیت کی جائیدادیں، کوٹھیاں، بنک بیلنس اور زمینوں کے ذخیرے ان کے لیے معمول بن چکے ہیں۔ یہاں کے حکمرانوں کے لیے یہ خطہ سونے کی کان بن چکا ہے، جہاں ان کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔
یہاں کی روایتی سیاست برادری، قبیلہ، خاندان اور دیگر تعصبات پر مبنی ہے جو حکمران طبقہ کی میراث بن چکی ہے۔ ان حکمرانوں کی پولیس ان کے کرائے کے غنڈوں کی طرح کام کرتی ہے، اور انتظامیہ و ریاستی حکومتی مشینری ان کے شاہانہ پروٹوکول اور عیاشیوں کے انتظام کے لیے کام کرتی ہے۔ یہاں کے حکمران طبقہ کو اقتدار پاکستان سے الحاق اور اس کی وفاداری کے عوض تفویض کیا جاتا ہے، اور ان پر اصل اختیارات کا حاکم پاکستان کی جانب سے غیر ریاستی افسران ہوتے ہیں۔
یہ خطہ بنیادی طور پر کرپشن، لوٹ کھسوٹ، اشرافیہ کی عیاشیوں، مراعات اور پروٹوکول کا اڈہ بن چکا ہے۔ حکمران طبقہ یہاں کے سرکاری تعلیمی و صحت کے محکموں میں علاج کرانے کے بجائے یورپ و بیرون ممالک علاج کرواتا ہے، اور لوٹ کھسوٹ کے بعد انہی ممالک میں رہنا پسند کرتا ہے۔
دوسری طرف، یہاں کے عوام کی حالت نہایت بدتر ہے۔ محنت کشوں کے حقوق کی پامالی اور بے روزگاری نے عوام کو مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس خطہ کی کل آبادی میں ایک لاکھ کے قریب ملازمین ہیں، جن کی زندگی محض روٹی کے لئے جدو جہد میں گزر رہی ہے۔ بیس لاکھ نوجوان بیرون ملک محنت کر کے اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں۔ یہاں کے ہزاروں بچے سکول جانے سے محروم ہیں اور چائلڈ لیبر کے شکار ہیں۔
یہاں کے عوام کا معیار زندگی انتہائی پست ہے، اور یہاں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جو راولپنڈی، اسلام آباد یا پنجاب کے اداروں سے موازنہ کیا جا سکے۔ نہ ہسپتال ہیں، نہ تعلیمی ادارے، نہ ہائی وے یا ریلوے ٹریک اور نہ ہی ہوائی اڈے موجود ہیں۔ معاشی نظام تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے اور عوام کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔
حکمران طبقہ کی طرف سے اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ ایک طرف جبکہ عوام کی حالت زار دوسری طرف، یہ فرق مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی مراعات میں اضافے کے لئے فوری طور پر اقدامات اٹھاتا ہے، لیکن عوام کے حقوق کے لئے کسی بھی نوعیت کی قانون سازی یا ریفارم کرنے میں پس و پیش کرتا ہے۔
آج سوال اٹھانا ضروری ہے کہ یہ حکمران طبقہ کس بنیاد پر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرتا ہے؟ ان کے اقدامات کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ خلفاء راشدین نے کہا تھا کہ ہماری تنخواہیں اتنی ہونی چاہیے جتنی رقم میں ایک مزدور کا گزر بسر ہو جائے۔ یہاں کا نظام اس سے بالکل مختلف ہے۔
حکمران طبقہ مزدوروں، غریبوں اور عوام کے حقوق کے خلاف سرگرم ہے۔ ان کی دوہرے معیار کی پالیسی واضح ہے؛ جہاں ورکنگ کلاس کے لیے پنشن بند کرنے کی بات ہو رہی ہے، وہیں حکمران اپنی مراعات میں اضافے کے لئے قانون سازی کر رہے ہیں۔ یہ واضح طور پر دکھا رہا ہے کہ یہاں دو ہی طبقے ہیں، ایک حکمران اور دوسرا محکوم۔
اب ضرورت ہے کہ غریب اور مزدور طبقہ متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائے۔ حکمران طبقہ نے اس خطہ کے وسائل کا استحصال کیا ہے اور عوام کو کچھ نہیں دیا۔ اگر عوام نے بروقت اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائی تو یہ استحصال اور عیاشی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ حکمران طبقہ یہ سب عیاشیوں لوٹ کھسوٹ عوامی ٹیکسوں پر کر رہا ہے اور عوامی ٹیکسوں کے عوض دس فیصد بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا ہے۔
آئے روز حکمران طبقہ کی تنخواہوں مراعات میں ہونے والے واقعات، اجلاس، اتفاقیہ سیشن عدم مساوات کا واضح اظہار ہیں۔ اس خطہ میں عدم مساوات کا یہ رجحان سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عدم مساوات نے محنت کشوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔
دوسری طرف اس خطہ کے جعلی نام نہاد بڑے بڑے عوام کے علمبردار محافظ سالار جمہوریت، حریت پسند، شیر، فرزند ارجمند، رکھوالے سب خاموش ہیں۔ کسی ممبر اسمبلی کے اندر اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ اسمبلی میں بیٹھ کر ان عیاشیوں اور بے تحاشا مراعات میں اضافے پر احتجاج کرے یا بولے۔ کیوں؟ سب بیتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
یہ جعلی نام نہاد قانون ساز اسمبلی سردار خالد ابراہیم خان جیسے راہنماؤں سے خالی و محروم ہو چکی ہے جو تنخواہوں اور مراعات کے خلاف احتجاج اور واک آؤٹ کرتے تھے۔ اب ان سب ممبران اسمبلی کے ہاتھ اس غلاظت سے بھرے ہوئے ہیں۔
اگر نوجوان عوام اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے حکمران طبقہ کی اشرافیہ کی ان مراعات عیاشیوں پر بروقت جاندار شاندار موثر احتجاجی تحریک مہم شروع نہ کی تو تو عیاشیوں کا یہ سفر جاری رہے گا۔
آخری پیغام یہاں کے نوجوانوں عوام کے لیے یہی ہے کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حکمران طبقہ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے سیاست برائے کاروبار، سیاست برائے پراپرٹی، خاندان، بنک بیلنس، جائیداد، سیاست برائے مراعات اور عیاشیوں تک محدود مشروط و مسدود کر دی ہے۔
یہ حکمران طبقہ محنت کشوں کا، عوام کا، نوجوانوں کا طرفدار نہیں ہے بلکہ یہ لٹیروں کا، مادہ پرستوں کا، ابن الوقت ٹولے کا طرفدار، آلہ کار اور سرمایہ دار ہے۔
اس لیے یہاں کے نوجوانوں کو آگے بڑھ کر اس پورے لوٹ کھسوٹ اور روایتی سیاست برائے کاروبار کے ڈھانچے کو بدلنا ہوگا۔ پورا نظام بدلنا ہوگا، سماج بدلنا ہوگا، اور ان حکمرانوں سے وہ سب کچھ چھین لینا ہوگا جو محنت کشوں کا، عوام کا ہے۔
ختم شد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں