نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکومتی مراعات کا غیر منصفانہ نظام ، عوامی استحصال طبقاتی تضاد ؟ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکمران طبقہ اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا معاشی فرق اور طبقاتی تضاد اس بات کا غماز ہے کہ یہاں کا سیاسی اور معاشی نظام کس قدر غیر منصفانہ ہو چکا ہے.یہ خطہ جہاں ایک طرف حکومتی مراعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہیں عوام کی زندگی میں مشکلات اور غربت میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ *حالیہ دنوں میں وزیر کی تنخواہ میں نو لاکھ روپے تک اضافہ کیا گیا ہے، جو حکومتی سطح پر ہونے والی اس نوع کی معاشی ناہمواری کی ایک اور مثال ہے۔

*پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکومتی مراعات کا غیر
 منصفانہ نظام ، عوامی استحصال طبقاتی تضاد ؟؟؟* 
Published from Blogger Prime Android App

تحریر: *شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی* جموں کشمیر / نکیال / کوٹلی

 *پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکمران طبقہ اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا معاشی فرق اور طبقاتی تضاد اس بات کا غماز ہے کہ یہاں کا سیاسی اور معاشی نظام کس قدر غیر منصفانہ ہو چکا ہے* ۔

 یہ خطہ جہاں ایک طرف حکومتی مراعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہیں عوام کی زندگی میں مشکلات اور غربت میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ 

 *حالیہ دنوں میں وزیر کی تنخواہ میں نو لاکھ روپے تک اضافہ کیا گیا ہے، جو حکومتی سطح پر ہونے والی اس نوع کی معاشی ناہمواری کی ایک اور مثال ہے۔* 

محترم قارئین!

پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں وزیر، ممبر اسمبلی اور مشیروں کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر کی ماہانہ تنخواہ نو لاکھ روپے تک پہنچا دی گئی ہے، جو کہ ایک بے شمار مراعات کے ساتھ مل کر ایک حکومتی افسر کی عیاشیوں کا سبب بن رہی ہے

۔ یہ اضافہ نہ صرف حکومتی افسران کے عیش و آرام میں اضافے کا سبب بن رہا ہے، بلکہ یہ بھی عوام کی حالت زار کو مزید ابتر کر رہا ہے۔ وزیر، مشیر، اور ممبران اسمبلی کو ہر قسم کی اضافی مراعات مل رہی ہیں، 

جن میں پیٹرول، ڈیزل، سفری الاؤنس، اور دیگر عیاشیاں شامل ہیں، جبکہ عوام کو صحت، تعلیم، اور روزگار کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کی جا رہیں

قارئین کرام!

 *پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکمران طبقہ اور عوام کے درمیان شدید طبقاتی تضاد موجود ہے۔* 

 حکومتی مشیر، وزیروں اور ممبران اسمبلی کی زندگی عیاشیوں اور بے شمار مراعات سے بھری ہوئی ہے۔ ان کے لیے وزیر کی تنخواہ میں نو لاکھ روپے کا اضافہ معمولی بات بن چکی ہے۔ 

اس کے برعکس عوام کی زندگی کی کیفیت بدتر ہو چکی ہے، جہاں لوگ بنیادی حقوق، روزگار اور معاشی استحکام کے لیے ترس رہے ہیں۔ 

یہ فرق اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس خطہ میں حکومتی ادارے اور مشینری صرف حکمرانوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے کام کر رہی ہیں، 

جبکہ عوام کے مسائل کسی کی توجہ کا مرکز نہیں بن رہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کا موجودہ نظام حکمرانوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے کام کر رہا ہے، جس سے عوام کا استحصال ہو رہا ہے۔ حکومتی ادارے، پولیس اور انتظامیہ عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے حکمران طبقہ کی مراعات کو برقرار رکھنے میں مشغول ہیں۔

 یہاں حکومتی افسران اور سیاستدانوں کی زندگی شاہانہ پروٹوکول، ذاتی سواریوں اور دیگر سہولتوں سے بھرپور ہے، لیکن عوام کی زندگی میں اس کے برعکس کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

 یہاں کے تعلیمی ادارے، صحت کے ادارے، اور دیگر ضروری انفراسٹرکچر مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں، اور عوام کو ان بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

معزز قارئین اکرام!

پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکمران طبقہ اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا معاشی فرق اور طبقاتی تضاد ایک سنگین مسئلہ ہے۔ 

حکومتی سطح پر وزیروں اور ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں نو لاکھ روپے تک کا اضافہ اس بات کا غماز ہے کہ یہاں کا نظام عوامی فلاح کے بجائے حکمرانوں کی عیاشیوں کو فروغ دے رہا ہے۔ 

یہ حکومتی اقدامات ایک طرف عوام کی حالت زار کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں، تو دوسری طرف حکمران طبقہ کی مراعات اور عیاشیوں میں بے تحاشہ اضافہ کر رہے ہیں۔

یہ نظام اب اتنا غیر منصفانہ اور کرپٹ ہو چکا ہے کہ یہاں حکومتی مشینری عوامی فلاح و بہبود کے بجائے حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ میں مشغول ہے۔

 عوام کی زندگیوں میں بہتری کے لیے اب ضروری ہے کہ پورے نظام کو بے نقاب کیا جائے اور اس میں اصلاحات لائی جائیں۔

اگر عوام نے اپنی آواز بلند نہ کی اور اس استحصالی نظام کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اٹھایا تو یہ معاشی ناہمواری، طبقاتی تضاد اور حکومتی کرپشن اسی طرح جاری رہے گا، 

اور یہ نہ صرف موجودہ نسل بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ عوام اس پورے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے متحد ہوں اور حکمران طبقہ کی مراعات اور عیاشیوں کو بے نقاب کریں۔

(ختم شد)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...