نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

"پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں گوجری زبان کی نصاب میں شمولیت 🌍📚: ایک تجزیہ"

"پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں گوجری زبان کی نصاب میں شمولیت 🌍📚: ایک تجزیہ" تحریر :- شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ، ہائی کورٹ ۔ (نکیال /کوٹلی ) 03418848984 snsher02@gmail.com پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں گوجری زبان کو چھٹی سے آٹھویں کلاس تکگ بطور اختیاری مضمون شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک اہم قدم ہے جو مقامی زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور انہیں تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کی طرف ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس اقدام پر حمایت و مخالفت میں سوشل میڈیا سمیت تقریبا ایک بحث مباحثہ جاری ہے ۔ جس کے تناظر میں یہ تحریر مرقوم کیا جانا مقصود ہے ۔ اس تحریر میں ہم گوجری زبان کی نصاب میں شمولیت کی ضرورت، فوائد، چیلنجز اور اس کے اثرات پر ایک جامع تجزیہ /جائزہ پیش کریں گے۔ ساتھ ہی ہم ان مسائل پر بھی غور کریں گے جو مختلف زبانوں کے لیے نصاب میں شامل ہونے کے حوالے سے اٹھائے جانے چاہئیں ، خاص طور پر گوجری اور پہاڑی زبان کے حوالے سے۔ قارئین کرام! گوجری زبان جموں و کشمیر کے متعدد علاقے میں بولی جاتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں گجر /قبیلہ کی اکثریت ہے۔ یہ زبان نہ صرف ایک بولی ہے بلکہ ایک ثقافت، رسم و رواج اور تاریخی شناخت کی نمائندگی کرتی ہے۔ گوجری زبان کا نصاب میں شامل ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ریاست میں مادری زبانوں کی قدر کی جا رہی ہے اور ان زبانوں کے ذریعے مقامی ثقافتوں کو زندہ رکھا جا رہا ہے جو کہ اس خطہ میں بڑا خوش آئند ریاستی اقدام ہے۔ گوجری زبان کی تدریس سے ثقافتی تحفظ کا عمل بڑھتا ہے کیونکہ بچے اپنی زبان میں ادب، کہانیاں اور تاریخ سیکھ کر اپنی ثقافت کے قریب پہنچتے ہیں۔ اگر گوجری زبان کو نصاب میں شامل نہ کیا جائے تو نہ صرف زبان کی افادیت ختم ہو سکتی ہے بلکہ ثقافتی ورثہ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ قارئین ! جموں و کشمیر کے گوجر قبیلے کا ایک خاص طبقہ جو بکر وال یا خانہ بدوش کہلاتا ہے، اپنے طرز زندگی اور ثقافت کے حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ بکر وال قبیلہ بنیادی طور پر بکریوں کا چرواہا ہوتا ہے اور خانہ بدوش زندگی گزارتا ہے، جو مسلسل گھومتے رہتے ہیں اور اپنی بکریوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ قبیلہ اپنی مخصوص گوجری زبان بولتا ہے اور گوجر لباس اور طرزِ زندگی کے ساتھ اپنی ثقافت کو محفوظ رکھتا ہے۔ بکر وال قبیلے کا کردار جموں و کشمیر کی ثقافت میں بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ یہ قبیلہ نہ صرف اپنی مادری زبان کو زندہ رکھتا ہے بلکہ اپنی رسم و رواج، لباس اور تہذیب کو بھی پوری شان سے برقرار رکھتا ہے۔ ان کی زندگی کی سادگی، روایات، اور شناخت جموں و کشمیر کے کثیر الثقافتی سماج میں ایک اہم حصہ ہیں۔ اس قبیلے کے لوگ اپنی روایتی زندگی اور ثقافتی ورثہ کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہے ہیں، جو گوجری زبان کی بقا میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قارئین! مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے بچوں کی فہمی اور تعلیمی کامیابی میں اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ جب بچے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو وہ نہ صرف بہتر طور پر سمجھ پاتے ہیں بلکہ ان کی تعلیمی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ گوجری زبان میں تعلیم کے ذریعے بچوں کو نہ صرف زبان کی مہارت حاصل ہوگی بلکہ وہ اپنے ماضی اور ثقافت سے بھی جڑیں گے ۔ جب بچے اپنی مادری زبان میں مواد کو پڑھتے ہیں تو انہیں وہ باتیں زیادہ آسانی سے سمجھ آتی ہیں جو دوسری زبانوں میں سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس لیے گوجری زبان کو نصاب کا حصہ بنانا بچوں کی تعلیمی فہمی میں بہتری کا باعث بنے گا۔ مثلآ فن لینڈ ، جاپان ، کنیڈا سمیت متعدد ترقی یافتہ ممالک میں بھی بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے ۔ ان کی یہ کاوش ان کی ترقی کی راہ میں باعث روکاوٹ نہیں بلکہ ترقی و کامیابی کی ضامن ہے ۔ قارئین کرام! جموں و کشمیر ایک کثیر ثقافتی، کثیر لسانی اور کثیر مذہبی ریاست ہے جہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، جیسے گوجری، پہاڑی، کشمیری، ڈوگری ، بلتی ، شینا و دیگر ۔ ہر زبان اپنے علاقے کی ثقافتی شناخت کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر کسی زبان کو نصاب کا حصہ نہ بنایا جائے تو وہ زبان محو ہو سکتی ہے اور نسلوں تک منتقل ہونے کے عمل میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ گوجری زبان کی نصاب میں شمولیت کا مقصد صرف زبان کو زندہ رکھنا نہیں بلکہ مقامی ثقافت اور تاریخ کو بھی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اگر ان زبانوں کو نصاب میں شامل کیا جائے تو یہ نہ صرف ثقافت کو بچائے گا بلکہ لوگوں کو اپنی قومیت اور شخصیت کا شعور بھی دے گا۔ اس کے نتیجے میں ایک مضبوط اور مستحکم اجتماعی شناخت کی تشکیل ہو گی۔ مقامی زبانوں کو نصاب میں شامل کرنے کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے مقامی معیشت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ جب بچے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، تو انہیں مقامی زبان میں کام کرنے اور اپنے مقامی کاروباروں میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے ۔ یہ عمل معاشی ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ مقامی زبانوں میں ماہر افراد اپنے علاقے کی معاشی سرگرمیوں میں زیادہ فعال حصہ لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، عالمی سطح پر بھی مقامی زبانوں کا علم رکھنے والے افراد مختلف بین الاقوامی مواقع حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ گوجری زبان کو نصاب کا حصہ بنانے میں کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ مقامی زبانوں کے لیے تدریسی مواد کی کمی ہو سکتی ہے ۔ گوجری زبان میں مواد کا فقدان، اس زبان کے تدریسی معیار کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، دیگر زبانوں کے حوالے سے بھی تعلیمی تنازعات اور تعلیمی نظام کی یکسانیت کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ تاہم، اس کے باوجود، اگر مقامی زبانوں کی تدریس پر توجہ دی جائے اور ان کے لیے تدریسی مواد تیار کیا جائے تو یہ مشکلات حل کی جا سکتی ہیں۔سیز فائر لائن کے اس طرف گوجری پہاڑی ڈوگری اور کشمیری زبانوں پر بڑا کام کیا گیا ہے ۔ وہاں سے بھرپور استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ قارئین! اگر سوشل میڈیا پر جاری بحث مباحثہ کے سوالات کا تجزیہ کیا جائے یا جائزہ لیا جائے تو ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب سرمایہ دار طبقہ اور بڑے لوگ اپنے بچوں کو سائنس، کمپیوٹر سائنس اور انگلش جیسے عالمی معیار کے مضامین پڑھاتے ہیں، تو پھر گوجری زبان جیسے مقامی مضامین کو نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مقامی زبانوں کی تدریس ثقافتی اور زبانوں کے تحفظ کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے ۔ جدید تعلیم اور مقامی زبانوں کے درمیان ایک توازن قائم کرنا ضروری ہے۔ ۔ دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کو اپنی ثقافت اور زبان سے جڑنے کا موقع ملے ۔ اگر گوجری زبان میں تعلیم دی جائے تو بچے دونوں جہتوں میں ماہر ہو سکتے ہیں۔ مادری زبانوں اور شناختوں کا انقلابی عمل میں ایک گہرا اور اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زبان صرف ایک مواصلاتی وسیلہ نہیں ہوتی بلکہ یہ قوموں کی ثقافت، تاریخ اور شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ مادری زبانوں کو زندہ رکھنا اور ان کا تحفظ دراصل ایک قوم کی آزادی، خود مختاری اور قومی وقار کے تحفظ کی طرف ایک اہم قدم ہوتا ہے۔ جب کسی محکوم قوم یا استحصال زدہ علاقے کے لوگ اپنی مادری زبان اور ثقافتی شناخت کی بقا کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تو یہ ایک انقلابی عمل کی شکل اختیار کرتا ہے۔ قارئین کرام! زبان کسی قوم کی آزادانہ فکر اور خودارادی قوت کی بنیاد ہوتی ہے۔ جب محکوم یا استحصال زدہ قوم اپنی مادری زبان کی بقا کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو وہ دراصل اپنی نیشنلزم (قومیت) اور خود مختاری کے حق میں ایک انقلابی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے۔ زبان، ثقافت اور شناخت کی حفاظت ایک قوم کو اپنے ماضی، موجودہ اور مستقبل سے جوڑنے کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔ جب لوگ اپنی زبان اور ثقافت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کام کرتے ہیں تو یہ ان کے اندر قومی اتحاد اور انقلابی حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ مادری زبانیں انقلابی تحریکوں میں ایک طاقتور ذریعہ بن سکتی ہیں، کیونکہ وہ قوم کی آواز اور پہچان بن جاتی ہیں۔ جب کوئی قوم اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتی ہے یا اپنی مادری زبان کو اہمیت دیتی ہے تو وہ اپنے تاریخی ورثے اور تشخص کو واپس حاصل کر لیتی ہے۔ اس عمل سے قوموں کے درمیان ذہنی آزادی پیدا ہوتی ہے اور یہ قومیں استحصال اور غاصب طاقتوں کے خلاف کھڑی ہو جاتی ہیں۔ مادری زبانوں کی تدریس اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا ایک قوم کی انقلابی فکر کو تقویت دینے کا کام کرتا ہے۔ زبان محض ایک تعلیمی یا ثقافتی وسیلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اوزار بھی ہے ۔ جب قومیں اپنی زبان اور شناخت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرتی ہیں تو وہ اس کے ذریعے نہ صرف تعلیمی اور ثقافتی آزادی کی خواہش ظاہر کرتی ہیں، بلکہ ایک نظام کی تبدیلی کی بھی کوشش کرتی ہیں ۔ یہ انقلابی عمل کی بنیاد بن سکتا ہے، جہاں زبان کو سیاسی انقلاب کے ایک حصے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مادری زبان کی تدریس اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا ایک طاقتور پیغام ہے جو ایک قوم کی آزادی کے جذبے کو جلا بخشتا ہے۔ ہر زبان اپنے پیچھے ایک قوم کی شناخت اور تاریخ رکھتی ہے۔ مادری زبانوں کو زندہ رکھنا نہ صرف ایک زبان کے تحفظ کا عمل ہے بلکہ یہ ایک قوم کے وجود کی بقا کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ جب لوگ اپنی زبان اور ثقافت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، تو وہ اپنے سیاسی، سماجی، اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لیے لڑتے ہیں۔ اس سے قومی شعور اور انقلابی طاقت پیدا ہوتی ہے جو قوموں کو نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ اپنی شناخت اور آزادی کے لیے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے۔ جب کوئی قوم اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتی ہے یا اپنی مادری زبان کو اہمیت دیتی ہے تو وہ اپنے تاریخی ورثے اور تشخص کو واپس حاصل کر لیتی ہے۔ اس عمل سے قوموں کے درمیان ذہنی آزادی پیدا ہوتی ہے اور یہ قومیں استحصال اور غاصب طاقتوں کے خلاف کھڑی ہو جاتی ہیں۔ مادری زبانوں کی تدریس اور اس کی اہمیت کا فروغ ایک طرح سے قومی انقلاب کا حصہ بن جاتا ہے۔ جب محکوم یا استحصال زدہ قوم اپنی مادری زبان کی بقا کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو وہ دراصل اپنی نیشنلزم (قومیت) اور خود مختاری کے حق میں ایک انقلابی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے۔ زبان، ثقافت اور شناخت کی حفاظت ایک قوم کو اپنے ماضی، موجودہ اور مستقبل سے جوڑنے کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے ۔ جب لوگ اپنی زبان اور ثقافت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کام کرتے ہیں تو یہ ان کے اندر قومی اتحاد اور انقلابی حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مادری زبانوں اور شناختوں کا انقلابی عمل میں ایک گہرا اور اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زبان صرف ایک مواصلاتی وسیلہ نہیں ہوتی بلکہ یہ قوموں کی ثقافت، تاریخ اور شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ قارئین کرام! گوجری زبان کی نصاب میں شمولیت محض ایک تعلیمی قدم نہیں ہے، بلکہ یہ قومی ثقافت اور شناخت کی حفاظت کی ایک جدوجہد ہے۔ اس عمل کے ذریعے نہ صرف مقامی زبانوں کا تحفظ ممکن ہو گا بلکہ یہ ایک بڑے ثقافتی اور سماجی انقلاب کا حصہ بن سکتا ہے، جو نسلوں تک منتقل ہو گا۔ معزز قارئین! یہ ایک اہم ثقافتی قدم ہے لیکن یہ اس خطہ میں صرف ایک پہلا قدم ہے۔ ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ زبان اور شناخت کا مسئلہ صرف برادری یا قبیلے کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم قومی وحدت اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، تو ہمیں اپنے مختلف قبیلوں اور برادریوں میں تعصب، نفرت اور فرقہ واریت کی جگہ ترقی پسند، قومی اور عوامی شعور کی تربیت دینا ہوگی۔ یعنی، ہمیں اپنی مادری زبانوں کو نہ صرف تعلیمی نصاب میں شامل کرنا ہے بلکہ ہمیں اپنے لوگوں کو ایک قومی، ترقی پسند نظریے سے جوڑنا ہے، اور گوجری و پہاڑی بولنے والوں کو اس کی مرنے مٹنے والوں کو چاہیے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے قومی ، طبقاتی عوامی سوال سے جڑیں جدوجہد سے منسلک ہوں۔ تاکہ وہ اپنے طبقاتی، قومی، اور عوامی حقوق کی جدوجہد میں حصہ لیں اور معاشرتی انصاف اور مساوات کے لیے آگے بڑھیں۔ یہ عمل نہ صرف زبانوں کی بقا کا ضامن بنے گا بلکہ ہمارے عوامی شعور کو بھی ایک نیا رُخ دے گا، جس سے ہم تمام فرقوں اور برادریوں کو متحد کر کے ایک مضبوط، ترقی پسند ریاست کی تشکیل کر سکیں گے۔جہاں انسانوں ، اداروں ، افراد ، قومیتوں ، قبیلوں کے ہاتھوں کسی فرد کا استحصال نہ ہو۔ یاد رکھیں، قوموں کی آزادی اور خوشحالی کے لیے ہمیں اپنی زبانوں، ثقافتوں اور شناختوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایک جدید، ترقی پسند فکر کی بھی ضرورت ہے، جو نہ صرف برادریوں کے درمیان یکجہتی پیدا کرے ، بلکہ معاشرتی انصاف، مساوات اور آزادی کی جدو جہد کے لیے بھی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے۔ جیسا کہ اوپر بھی یہی مرقوم کیا ہے کہ اس خطہ میں گوجری زبان کا نصاب میں شامل ہونا ایک ثقافتی قدم ہے، اس کے بعد یہاں کی پہاڑی زبان کا نصاب میں شامل ہونا باقی ہے ، لیکن اس کے آگے کے مراحل میں انھیں عوامی سطح پر قومی شناخت اور ورثے کے تحفظ کے طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے، اور یہ ہماری سانجھی مشترکہ جدوجھد کا نتیجہ ہو گا۔ قارئین کرام! اس پاکستانی زیر انتظام کالونیل نظام میں تعصب نفرت کا بیج رگوں تک سرعت کر چکا ہے ۔ ایسے ایسے مکتبہ فکر ،شخصیات نے اس مزکورہ بالا خوش آئند اقدام پر تعصب نفرت کا اظہار کر کے اپنے بطن کو ظاہر کیا ہے ۔ حالانکہ ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کے استحکام میں ریاست کے ساتھ وفاداری کا عنصر غالب رہا ہے اور پھر وحدت کے شیرازہ بکھرنے تک گجر قبیلے کا کردار بقیہ چند ایک قبائل کی مانند مشکوک و مجرمانہ نہیں ہے ۔ ریاست جموں کشمیر کی وحدت توڑنے میں اس سب سے بڑے اکثریتی قبیلے کا دامن کسی بھی داغ سے بچا ہوا ہے ۔ جبکہ ریاستی قومی جدوجہد میں بھی اس قبیلے کے ہزاروں نوجوانوں کی شہادتیں ہوئی ہیں ہجرت و دیگر قربانیوں سے زندگی عبارت ہے اس لیے تعصب کی بنیاد پر اس قبیلہ کو نفرت کا نشانہ بنانا نہ صرف قومی اخلاقی آدرشوں کے خلاف بے بلکہ انسانیت کی بدترین توہین و تزلیل ہے ۔ اس محکوم استحصال زدہ علاقہ/ خطے میں جن کو افضل و معتبر قرار دیا جاتا ہے یا سرٹیفکیٹ دییے گے ہیں ان کے ہاتھ اس ریاست کے باشندگان کے خون سے لت پت ہیں۔ قومی ، عوامی ، انقلابی سوچ رکھنے والوں کو حقیقت پسندانہ کردار ادا کرنا چاہیے ، جبکہ قبیلوں برادریوں کے تعصب سے بالاتر ہو اپنے اپنے قبائل کو پروگریسیو بنانا ہی قابل فخر عمل ہے۔ اس خطہ کے گوجری و پہاڑی بولنے والوں کو چاہیے کہ جس طرح اپنی زبانوں/ بولیوں کا دفاع کر رہے ہیں اسی طرح ریاست جموں و کشمیر کے قومی تشخص کے لیے بھی جدوجہد ناگزیر ہے ۔ خاص طور پر 16 مارچ 1846 کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کی بحالی وحدت کے لیے قومی یکجہتی وقت کا تقاضا ہے ۔ اگر اس جانب نہ توجہ دی اور جڑت پیدا کی تو قومی اقدام کے خلاف غاصبانہ پن سب شناخت ، سب تقافت سب رواج کھا جا جائے گا ۔ ہماری انفرادی و اجتماعی ، علاقائی و قومی، گوجری و پہاڑی ، ڈوگری سب شناخت، پہچان اس لولے لنگڑے بے اختیار و و بے وقار خطہ نام نہاد آزاد جموں و کشمیر کے باشندگان کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ جس ایک دوسرے کی زندگی و موت سے منسوب لازم و ملزوم/ مشروط ہیں۔ اس لیے ان سب سانجھی مشترک پہچان ، تشخص ، شناخت کو بچانا ہی سب کی کی بنیادی زمہ داری ہے ۔ یہ سب عوامل ہمارے قومی وجود ، قومی و ریاستی وحدت بقاء کے ضامن ہیں ۔ ( ختم شد)

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...