*طلبہ ایکشن کمیٹی جموں کشمیر کا قیام اور طلبہ یونین کی بحالی: ایک انقلابی قدم اور ضرورت ہے۔*
تحریر *شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ* ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی
نکیال/کوٹلی
03418848984
*21 مارچ کو پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع کوٹلی میں پورے پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے طلبہ کا نمایندہ ، بنیادی مرکزی اجلاس منعقد ہوا جو تقریبا بارہ گھنٹے جاری رہا۔ جس میں پورے خطہ سے سینکڑوں طلبہ کے نمائندگان نے تمام اضلاع ، تحصیلوں ، جامعات ، کالجز سے بھرپور نمائندگی کی ۔*
اور نمایندہ طلبہ کی ایک کور کمیٹی بھی بنائی گی ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ غیر الفطر کے بعد طلبہ ایکشن کمیٹی اپنے فوری طلبہ یونین بحالی اور اس پر انتخابات کی تاریخ کے اعلان، مہنگی فیسوں وغیرہ بارے احتجاجی تحریک کا آغاز کرے گی۔
*پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں طلبہ ایکشن کمیٹی کا قیام انتہائی خوش آئند اقدام ہے۔*
قارئین!
*موجودہ دور میں، طلبہ یونین کی بحالی کا مسئلہ نہ صرف تعلیمی اداروں میں جمود ، استحصال کو توڑنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ ایک بنیادی جمہوری حق کی بحالی کی جدوجہد بھی ہے۔*
*پاکستان میں طلبہ یونینز پر پابندی 1984ء میں ضیاء الحق کے دور میں لگائی گئی تھی، اور اس کے بعد سے یہ پابندی بدستور قائم ہے۔*
*تاہم، اس پابندی کے باوجود طلبہ کی سیاسی بیداری اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں مخلتف ادوار میں شدت دیکھائی دی ہے اور طلبہ یونین کا احساس پوری شدت سے بڑھتا و محسوس ہوتا رہا ہے*
اس تحریر میں ہم تاریخی، عالمی اور ملکی تناظر میں طلبہ یونین کی بحالی کی ضرورت پر روشنی ڈالیں گے۔
تاکہ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے طلبہ طلبہ حقوق ، طلبہ یونین بحالی کی جدوجہد پر مزید پختہ یقین کرتے ہوئے راہنمائی حاصل کریں۔
قارئین!
*جموں کشمیر چونکہ پاکستانی براہ راست قبضہ و کنٹرول میں ہے ، جہاں نوآبادیاتی قوانین ہیں ۔ اس خطہ کی معشیت و سیاست بھی اس خطہ پر غاصب پاکستان اور اس کی ڈرائیونگ قوتیں ہی رن کرتے ہوئے یہاں کا پورا معاشی ، سیاسی، انتظامی ڈھانچہ قابو کیے ہوئے ہیں ۔*
اس لیے پاکستان میں کسی قسم کی سیاسی معاشی یا جدوجہد وغیرہ کی سرگرمیوں کا اثر بھی براہ راست اس خطہ پر پڑتا ہے اور وہاں کے تجربات کو یہاں بھی آزمایا جاتا ہے ۔
پاکستانی وفاق ہی یہاں حکومتیں ، قانون تشکیل دیتا ہے اور اس کے محرکات و لوازمات کو پرسوں چڑھاتا ہے ۔ اس لیے وہاں کے حالات جو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ خاص طور پر جب پاکستان کے حالات عالمی سامراجی توسیع پسندانہ عزائم کے زیر اثر ہوں۔
پاکستان میں طلبہ یونین کی پابندی ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران نافذ کی گئی،
جب حکومت نے طلبہ کے احتجاج اور سیاسی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے یہ فیصلہ کیا۔
ضیاء آمریت نے ملک میں بائیں بازو کی سیاسی سرگرمیوں کو کمزور کرنے کے لیے طلبہ یونینز کو غیر فعال کر دیا تھا۔
*بنیادی طور پر ضیاء آمریت جو امریکی آشیرباد تلے تھے وہ طلبہ کے انقلابی رجحان سے خوف زدہ تھے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں ان انقلابی رجحان کو بنیادی رکاوٹ سمجھتے تھے ۔*
*بائیں بازو کی سیاسی رجحانات کو کمزور کرنے کی اسی طرح کی صورتحال دنیا کے دیگر حصوں میں بھی موجود تھی ،*
جہاں آمروں اور جابروں نے طلبہ کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے ایسی ہی پابندیاں عائد کیں۔
دنیا بھر میں طلبہ کی تحریکیں ہمیشہ تبدیلی ، جدوجہد ، تحفظ کی علامت رہی ہیں۔
*1968-69 کی انقلابی تحریک ہو یا حالیہ بنگلہ دیش میں طلبہ کی طاقت کا مظاہرہ، طلبہ نے ہمیشہ طاقتور حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کی۔
بنگلہ دیش میں طلبہ نے نہ صرف حکومت کو چیلنج کیا بلکہ پورے نظام کو بدل کر رکھ دیا۔
جبکہ اس کے علاؤہ، روس میں بالشویک انقلاب کی کامیابی میں بھی نوجوانوں اور طلبہ کا اہم کردار تھا جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
جس کی مرکزی کمیٹی کی اوسط عمر 29 سال تھی۔
*یہ سب اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ طلبہ میں وہ طاقت اور چنگاری ہوتی ہے جو انقلاب کے شعلے بھڑکاتی ہے۔*
*اس طرح اگر پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں بھی طلبہ ایکشن کمیٹی حقیقی معنوں میں منظم و فعال ہو کر انقلابی رجحان ، نظریہ ، نعروں جدوجہد سے لیس ہو جایے تو یہاں پر مسلط سرکش حکمران طبقہ کے لے ایک لٹکتی تلوار ثابت ہو سکتی ہے ۔*
پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی کی اصل وجہ حکمرانوں کا خوف تھا۔
حکمران جانتے تھے کہ جب طلبہ کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع ملتا ہے،
تو وہ پورے معاشرتی اور سیاسی نظام کو چیلنج کر دیتے ہیں۔ جس کی تازہ ص حالیہ مثال ہمارے نزدیک بنگلہ دیش کی موجود ہے۔
*لیکن اس پابندی کے باوجود، نہ تو طلبہ کی سیاست ختم ہو سکی اور نہ ہی ان کے حقوق کے لیے جدوجہد رک سکی۔ حکمران طبقہ طلبہ کو طلبہ حقوق جدوجہد اور ان میں موجود انقلابی رحجان ، بائیں بازو کی سوچ و فکر کو ختم نہیں کر سکا ہے جو ان نظریات کی جیت کا واضح اظہار ہے۔*
*پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں
آج بھی طلبہ کے مسائل اور حقوق کے لیے مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں، لیکن ایسے خاص وقت میں جب پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں آمدہ انتخابی پانچ سالہ انتخابات قریب ہیں ،*
طبقاتی تضاد موجود ہے تو ایسے وقت میں ان سب طلبہ تنظیموں کا بلا تفریق و امتیاز ون ایجنڈے طلبہ یونین بحالی کے لیے طلبہ ایکشن کمیٹی کے فورم پر سے متحد ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ طلبہ کی آواز ابھی بھی موجود ہے۔ان کے اندر طلبہ یونین بحالی و طلبہ حقوق کی مشترکہ جدوجہد کا احساس موجود ہے ۔ وہ چنگاڑی ، لہر آج بھی ختم نہیں ہوئی ہے ۔
بلکہ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں نئی شدت جوش جذبہ امید سے سامنے آئی ہے ۔
قارئین کرام!
ایسے موجورہ حالات میں پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں کمیٹی کا قیام وقت کا تقاضا اور طلبہ و عوام کا مطالبہ تھا ، چونکہ تعلیمی اداروں میں بدترین استحصال موجود ہے ۔
طلبہ یونینز کی غیر موجودگی میں تعلیمی اداروں میں استحصال بڑھ چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کی بدسلوکی، خود غرضی، مقابلہ بازی اور کیریئر ازم کا غلبہ ہے،
جو طلبہ کے حقوق کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
اگر طلبہ یونینز بحال ہو جائیں تو یہ اس استحصال کے خلاف ایک مضبوط آواز بن سکتی ہیں۔
طلبہ یونینز کی عدم موجودگی میں طلبہ کی نظریاتی تربیت اور مباحثے کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔
یونینز کی بحالی کے ساتھ ہی ایک فکری و نظریاتی ماحول پیدا ہوگا جس میں طلبہ اپنے حقوق، سماجی مسائل اور نظام کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے بحث کر سکیں گے۔
اس خطہ کے طلبہ سابقہ رویت پر آمدہ انتخابات ، سیاست برائے خدمت کے لیے ایک نئی قیادت کے طور پر ابھریں گے ۔
ایک نیاء سیاسی متبادل پیدا ہو گا۔
اگر طلبہ یونینز بحال ہو جائیں، تو نوجوانوں میں سیاسی بیداری بڑھے گی اور وہ موجودہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی نظام کو چیلنج کر سکیں گے۔
یہ ایک ایسا قدم ہوگا جو پورے خطے میں تبدیلی کی بنیاد رکھے گا۔موجودہ بوسیدہ روائیتی برادری قبیلہ خاندان موروثی سیاسی نظام کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔
میرے دیش کے انقلابی نوجوانوں!
آج کا تعلیمی نظام ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں تعلیمی ادارے صرف منافع کمانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
سرکاری سیکٹر کو جان۔ بوجھ کر کمزور کر کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا جال بچھا کر عوام طلبہ کے معاشی ذہنی و سیاسی و جسمانی استحصال کی سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔
تعلیم برائے تعلیم و تربیت ، خدمت و متبادل کے کارباور بن چکی ہے ۔ تعلیمی ادارے چھوٹی موٹی صنعتیں بن چکی ہیں۔
ایسی صورتحال میں، طلبہ یونینز کے قیام کی مخالفت کرنے والے بیشتر سیاسی رہنما اور 'دانشور'، دراصل اس مافیا کے ساتھ وابستہ ہیں
اور ان کی مخالفت کے پیچھے ان کا مفاد کار فرما ہے۔
حکمرانوں کا خوف یہ ہے کہ اگر طلبہ یونینز بحال ہو گئیں تو یہ مافیا اور ان کے توسیع پسندانہ عزائم کو چیلنج کر سکتی ہیں۔ ان کا یہ منافع خوری کا کاروبار ، دھندہ تباہ و بردبار ہو جائے گا اس لیے طلبہ یونین کی بحالی کے سخت خلاف ہیں۔
قارئین کرام ؟
اگر طلبہ یونینز بحال ہوتی ہیں تو یہ ایک انقلابی قدم ثابت ہو گا جو پورے پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے طلبہ کو جوڑنے اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی طاقت دے گا۔
طلبہ کی تحریکیں ہمیشہ سماجی تبدیلی کی علامت رہی ہیں، اور ان یونینز کی بحالی کا مطلب یہ ہے کہ نوجوان ایک مرتبہ پھر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں گے۔
یہ جدوجہد صرف طلبہ کے مسائل تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے طبقاتی نظام کو چیلنج کرنے کی طرف بڑھے گی اور جموں کشمیر کے قومی سوال کی ضامن ثابت ہو گی ۔
آئندہ کالم میں طلبہ حقوق ، طلبہ یونین کا طبقاتی ، قومی ، عوامی سوال کے ساتھ جڑت بارے سوالات اور کردار پر بحث مباحثہ کیا جائے گا ۔ تاکہ موجودہ وقت کے طلبہ یونین ، طلبہ ایکشن کمیٹی کی دلچسپی کے ماحول میں ہم اس پر مبنی ایک خوبصورت بحث مباحثہ کو پروان چڑھا سکیں۔
طلبہ ایکشن کمیٹی جموں و کشمیر کے قیام پر حرف آخر یہی ہے کہ
طلبہ یونین کی بحالی نہ صرف طلبہ کے حقوق کی بازیابی کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ پورے معاشرتی اور سیاسی نظام میں تبدیلی لانے کی ایک کڑی ہے۔
اس کے ذریعے نوجوانوں کو اپنے حقوق کی جدوجہد کا ایک طاقتور پلیٹ فارم ملے گا، اور یہ جمہوری تقاضوں کے مطابق ایک مستحکم اور شفاف تعلیمی نظام کی طرف قدم بڑھے گا۔
اگر ہم ایک ترقی پسند اور انقلابی سماج کی تشکیل چاہتے ہیں، اپنے قومی سوال سے سنجیدہ ہیں تو طلبہ یونین کی بحالی اولین ضرورت ہے اس کے لیے طلبہ ایکشن کمیٹی کی فعالیت ، اس سے اظہار یکجتی ، اس کی ایکتا سب کی مشترکہ قومی عوامی سانجھی زمہ داری ہے ۔
(ختم شد)
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں