میں جنسی ہراسانی: مسئلہ، اثرات اور حل کی جانب قدم۔ اینٹی ہراسمنٹ ایکشن کمیٹیوں کا قیام وقت کا تقاضا ۔
زیر انتظام جموں و کشمیرتعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی: مسئلہ، اثرات اور حل کی جانب قدم۔
اینٹی ہراسمنٹ ایکشن کمیٹیوں کا قیام وقت کا تقاضا ۔
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ
ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی جموں کشمیر
قارئین! پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام اٹھ چکا ہے ۔ پاکستانی زیر انتظام یہ علاقہ جس کو بیس کیمپ قرار دیا گیا ہے یہ حقیقت میں ایک قید خانہ ہے خاص طور پر عورتوں کے لیے ایک ہراسمنٹ کیمپ بنتا جا رہا ہے
خواتین کو ہراساں کرنے کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں لیکن اس سے بھی تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اکثریتی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے نہ منظر عام پر آتے ہیں ۔ گزشتہ آیام میں میرپور میں ایس ایچ او اور ایک ایڈیشنل جج کی جان۔ سے خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات پر خواتین کی پکار پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی خواتین کے ساتھ میدان میں کود گی جس کی وجہ سے مرتکبین کو اپنے انجام تک پہچنا پڑ رہا ہے۔
اس خطہ میں نصف درجن کے قریب یونیورسٹیاں ہیں جہاں طالبات کا بدترین جسنی ذہنی معاشی استحصال کیا جاتا ہے ۔ خواتین طالبات کو ہراساں کیا جاتا ہے ۔ اس بارے کچھ مرقوم کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
کیوں کہ میرپور کے گزشتہ واقعات کے وائرل ہونے سے ضروری ہے کہ پیشگی ایسے حملوں اور رجحان کے خلاف بھرپور تیاری کر لی جائے ۔ اس لیے تعلیمی اداروں میں ہراسنگی کو سمجھنا ضروری ہے ۔
قارئین! خوشی کی بات یہ ہے کہ اینٹی ہراسمنٹ سرگرمیاں ایسے وقت میں منظر عام پر آئیں ہیں جب 8 مارچ خواتین حقوق کا بین الاقوامی دن نزدیک ہے۔ اس لیے خواتین کو اس دن کی اہمیت پس منظر سے جوڑنا بھی انتہائی ضروری ہے
تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں جہاں علم و تحقیق کے اہم مراکز ہیں، وہاں ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وہ جنسی ہراسانی کے مرکز بھی بن چکے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر نہ صرف تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بھی اس کی سنگینی کو تسلیم کرنے اور اس کے حل کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
یونیورسٹیاں اور کالجز وہ جگہیں ہیں جہاں نوجوان اپنی علمی، پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی کی بنیاد رکھتے ہیں، لیکن ان اداروں میں جنسی ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے طلبہ کی ذہنی سکونت اور تعلیمی کارکردگی پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
یہ واقعات نہ صرف متاثرہ افراد کے لیے شدید ذہنی دباؤ کا باعث بنتے ہیں بلکہ اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
جنسی ہراسانی کی مختلف شکلیں ہیں، جن میں زبانی، جسمانی اور نفسیاتی ہراسانی شامل ہیں، اور یہ سب ایک ہی نوعیت کے سنگین نتائج کا باعث بنتی ہیں۔ اداروں میں ہراسانی کی زیادہ تر شکایات خواتین اور کمزور گروپوں سے متعلق ہیں، جنہیں نہ صرف سوشل اسٹرکچر بلکہ کبھی کبھار انتظامیہ کی طرف سے بھی مدد نہیں ملتی۔
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات کا نہ صرف نفسیاتی بلکہ تعلیمی، سماجی اور قانونی طور پر بھی سنگین نقصان ہوتا ہے۔ جب کسی طالبہ یا طالب علم کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہوتا ہے، تو اس کے اثرات فرد کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمی کارکردگی پر بھی براہ راست پڑتے ہیں۔
پہلا اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ فرد کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ تعلیمی ادارے، جو کہ ایک محفوظ ماحول کے طور پر تصور کیے جاتے ہیں، ان میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والے طلبہ کو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی شدید نقصان پہنچتا ہے
۔ ہراسانی کے شکار طلبہ میں ذہنی تناؤ، اضطراب، ڈپریشن اور خود اعتمادی میں کمی جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے کیونکہ وہ زیادہ تر وقت ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی توجہ پڑھائی پر مرکوز نہیں رہ پاتی۔
دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ طالب علم کی سماجی زندگی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے دوستوں یا ساتھیوں سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو کسی سے شیئر کرنے سے ہچکچاتے ہیں
۔ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی شکایت کریں گے تو انہیں اور زیادہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے گا یا ان کی ساکھ متاثر ہو جائے گی۔
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کی روک تھام نہ ہونے سے اداروں کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ یونیورسٹیاں اور اسکولز جو اپنے آپ کو علم و تحقیق کے مراکز کے طور پر پیش کرتے ہیں، جب ان میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں، تو ان کی عزت و وقار متاثر ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف ادارے کی داخلی فضا پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اس ادارے کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، جنسی ہراسانی کے واقعات کا تعلق صرف فرد سے نہیں ہوتا بلکہ یہ پورے تعلیمی نظام کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جب ان مسائل کی رپورٹنگ اور تحقیقات نہیں کی جاتیں، تو اس سے قانون کی عملداری اور ادارے کے نظام کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے
۔ ہراسانی کے متاثرین اکثر شکایت کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا، یا یہ کہ ان کی آواز کو سنا نہیں جائے گا۔
یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے مسائل کے حل کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔ اداروں کو اپنے طلبہ اور عملے کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جنسی ہراسانی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھ سکیں اور اس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں۔ اس کے علاوہ، جنسی ہراسانی کے واقعات کی رپورٹنگ کے لیے ایک شفاف اور محفوظ نظام موجود ہونا چاہیے تاکہ متاثرہ افراد بغیر کسی خوف کے اپنی شکایات درج کر سکیں۔
یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لیے ان اداروں کی انتظامیہ کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
اس میں ہراسانی کے واقعات کی جلد تحقیقات، متاثرہ افراد کو قانونی مدد فراہم کرنا، اور ایسے ماحول کی تشکیل شامل ہے جہاں ہر فرد کو عزت اور مساوات کا دروازہ ملے۔
جنسی ہراسانی کا مسئلہ صرف ایک قانونی یا انتظامی چیلنج نہیں ہے، بلکہ یہ سماجی انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ جب تک ان اداروں میں جنسی ہراسانی کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاتا، تب تک یہ ادارے حقیقی معنوں میں ایک محفوظ اور تعلیمی ماحول فراہم نہیں کر سکتے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کی یونیورسٹیوں میں جنسی ہراسانی کے متعدد کیسز گزشتہ کئی برسوں سے رپورٹ ہو رہے ہیں، اور ہر دن کوئی نہ کوئی سکینڈل میڈیا کی زینت بنتا ہے۔
خاص طور پر کوٹلی یونیورسٹی گزشتہ ماہ شدید میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ ان واقعات کا تسلسل بتاتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کا مسئلہ کس قدر گمبھیر ہے، اور اس کا حل انتہائی ضروری ہے۔
مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ میرپور میں ایس ایچ او اور جج کی جانب سے خواتین کے ساتھ ہراسانی کے واقعات پر خواتین کی جدوجہد اور ایکشن کمیٹی کی کامیاب کوششوں نے اہم تبدیلی کی ہے۔
اس جدوجہد نے نہ صرف ان واقعات کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ بوسیدہ اور مردانہ سماج کے صنفی سوالات کو بھی ایک نئی جہت دی ہے۔ یہ ایک مثبت قدم ہے جس نے اس اہم مسئلے کو کھل کر سامنے لایا ہے اور خواتین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے تمام تعلیمی اداروں، خصوصاً یونیورسٹیوں جیسے کوٹلی، مظفرآباد، میرپور، باغ اور دیگر شہروں کی طالبات اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان تعلیمی اداروں میں اینٹی ہراسانی کمیٹیاں قائم کی جائیں، جو خود طالبات کی نگرانی میں کام کریں۔ یہ کمیٹیاں صرف شکایات کو درج کرنے تک محدود نہ ہوں،
بلکہ انہیں تعلیمی اداروں میں طبقاتی جدوجہد سے منسلک کیا جائے تاکہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک بھرپور اور متحرک ماحول پیدا ہو سکے۔
اگر فوری طور پر ایسے کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے تو یہ نہ صرف جنسی ہراسانی کے خلاف مؤثر قدم ثابت ہوں گی، بلکہ یہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں بیداری بھی پیدا کریں گی
۔ اس طرح، طالبات ایک دوسرے کی مدد کر سکیں گی اور تعلیمی اداروں کو جنسی ہراسانی سے پاک بنانے میں اہم کردار ادا کر سکیں گی۔
8 مارچ، خواتین کا عالمی دن، دنیا بھر میں خواتین کے حقوق، مساوات اور صنفی انصاف کے لیے ایک اہم موقع کے طور پر منایا جاتا ہے۔
یہ دن خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کو اجاگر کرنے اور معاشرتی سطح پر خواتین کی حالتِ زندگی میں بہتری لانے کی ضرورت کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں اس دن کو منانا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ ایک مضبوط پیغام بھی دیتا ہے کہ تعلیمی ادارے خواتین کو مساوی مواقع اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں خواتین کے عالمی دن کو منانے سے جہاں طلبہ میں صنفی مساوات اور احترام کے اقدار کو فروغ ملتا ہے، وہاں یہ خواتین کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے خصوصی تقریبات، ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کیے جا سکتے ہیں، جن میں خواتین کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جا سکتا ہے اور انہیں جنسی ہراسانی جیسے سنگین مسائل کے بارے میں تعلیم دی جا سکتی ہے۔
اس دن کے ذریعے خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرتی سطح پر مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ، اس دن کا مقصد تعلیمی اداروں میں صنفی فرق کو ختم کرنا اور ایک ایسے ماحول کی تشکیل کرنا ہے جہاں خواتین محفوظ اور آزاد ہوں اور وہ اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی کو بھرپور طریقے سے گزار سکیں۔
یہ اقدام نہ صرف جنسی ہراسانی کے خلاف ایک قدم ہوگا، بلکہ خواتین کے حقوق اور ان کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط اور مربوط جدوجہد کی بنیاد بھی فراہم کرے گا۔ اس کے ذریعے ہم ایک ایسے تعلیمی ماحول کی تشکیل کر سکتے ہیں جہاں خواتین محفوظ اور آزاد ہو کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں اور اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں۔
( ختم شد )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں