میرپور ایس ایچ او ، جج خواتین ہراسمنٹ کیس، سوالیہ نشان ۔ فوری طور پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے ۔ یہ دونوں کیسز اس بات کا غماز ہیں کہ ہمارے ادارے کس طرح عوامی اعتماد کھو رہے ہیں، اور جب تک فوری طور پر ایک اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل نہیں دیا جاتا، اس بحران کو حل کرنا مشکل ہو گا* ۔۔
*میرپور ایس ایچ او اور جج : خواتین ہراسمنٹ کیسز - جوڈیشل کمیشن وقت کا تقاضا!*
تحریر: *شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ،* ہائی کورٹ
ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال / کوٹلی جموں کشمیر
*میرپور کے ایس ایچ او اور جج ،خواتین ہراسمنٹ کیسز نے آزاد جموں و کشمیر کے موجودہ نظام اور اداروں پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ دونوں کیسز اس بات کا غماز ہیں کہ ہمارے ادارے کس طرح عوامی اعتماد کھو رہے ہیں، اور جب تک فوری طور پر ایک اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل نہیں دیا جاتا، اس بحران کو حل کرنا مشکل ہو گا* ۔
موجودہ حالات میں، پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے تھانے اور پولیس اسٹیشن عوام کے حقوق کے محافظ نہیں رہے، بلکہ یہ مراکز بدقسمتی سے گلیوں کے جھگڑوں، ذاتی دشمنیوں اور ہراسمنٹ کی جگہوں میں بدل چکے ہیں۔
کئی لاکھوں کی کوششوں کے باوجود یہ کہنا کہ آزاد جموں و کشمیر کے تھانے اپنے فرائض مکمل طور پر نبھا رہے ہیں، انتہائی مبالغہ آرائی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان اداروں کی حالت پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اگر آپ کے پاس پیسہ، طاقت یا سیاسی روابط نہیں ہیں، تو آپ کے ساتھ پولیس کا سلوک آپ کی زندگی کو ایک بدترین عذاب میں تبدیل کر سکتا ہے۔ سر پھٹے ہوں، خون بہ رہا ہو، اور جیب میں پیسے نہ ہوں، تو آپ کی پولیس آپ کی مدد کرنے کے بجائے مزید پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔
بالخصوص جب آپ کسی روایتی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہیں یا آپ کا تعلق کسی اثر و رسوخ والے طبقے سے نہیں ہے، تو پولیس کی جانب سے آپ کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا سکتا ہے۔
اس معاشرتی حقیقت کو بھی ہم نے دیکھا ہے کہ جو شخص طاقتور طبقے سے تعلق نہیں رکھتا، چاہے وہ غریب ہو، یا اس کے پاس سرمایہ نہ ہو، اس کے لیے انصاف کی حصولی ایک خواب بن چکا ہے۔
اس کا بہترین اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انصاف کی کوششوں کے دوران، وہ شخص ذلیل و خوار ہوتا ہے اور انصاف کی تلاش ایک عذاب بن جاتی ہے۔ اس وقت جو معاشرتی صورت حال ہے، اس میں انصاف حاصل کرنے کے لیے دولت، اقتدار، اور بڑے ناموں کا ہونا ضروری ہو چکا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے ادارے بظاہر عوامی خدمت کے لیے کام کرنے والے ادارے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ زیادہ تر ایک استحصالی نظام بن چکے ہیں۔ بعض محکموں میں فرض شناس افسران موجود ہیں، لیکن ان کی تعداد کم ہے اور زیادہ تر افسران عوامی مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی ذاتی فائدہ اندوزی میں مشغول ہیں۔
اس نظام کی ناکامی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پولیس اسٹیشن میں ہراسمنٹ کے ایسے واقعات اس بات کا مظہر ہیں کہ ریاست کی بے اختیاری اور بے وقاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا اب خواتین پولیس اسٹیشن میں بھی محفوظ نہیں ہیں؟ کیا وہ انصاف کی تلاش میں جانے پر خوف محسوس کریں گی کہ ان کے ساتھ بدسلوکی نہ ہو؟ ان کے حقوق کی حفاظت کون کرے گا؟ اور اگر قانون کے محافظ خود مجرم بن جائیں، تو ان کے لیے کیا سزا تجویز کی جائے گی؟
خاص کر سوشل میڈیا پر وائرل یہ پوسٹ کہ انصاف لینے کے کیا فون نمبر اور فوٹو بھی دینی کی ضرورت ہے یہ بہت بڑا اور گہرا ردعمل ہے ۔
*میرپور جیسے ضلع سے ایک سینئر جج کا اس ہراسمنٹ کیس میں ملوث ہونا مزید پریشان کن ہے۔*
*یہ واقعہ عدلیہ کی ساکھ اور وقار پر ایک سنگین دھبہ بن گیا ہے، اور اس سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد متاثر ہوا ہے لیکن چیف جسٹس جسٹس آف آزاد جموں و کشمیر کی فوری دانشمندی سے عوام اگرچہ مایوس ہوئے ہوں لیکن امید نہیں ٹوٹی ہے ۔*
خواتین اور نوجوانوں کا اس نظام پر سے اعتماد ٹوٹ رہا ہے، اور ان دونوں واقعات نے عوام میں سوالات اٹھا دیے ہیں۔عوام بحث مباحثہ کر رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہیں ۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ اس معاملے پر فوری طور پر ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دے تاکہ حقائق کو بے لاگ طریقے سے سامنے لایا جا سکے۔
اس کمیشن کو مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہونا چاہیے تاکہ کسی قسم کی مصلحت سے بالا تر ہو کر سچ سامنے آ سکے۔
مذکورہ بالا تمام الزامات کی تحقیقات کے بعد اگر جج یا ایس ایچ او کو مجرم پایا جاتا ہے تو ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے،
*لیکن ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ انصاف کا عمل تمام افراد کے لیے یکساں ہونا چاہیے، چاہے وہ طاقتور ہوں یا کمزور۔*
اگر ان واقعات پر فوری اور شفاف تحقیقات نہیں کی گئیں، تو یہ دونوں اداروں پر مزید داغ لگا دیں گے اور عوام کا ان پر سے اعتماد ختم ہو جائے گا۔
اس لیے اعلیٰ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کے عملے کی مانیٹرنگ کرے اور تمام افسران اور کلرکوں کی مکمل جانچ کرے تاکہ انصاف کی فراہمی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔ کہڑی نگرانی کی ضرورت ہے ۔
*چیف جسٹس آف ہائی کورٹ کے فوری ردعمل اور کارروائی کو ایک مثبت اور دانشمندانہ قدم قرار دیا جا سکتا ہے* ۔ جب یہ ہراسمنٹ اور سنگین الزامات سامنے آئے، تو انہوں نے فوراً ایک ردعمل ظاہر کیا، مزکورہ جج کو مطلع کرتے ہوئے مظفرآباد طلب کر لیا جو قابل ستائش ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ جب کوئی سنگین الزام عائد ہو تو اعلیٰ حکام کو عوامی تحفظات اور احساسات کے حوالے سے فوری طور پر ردعمل دینا چاہیے کسی آفت یا عوامی قہر کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس معاملے کو سنجیدہ لیا اور اسے قانون کے دائرے میں حل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
چیف جسٹس آف ہائی کورٹ کا یہ عمل اس بات کا غماز ہے کہ جب قانون کے محافظ خود مجرم بن جائیں، تو ان کے خلاف فوری کارروائی ضروری ہے۔
ان کے اس اقدام سے یہ پیغام ملتا ہے کہ عدلیہ اس بات کو سمجھتی ہے کہ عوام کا اعتماد اگر ٹوٹ جائے تو ادارے کا تقدس اور ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔ اس اقدام سے واضح ہوا کہ اعلی عدلیہ قانون پر سمجھوتا نہیں کر سکتی ہے
یہ وقت ہے کہ عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ عدلیہ اور پولیس عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ اس کے بغیر یہ ریاست معاشرتی انصاف کا کوئی معیار قائم نہیں رکھ سکے گی۔
ایک جج پر الزام لگنے سے صورت حال بدل چکی ہے ۔
اس لیے یہ کیس بڑا ٹیسٹ کیس ہے جس پر صرف پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر بلکہ برطانیہ میں موجود ایک ملین جیکین کمیونٹی کی نظریں بھی مرکوز ہیں ۔
موجودہ نظام کو، جو کہ ایک نوآبادیاتی سسٹم کی طرح مسلط کیا گیا ہے، تبدیل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ جب تک اس نظام کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، عوام کو انصاف، مساوات اور حقوق کی فراہمی ایک خواب ہی رہے گی۔ اس لیے ہمیں ایک نئے اور بہتر نظام کی ضرورت ہے جس میں ہر فرد کو مساوات کی بنیاد پر انصاف مل سکے۔
ختم شد
اللہ پاک آپ کو دنیا اور آخرت میں بہترین اجر عطا فرمائیں،
جواب دیںحذف کریںآمین ثم آمین یارب العالمین
میرے بھائی خواتین کے لیے انصاف لینا دور کی بات گھر سے باہر کسی ضروری کام کے لیے نکنا بھی مشکل ہے ،
اللہ پاک کا شکر ہے کہ کسی نے خواتین کے لیے آواز اٹھائی ، تاکہ معاشرے میں خواتین کو تحفظ مل سکے ، وہ بھی عزت اور وقار کی زندگی جی سکیں