نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مجںتی بانڈے کو، جو کہ ایک جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ میں گرفتار ہیں، جامعہ مظفرآباد میں امتحان دینے کے لیے لایا گیا۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی اور ان کے ساتھ ایک پولیس اہلکار زنجیر پکڑے کمرہ امتحان میں موجود تھا،

ریاستی جبر کا نیا انداز؟ مجںتی بانڈے کا ہتھکڑی میں امتحان ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ( نکیال کوٹلی، جموں کشمیر ) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اپنے عروج پر ہیں۔ اس خطہ میں انسانی حقوق کا احترام تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اس کا منہ بولتا ثبوت گزشتہ روز مورخہ 5 فروری کو مظفرآباد میں دیکھنے کو ملا۔ اس دن جموں کشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے مرکزی صدر اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن مجںتی بانڈے کو، جو کہ ایک جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ میں گرفتار ہیں، جامعہ مظفرآباد میں امتحان دینے کے لیے لایا گیا۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی اور ان کے ساتھ ایک پولیس اہلکار زنجیر پکڑے کمرہ امتحان میں موجود تھا، جبکہ کمرہ امتحان کے باہر درجنوں پولیس اہلکار اور دیگر عناصر آتشیں اسلحہ سے مسلح کھڑے تھے۔ یہ منظر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ریاست نے طلبہ کے حقوق کے خلاف جبر و تشدد کی انتہاء کر دی ہے۔ اس واقعہ کو دیکھ کر یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ اس خطہ میں انسانی حقوق کی پامالی میں اب کوئی تمیز باقی نہیں رہی۔ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کا منظر ایک لمحے کے لیے مظفرآباد میں دکھائی دیا۔ یہ شرمناک واقعہ دنیا میں کہیں اور نہیں پیش آیا، لیکن پھر بھی اسے آزاد جموں کشمیر کہا جاتا ہے۔ ریاست اپنے جبر سے طلبہ کو خوف زدہ کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ این ایس ایف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور فعالیت سے خائف ہے۔ مجںتی بانڈے کی گرفتاری اور اس کی شرمناک انداز میں پیشی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس ریاست کا موجودہ ڈھانچہ جو کہ کالونیل نظام پر مبنی ہے، اندر سے مکمل طور پر کھوکھلا ہو چکا ہے۔ ریاستی جبر اب اپنے آخری حربوں پر اتر چکا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ جبر ریاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ اس خطہ کے طلبہ بنگلہ دیش کے طلبہ کی طرح اٹھ کھڑے ہوں اور طلبہ یونین کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں۔ عوام کو اس فرسودہ نظام سے نجات دلائیں۔ اس خطہ کی اکثریت اگرچہ پاکستان سے اپنے سیاسی تعلقات کی بات کرتی ہے، لیکن یہاں کی عوام پاکستان کے خلاف نہیں ہیں۔ ان کا مسئلہ ہندوستان یا پاکستان سے نہیں بلکہ غاصبانہ حکمرانی سے ہے۔ وہ صرف اپنی مکمل آزادی چاہتے ہیں۔لیکن ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے نفرت کا بیچ گہرا کیا جا رہا ہے ایسے اوچھے ریاستی ہتھکنڈوں سے عوام کے دلوں میں نفرت اور بیزاری پیدا ہو رہی ہے۔ جلد ہی عوام جیتیں گے اور یہ ہتھکڑیاں کھلیں گی۔ اس خطہ کی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور دیگر ترقی پسندوں، آزادی پسندوں کو انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام عالم کی توجہ اس جانب مبذول کرانی چاہیے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا یہ سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔ اس خطہ میں اب انسانی حقوق کا احترام بالکل ہی ختم ہو چکا ہے، اور یہ وقت ہے کہ دنیا اس سنگین مسئلہ کو سنجیدگی سے لے اور اس پر کارروائی کرے۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں ، چیخ چیخ کر کہہ سکتے ہیں ۔ پور سچائی قوت سے دلیل سے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سلسلہ اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے، اور حالیہ واقعات اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ منظر نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے بلکہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ریاستی جبر اور تشدد کی انتہائیں کس حد تک بڑھ چکی ہیں۔ ریاستی جبر کے اس نئے انداز کے سامنے آنے کے باوجود یہ صورتحال عین متوقع ہے کہ یہ جبر زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ ریاست کے ان ہتھکنڈوں سے عوام میں نفرت اور بیزاری پیدا ہو رہی ہے، اور بہت جلد عوام اس فرسودہ نظام سے نجات حاصل کریں گے۔ دشمن کے بچوں کو تعلیم دلانے والے اب خود جموں کشمیر کے تعلیم یافتہ بچوں سے اس قدر کیوں خوف زدہ ہیں۔ ختم شد

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...