نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بھکاری یا حکمران ؟ نفرت کس سے کی جائے؟؟؟نظام ؟؟؟ہم بھکاریوں سے نفرت کرتے ہیں حقارت سے دیکھتے ہیں ۔ توہین کرتے ہیں گالیاں دیتے ہیں لیکن بھیک مانگنے کی وجوہات جو حکمران طبقہ سے ، سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہیں ان کو کبھی سمجھنے جاننے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ان سے نفرت کرتے ہیں ۔ نہ ان کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔

بھکاری یا حکمران؟ اصل نفرت کس سے کی جائے؟

Published from Blogger Prime Android App    
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ، ہائی کورٹ ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جموں و کشمیر نکیال کوٹلی 

آج کل بھکاریوں کے خلاف اور ان کے بھیک مانگنے کے طریقوں کے خلاف عوامی سطح پر اور انتظامی سطح پر ان کا خوب مذاق اڑایا جا رہا ہے اور انہیں تنگ بھی کیا جا رہا ہے

۔ اس کے ساتھ ہی دفعہ 144 کا نفاذ کر کے ان کے خلاف کارروائی کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ رمضان اور عید کے موقع پر پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر اور نکیال میں بھی پاکستان کے پنجاب بھر سے ہزاروں بھکاریوں کی آمد ہوتی ہے۔ یہ لوگ جگہ جگہ جا کر بھیک مانگتے ہیں۔

یہ اب ایک حقیقت بن چکا ہے کہ بڑی تعداد میں غیر مستحق بھکاری بھی اب بھیک مانگ رہے ہیں، کیوں کہ یہ ایک آسان کام بن چکا ہے

۔ سب سے زیادہ تشویش کا باعث یہ ہے کہ یہ اپنے بچوں کو بھی بھکاری بنا کر انہیں پیشہ ور بنا رہے ہیں۔

ایسی ویڈیوز اور مناظر روز بروز دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں مرد اور عورتیں معذور بننے کا ناٹک کرتے ہیں اور فراڈ کے ذریعے خود کو معذور یا کمزور بنا کر بھیک مانگتے ہیں۔

مگر یہ سب کچھ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام، طبقاتی فرق اور اس کے اثرات کی بدولت ہے۔

 اس نظام کی وجہ سے دولت چند خاندانوں اور افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہو چکی ہے۔

 ان ہی خاندانوں کا قبضہ ہے جن کے لیے انسانوں کی قدر صرف ان کی جیب کے بوجھ کے حساب سے کی جاتی ہے۔ 

اسی نظام نے نہ صرف دولت کو کچھ ہاتھوں میں مرکوز کیا بلکہ یہ بے روزگاری اور غربت کا سبب بھی بن چکا ہے۔

ہم بھکاریوں سے نفرت کرتے ہیں حقارت سے دیکھتے ہیں ۔ توہین کرتے ہیں گالیاں دیتے ہیں لیکن بھیک مانگنے کی وجوہات جو حکمران طبقہ سے ، سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہیں ان کو کبھی سمجھنے جاننے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ان سے نفرت کرتے ہیں ۔ نہ ان کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ 

جب ایک طبقہ دولت کی بے پناہ طاقت حاصل کرتا ہے، اور دوسرے طبقے کے پاس روزگار کے مواقع کم یا نہ ہوں، تو اس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ 

جب ایک وزیر کی تنخواہ نو لاکھ ہو جائے اور مزدور پندرہ سو روپے پر کام کرے تو مایوسی تضاد بڑھتا ہے ۔ بھکاری بنتے ہیں لوگ۔ نظام مجبور کرتا ہے  ۔

حکمران طبقے کی جانب سے عوام کے لیے مناسب روزگار کے مواقع فراہم نہ کرنا اس بھیک مانگنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی تقسیم انتہائی غیر منصفانہ طریقے سے کی جاتی ہے۔ چند خاندانوں یا افراد کے ہاتھ میں ساری دولت سمٹ کر رہ جاتی ہے، جبکہ اکثریت غربت میں ڈوبی رہتی ہے۔ 

حکمران طبقہ اس عدم مساوات کی بنا پر اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے، جس سے عوام کی معاشی حالت بدتر ہو جاتی ہے اور اس سے بھیک مانگنے کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں حکمران طبقے کی کمیشن اور سہولت کاریوں کی بدولت محنت کش طبقہ مسلسل استحصال کا شکار ہوتا ہے۔

 یہ طبقہ زمین، وسائل، اور پیداواری عوامل پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے، اور عوام کو ان کے جائز حقوق نہیں مل پاتے۔ اس استحصال کے باعث عوام کی اکثریت بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

جب ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے، تو عوام کو فلاحی خدمات فراہم کرنے کے بجائے حکمران طبقہ انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ مایوس کرتا ہے 

معاشی استحصال بڑھتا ہے اور عوام کو زندگی کے بنیادی حقوق کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔
جب حکمران طبقہ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق پر سرمایہ کاری کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات پر مرکوز ہوتا ہے، ریاست کے پاس نظام نہیں رکھے گا پرائیویٹ سیکٹر کو نوازے گا اس میں اضافہ ہوگا 

۔اس نظام میں عوام کا تعلیمی اور سماجی معیار گرتا ہے۔ تعلیم کی کمی اور معاشرتی امکانات کی محدودیت بھیک مانگنے کی ایک اور بڑی وجہ بنتی ہے، 

کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے افراد بھی بہتر مواقع نہ ملنے کی وجہ سے معاشی طور پر کمزور پڑ جاتے ہیں۔تعلیم کو صحت کو منافع بخش کاروبار بنایا گیا ہے جو ان کی پہنچ سے دور ہوتا ہے پھر بھیک آسان لگتی ہے۔

فلاحی اداروں کا فقدان
حکمران طبقہ فلاحی اداروں پر سرمایہ کاری کرنے کی بجائے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنے میں مشغول ہوتا ہے۔ریاست نے ایسے ادارے منافع خوری پر لگا رکھے ہیں ۔عوام کی فلاح و بہبود سے ہاتھ اٹھا لیا ہے 

 اس کے نتیجے میں وہ افراد جو واقعی معذور ہیں یا جو کسی جسمانی یا ذہنی مجبوری کا شکار ہیں، 

انہیں حکومت یا ریاست کی طرف سے مناسب امداد نہیں مل پاتی۔ اس لیے وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

آج حکومتی ادارے اور ریاست اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ بھیک مانگنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

اگر واقعی کوئی شخص معذور یا مستحق ہے، تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کی کفالت اور فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرے۔

 لیکن آج کے سماج میں اس بات کا تصور بھی کمزور ہو چکا ہے۔ اگر اسلام کے اصولوں کو دیکھیں تو یہ تک کہا گیا ہے کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا مر جائے تو اس کا ذمہ دار حکمران ہوگا۔

 پھر ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر موجودہ دور کے حکمران خود اپنی حیثیت میں کتے کے برابر ہوں تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

اگر سرمایہ دارانہ نظام نہ ہوتا، دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی، اور ہر کسی کو پیداوار پر حق ملتا، تو کسی کو بھیک مانگنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لوگ اپنی محنت سے کماتے اور اپنے پیٹ کی آگ کو بجھاتے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھوک، افلاس، تنگ دستی اور مجبوری انسان کو بھیک مانگنے پر مجبور کرتی ہے۔

 یہ انسان کی عزت نفس، خودداری اور اخلاقی اقدار کو نیلام کر دیتی ہے

۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں انسان اپنے بچوں کو بھی ایسے جھوٹے طریقے سکھانے پر مجبور ہے تاکہ وہ بھیک مانگ سکیں۔

اس تمام تر فساد کی ماں سرمایہ داری ہے، جس کا مقصد محنت کش طبقے کو پس پشت ڈال کر ایک چھوٹے سے طبقے کو فائدہ پہنچانا ہے۔

 اس لیے اگر گالی دینی ہے تو بھکاریوں کو نہ دو، اس سرمایہ دارانہ نظام کو دو جو اس سسٹم کا سہولت کار ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں حکمران طبقہ اور عام عوام کے درمیان فرق اتنا واضح ہے کہ یہ حکمران عالمی سامراجی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں، 

جو بھیک مانگ کر دولت جمع کرتے ہیں، جبکہ عام بھکاری عوام سے بھیک مانگتے ہیں۔

اس سماج میں یہ حکمران طبقہ بڑا مداری اور بڑا بھکاری ہے جو بھیک مانگنے کے لیے ملکوں، ریاستوں اور سماج کو تباہ کر دیتا ہے

۔ یہ اپنی انا کی تسکین کے لیے ہزاروں خاندانوں کو برباد کر دیتا ہے۔ ان حکمرانوں کا مقصد صرف اپنی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے لاکھوں انسانوں کو قربانی دینی پڑے۔

یاد رکھیں، یہ چھوٹے موٹے چور اور بھکاری اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، 

لیکن حکمران طبقہ لاکھوں خاندانوں کو تباہ کر کے اپنی دولت بڑھاتا ہے۔

لہذا ان حکمرانوں کو پہچانیں، ان کی حقیقت کو جانیں اور ان کے کرتوتوں کو سمجھیں

۔ ان کے طریقے لوٹنے اور بھیک مانگنے کے ہیں، اور یہ سب کچھ اس سرمایہ داری نظام کے تحت ہو رہا ہے

۔ جب تک یہ نظام موجود ہے، تب تک ان حکمرانوں کی لوٹ مار اور عوامی فلاح کے حوالے سے کوئی بہتری نہیں آئے گی۔

اگر ہمیں تبدیلی لانی ہے تو ہمیں اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی۔ 

محنت کش طبقے کو یکجا ہونا ہوگا، اور عوام کو اس نظام کے خلاف اٹھنا ہوگا

۔ نوجوانوں اور محنت کشوں کو اس بات کا ادراک حاصل کرنا ہوگا کہ یہ نظام تباہ کن ہے اور اس کے خلاف بغاوت ضروری ہے۔

نکیال سے لے کر دنیا بھر کے محنت کشوں کو یکجا ہو کر اس ظالمانہ نظام کو ختم کرنا ہوگا۔
دنیا بھر کے محنت کشوں ایک ہو جاو 
(ختم شد)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...