نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں طالب علموں کی آواز کو دبانے کی کوشش؟ مجںتی بانڈے کی گرفتاری اور حقوق پر اثرات. مجںتی بانڈے کو ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر کے جامعہ مظفرآباد میں امتحان دینے کے لیے لایا گیا۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی اور ان کے ساتھ ایک پولیس اہلکار زنجیر پکڑے کمرہ امتحان میں موجود تھا

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں طالب علموں کی آواز کو دبانے کی کوشش؟ مجںتی بانڈے کی گرفتاری اور حقوق پر اثرات تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، (نکیال کوٹلی، جموں کشمیر ) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہیں۔ اس خطے میں انسانی حقوق کا احترام تقریباً ختم ہو چکا ہے اور یہ واضح طور پر 5 فروری 2025 کو مظفرآباد میں دیکھنے کو ملا۔ اس دن، جموں کشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے مرکزی صدر اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن، مجںتی بانڈے کو ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر کے جامعہ مظفرآباد میں امتحان دینے کے لیے لایا گیا۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی اور ان کے ساتھ ایک پولیس اہلکار زنجیر پکڑے کمرہ امتحان میں موجود تھا۔ کمرہ امتحان کے باہر درجنوں پولیس اہلکار اور دیگر عناصر آتشیں اسلحہ سے مسلح کھڑے تھے۔ یہ منظر واضح طور پر بتاتا ہے کہ ریاست نے طلبہ کے حقوق کے خلاف جبر و تشدد کی انتہاء کر دی ہے۔ مجںتی بانڈے ایک ایسے طالب علم رہنما ہیں جنہیں ہزاروں طلبہ کے سامنے ایک دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس بے بنیاد گرفتاری اور جبر نے نہ صرف ان کی آزادی اور وقار کو پامال کیا بلکہ پورے طلبہ کے اندر خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔ یہ واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کس طرح طاقتور حکومتی مشینری اپنی مخالفت کرنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے انسانی حقوق کو نظرانداز کر دیتی ہے۔ یہ واقعہ صرف جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا غماز نہیں بلکہ عالمی سطح پر اس خطے کی صورت حال کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ جب کسی ملک یا خطے میں طلبہ کو اپنی آواز اٹھانے کی آزادی سے محروم کیا جاتا ہے اور انہیں جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو یہ عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی طور پر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دیگر عالمی ادارے ایسے واقعات پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری اس نوعیت کی خلاف ورزیوں کے خلاف مؤثر اقدامات کرے۔ جب کسی طالب علم کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا جائے، پھر اسے یونیورسٹی کے کمرہ امتحان میں لے جایا جائے جہاں پولیس اہلکار اس کے ساتھ اسلحہ سمیت موجود ہوں اور ایک اہلکار زنجیر پکڑے کمرہ امتحان میں اس کے ساتھ بیٹھا ہو، تو یہ واقعہ نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ عالمی سطح پر اس قسم کے عمل کے نتیجے میں تعلیمی نظام، عدلیہ، اور ریاستی استبداد پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قارئین! تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے اور اس کا تحفظ عالمی سطح پر متعدد قوانین اور معاہدوں میں کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی اعلامیہ برائے حقوق انسان (UDHR) کے آرٹیکل 26 میں کہا گیا ہے کہ ہر انسان کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے اور ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کی فراہمی میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا معاہدہ (ICESCR) بھی اسی تعلیم کے حق کی حفاظت کرتا ہے اور ریاستوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ طلبہ کی تعلیم میں رکاوٹوں کو ختم کریں اور اس کو فروغ دیں۔ عالمی سطح پر تعلیم کے ادارے محفوظ ہونے چاہییں تاکہ طلبہ اپنی تعلیم کو آزادانہ اور بغیر کسی خوف یا دباؤ کے جاری رکھ سکیں۔ کسی بھی طالب علم کو جبر، ہراسانی یا سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا، جیسے کہ اسے ہتھکڑیوں میں جکڑ کر امتحان دینے کے لیے لانا، عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس کی مثال اقوام متحدہ کے تعلیمی، ثقافتی اور سائنسی تنظیم (UNESCO) کے اقدامات میں بھی ملتی ہے، جو تعلیمی اداروں اور طلبہ کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ کسی قید طالب علم کا امتحان دینے کے دوران اس کے ساتھ جبر کا سلوک کرنا اور اس کے حقوق کی پامالی کرنا ایک واضح بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی معاہدے جیسے آرٹیکل 9 اور آرٹیکل 10 یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق (ECHR) کے تحت کسی بھی قید شخص کو انسانی سلوک کے ساتھ پیش آنا ضروری ہے اور اس کے حقوق کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی قانون کے تحت ریاستوں کو پولیس اور طاقت کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ پولیس اہلکاروں کا اسلحہ کے ساتھ طلبہ کے امتحانات میں حاضر ہونا اور اسلحہ کے ساتھ جبر کرنا عالمی انسانی حقوق کے معیارات سے متصادم ہے۔ قارئین کرام! ایسے واقعات طلبہ کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتے ہیں، جس اظہار گزشتہ روز طلبہ پر پولیس جبر کا واقعہ سامنے آیا اور پھر طلبہ کا مشتعل ہونا بھی اسی کا عکس ہے ۔جس سے تعلیمی ماحول متاثر ہوتا ہے۔ جب ایک طالب علم کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر اور پولیس کی نگرانی میں امتحان دینے کے لیے لایا جائے، تو نہ صرف اس کا خود اعتمادی متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے ہم جماعتوں اور دیگر طلبہ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ واقعہ تعلیمی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یونیورسٹی اور تعلیمی ادارے وہ مقامات ہونے چاہیے جہاں طلبہ آزادانہ طور پر خیالات کا تبادلہ کر سکیں، جہاں سیاسی یا ریاستی دباؤ نہ ہو، اور جہاں علم کی روشنی ہو۔ جب ریاستی جبر تعلیمی اداروں تک پہنچے، تو یہ نظام تعلیم کی آزادی اور غیر جانبداری کے خلاف ہے۔ اگر کوئی ریاستی جبر عدلیہ کے فیصلوں کو متاثر کرتا ہے یا عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے، تو اس کا اثر عدلیہ کی خود مختاری اور آزادانہ فیصلوں پر پڑتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات عدالتوں کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں اور شہریوں کا عدلیہ پر اعتماد کم ہو جاتا ہے۔ قارئین کرام! جموں کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ ابھی عالمی سطح پر ہونا باقی ہے اور اقوام متحدہ اس معاملے میں فیصلہ کرنے کی ذمہ داری رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلے پر متعدد بار توجہ دی ہے اور عالمی قوانین میں اس علاقے کے عوام کے حقوق کا تحفظ کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کے ذریعے جموں کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی ہوئی ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اس خطہ کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہیے ۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے واقعات نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی ہیں بلکہ یہ عالمی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہیں۔ جس سے او نام نہاد لولے لنگڑے بے اختیار و بے وقار خطہ کا منظر نامہ سامنے آتا ہے ۔ اس طرح کے جابرانہ اقدامات تعلیمی اداروں کی آزادی اور عدلیہ کی خود مختاری کو متاثر کرتے ہیں اور ان کے طویل مدتی اثرات معاشرتی اور تعلیمی ترقی پر پڑتے ہیں۔ اس واقعے پر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر عدلیہ نے بھی ایکشن لینا چاہیے ۔ بیرون ممالک میں موجود جموں کشمیر باشندگان کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اس خطہ میں انسانی حقوق کا احترام کیا جا سکے۔ قارئین کرام! اس کے علاؤہ اس واقعے نے مظفرآباد میں مجںتی بانڈے کی بے بنیاد گرفتاری اور اس کے امتحان کے دوران جبر نے جموں کشمیر میں طلبہ کے حقوق کی پامالی کو واضح کر دیا ہے۔ طلبہ کے حقوق کا تحفظ ہر جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے، اور ایسے جابرانہ اقدامات تعلیمی آزادی، انصاف اور انسانی وقار کی خلاف ورزی ہیں۔ عالمی برادری کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کی آزادی اور طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر طلبہ کے حقوق کو نظرانداز کیا گیا تو یہ پورے معاشرتی نظام کی جڑوں کو متاثر کرے گا اور ایک خوف کی فضا قائم ہو گی جو تعلیم کی ترقی اور معاشرتی انصاف کے لیے خطرہ بنے گی۔ طلبہ متحد ہوں اور اس نظام کو بدل ڈالیں ۔ اس حکمران طبقہ کا اس حشر بنگلہ دیش جیسا کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک اس خطہ میں طلبہ یونین بحال نہیں ہوتی ہیں تب تک طلبہ حقوق پامال ہوتے رہیں گے ۔ ختم شد ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...