نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ضمیر کا آئینہ: پوپ فرانسس کی سادہ موت اور اسلامی مذہبی رہنماؤں کی پرتعیش زندگیاں؟ پوپ 100 ڈالر اثاثہ چھوڑ کر فوت ہوئے

ضمیر کا آئینہ: پوپ فرانسس کی سادہ موت اور اسلامی مذہبی رہنماؤں کی پرتعیش زندگیاں؟ پوپ 100 ڈالر اثاثہ چھوڑ کر فوت ہوئے ۔ تحریر:- شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ، سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال کوٹلی جموں کشمیر چند روز قبل دنیا نے ایک ایسا واقعہ دیکھا جس نے انسانیت، سادگی اور روحانیت کی ایک خاموش مگر گونجتی ہوئی مثال پیش کی۔ مسیحی دنیا کا عظیم مذہبی پیشوا، پوپ فرانسس، اپنی زندگی کی آخری سانسیں لینے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوا—نہ کوئی بینک بیلنس، نہ جائیداد، نہ کوئی قیمتی گاڑی یا بنگلہ۔ صرف 100 ڈالر کے ساتھ اس کا اختتام ہوا۔ ان کی زندگی کا اثاثہ تھا: ایک کمبل، ایک میز، اور سادگی بھرا طرزِ زندگی۔ یہ خبر جب سننے کو ملی، تو ایک سوال ہمارے دلوں اور دماغوں کو چیرتا ہوا گزر گیا: کیا اسلامی ، مذہبی رہنما، بالخصوص اسلامی دنیا کے مبلغین و علما، بھی ایسی ہی سادگی اور قربانی کا نمونہ پیش کرتے ہیں؟ اسلام کا مزاج بھی یہی سادگی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سبق ہے کہ"میرے اور دنیا کی مثال ایسے مسافر کی ہے جو درخت کے سائے میں کچھ دیر کے لیے رکا ہو اور پھر آگے بڑھ جائے۔" خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور تابعین کی زندگیاں بھی فقر، سادگی، اخلاص اور تقویٰ سے لبریز تھیں۔ نہ مال و دولت کا لالچ، نہ پروٹوکول، نہ چمک دمک۔ مگر جب ہم آج کے دور میں اسلامی ،مذہبی رہنماؤں پر نظر ڈالتے ہیں، خاص طور پر پاکستان، ہندوستان، اور کشمیر جیسے علاقوں میں، تو وہ دین کی تبلیغ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنے کی دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل جیسی شخصیات، جن کے اثاثے اربوں روپے کے ہیں، ان کے بنگلے، مہنگی گاڑیاں، تجارتی برانڈز، سوشل میڈیا ٹیمز، اور عالمی سطح کے معیارِ زندگی کو دیکھ کر ایک سوال ابھرتا ہے: کیا یہ اسلام کی اصل روح ہے؟ پوپ فرانسس کی زندگی اور موت ایک آئینہ ہے—ایسا آئینہ جس میں ہم اسلامی ،مذہبی رہنماؤں کی حقیقت دیکھ سکتے ہیں۔ پوپ نے دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ روحانیت کو مقصد بنایا۔ ہمارے ہاں، بدقسمتی سے، دین کا لبادہ اوڑھ کر چندوں، عطیات، تحائف اور مذہب کے نام پر بے پناہ دولت اکٹھی کی جاتی ہے۔ یہ تقابل ہمیں نہ صرف شرمندہ کرتا ہے بلکہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ دین کے علمبردار کون ہیں؟ وہ جو دنیاوی عیش و عشرت کو ٹھوکر مار کر سادگی اپناتے ہیں؟ یا وہ جو مذہب کی منبر سے کاروبار چلاتے ہیں؟ پوپ کی وفات نے ہمیں وہ پیغام دے دیا ہے جو شاید ہزاروں وعظ بھی نہ دے پاتے—کہ دین کا اصل حسن سادگی، فقر، اور خالص نیت میں پوشیدہ ہے۔ اگر غیر مسلم رہبر یہ مثال قائم کر سکتا ہے، تو کیا مسلم ، جو سیرتِ نبویؐ کے پیروکار ہیں، یہ طرزِ حیات اپنا نہیں سکتے۔ ختم شد ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...