طلبہ ایکشن کمیٹی کی طلبہ یونین بحالی کی جدوجہد کو پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں قومی سوال پر قائم کرنے کی ضرورت ہے* ۔ تحریر:-
*طلبہ ایکشن کمیٹی کی طلبہ یونین بحالی کی جدوجہد کو پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں قومی سوال پر قائم کرنے کی ضرورت ہے* ۔
تحریر:- شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ، ہائی کورٹ ۔
ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جموں کشمیر ، نکیال ، کوٹلی
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر ایک نوآبادیاتی خطہ ہے، جہاں مقامی عوام کو اپنے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
یہاں کی ریاستی پالیسیوں اور حکومتی عمل کا اثر عوام کی زندگیوں پر بہت گہرا ہے اور اکثر یہ عمل بیرونی طاقتوں اور حکمرانوں کے مفادات کے مطابق ہوتا ہے۔
اس نظام میں طلبہ یونین کی بحالی اور طلبہ حقوق کی جدوجہد کی کامیابی تب ہی ممکن ہے جب اس کی بنیاد قومی سوال پر رکھی جائے،
کیونکہ یہ مسئلہ صرف تعلیمی یا مقامی حقوق تک محدود نہیں بلکہ اس خطے کے عوام کے آزاد اور خودمختار مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔
کیوں طلبہ یونین کی بحالی کو قومی سوال پر قائم کرنا ضروری ہے؟ اس پر بحث مباحثہ کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ طلبہ اپنے قومی سوال کو سمجھ سکیں۔ کیوں کہ وقتی سبسڈی ریلیف عارضی ہیں سب خوشیاں ، حقیقی نجات اصل مستقبل ہمارے قومی سوال سے مشروط ہے ۔ قومی آزادی کی ہمارے مسائل کا حل ہے ۔
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر ایک نوآبادیاتی خطہ ہونے کی وجہ سے اس کا معاشی، سیاسی اور ثقافتی استحصال ہو رہا ہے۔ یہاں کے عوام کو اپنے حقوق کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا، اور ان کی قسمت کا فیصلہ مرکزی پاکستانی مقرر طاقت کے ہاتھوں میں ہے
۔ طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد جب قومی سوال کے گرد مرکوز ہوگی
، تو یہ جدوجہد صرف تعلیمی حقوق کے مطالبات تک محدود نہیں رہے گی،
بلکہ یہ عوامی آزادی، خودمختاری اور قومی حقوق کے دفاع کی تحریک بن جائے گی
۔ اس طرح یہ تحریک ایک مضبوط قومی تحریک کے طور پر ابھرے گی جو خطے کے عوام کے حقوق کی جدوجہد کا حصہ بنے گی۔
بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک اور ان کی کامیابی نے اس سوال کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے ۔
جب تک قومی سوال کو حل نہیں کیا جاتا، محض تعلیمی حقوق یا طلبہ کے مسائل کی بات کرنا ایک محدود دائرے میں رہ جائے گا۔ جموں و کشمیر کے عوام کی قومی شناخت، خودمختاری اور حقِ خودارادیت کو تسلیم کیے بغیر، ان کے تعلیمی اور سماجی حقوق کا دفاع کرنے میں کمیٹی کو کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
اگر طلبہ یونین کی بحالی کو قومی سوال سے علیحدہ کیا جائے، تو اس سے صرف ایک طبقاتی جدوجہد پیدا ہوگی جو حکومتی طاقتوں کے سامنے زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکے گی۔
طلبہ یونین کی بحالی اور طلبہ ایکشن کمیٹی کا قیام نہ صرف تعلیمی اداروں میں ایک نئی زندگی دے گا بلکہ یہ قومی آزادی کی جدوجہد میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔
طلبہ کے پاس وہ طاقت اور جوش ہوتا ہے جو پورے سماج کو متحرک کر سکتا ہے۔ اس کمیٹی کو قومی سوال کے تحت منظم کیا جائے گا تو یہ ایک انقلابی تحریک بن سکتی ہے، جو صرف مقامی سطح پر طلبہ کے حقوق کا دفاع نہیں کرے گی بلکہ پورے خطے میں اس نظام کے خلاف ایک آواز بلند کرے گی۔
جموں و کشمیر کے قومی سوال میں کئی پیچیدہ عوامل ہیں جیسے خودمختاری، ثقافتی شناخت، اور سیاسی حیثیت۔ اس سوال کو حل کیے بغیر، یہ کمیٹی جو محض طلبہ کے حقوق پر زور دے گی، حکومتی سطح پر یا عوامی سطح پر اتنی طاقتور نہیں ہو پائے گی کہ اس کی آواز سنی جائے۔
جب طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کو قومی سوال سے جوڑا جائے گا تو یہ مسئلہ نہ صرف ریاستی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اجاگر ہو گا، اور اس کا اثر محض تعلیمی مسائل تک محدود نہیں رہ سکے گا۔
کیا جموں و کشمیر کے قومی سوال کے مغائر طلبہ حقوق کی بحالی کی جدوجہد ثمرات حاصل کر سکتی ہے؟
اگر طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کو قومی سوال سے علیحدہ کیا جائے، تو اس سے حاصل ہونے والے نتائج انتہائی محدود ہوں گے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ جدوجہد کی اثر پذیری کم ہو جائے گی بلکہ طلبہ کی سیاست کا مقصد بھی غیر واضح ہو جائے گا۔ ایک نوآبادیاتی خطہ ہونے کے ناطے، جموں و کشمیر میں حکومتی استحصال صرف تعلیم یا صحت تک محدود نہیں ہے؛ یہ ایک گہرا سیاسی، ثقافتی اور معاشی مسئلہ ہے۔ اگر طلبہ کی یونین کی بحالی کو ان مسائل سے الگ رکھا جائے تو اس جدوجہد کو وہ طاقت نہیں ملے گی جو قومی سطح پر درکار ہے۔
طلبہ یونین کی بحالی اور طلبہ حقوق کی جدوجہد کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ قومی آزادی، خودمختاری اور استحصال کے خاتمے کے مطالبے کے ساتھ جڑ کر ایک وسیع تر عوامی تحریک میں تبدیل ہو جائے۔ اس کے بغیر یہ جدوجہد صرف حکومتی پالیسیوں کی سطح تک محدود رہے گی، اور اس کے نتائج بہت سطحی ہوں گے۔
طلبہ ایکشن کمیٹی کو قومی سوال کے ساتھ کیوں جوڑنا چاہیے؟اس بارے دیکھنا سمجھنا ضروری ہے ۔
جب طلبہ ایکشن کمیٹی اپنے مطالبات کو قومی سوال کے ساتھ جوڑے گی، تو کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ (C.O.D) کو زیادہ پختہ اور جامع شکل ملے گی۔ اس میں نہ صرف تعلیمی، صحت اور معاشی حقوق کا تحفظ شامل ہو گا بلکہ اس میں قومی خودمختاری اور آزادی کا بھی مطالبہ کیا جائے گا۔ اس طرح یہ کمیٹی ایک مکمل تحریک بن جائے گی جو پورے خطے کے عوام کے حقوق کا دفاع کرے گی۔
جب کمیٹی اپنے کام کو قومی آزادی کے تناظر میں دیکھے گی، تو اس کا مقصد صرف تعلیمی اصلاحات یا حکومتی پالیسیوں کی تبدیلی تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ ایک انقلابی نظریہ بن جائے گا جو پورے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی نظام کو چیلنج کرے گا۔ اس طرح کمیٹی کے اقدامات کو نہ صرف طلبہ بلکہ عوام کے دیگر حصوں میں بھی پذیرائی ملے گی۔
اگر طلبہ یونین کی جدوجہد کو قومی سوال کے ساتھ جوڑا جائے گا، تو اس سے عالمی سطح پر بھی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر جانا پہچانا مسئلہ ہے، اور طلبہ ایکشن کمیٹی اگر قومی آزادی کے مطالبے کے ساتھ اس جدوجہد کو آگے بڑھائے گی تو یہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔باقی جڑت بھی بنے گی۔ بیس لاکھ بیرون ممالک میں ریاست کے باشندگان بھی کلیدی کردار ادا کریں گے۔
طلبہ ایکشن کمیٹی کی طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کو قومی سوال کے تناظر میں قائم کرنا ضروری ہے تاکہ یہ جدوجہد ایک حقیقت پسند اور جامع شکل اختیار کر سکے۔ اس کے بغیر، طلبہ کے حقوق کی دفاعی تحریک کو ریاستی استحصال اور طبقاتی فرق کے خلاف حقیقی کامیابی حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ یہ کمیٹی اگر قومی آزادی، خودمختاری اور استحصال کے خاتمے کی جدوجہد کے ساتھ جڑ کر چلائے گی تو یہ ایک مضبوط، انقلابی اور عوامی تحریک بنے گی جو پورے خطے کے عوام کے حقوق کی مضبوط آواز بن سکتی ہے۔جس طرح ہماری آزادی مظفرآباد کی آزادی سے مشروط ہے اسی طرح ہمارے حقوق کی ضمانت بھی ہمارا قومی سوال ہی ہے۔ لہذا کمیٹی کو قومی سوال کے گرد اپنی جدوجہد کو طلبہ سیاست کا مزکز بنانا چاہیے ۔
(ختم شد)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں