نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سیز فائر لائن پر سفید جھنڈے: یہ امن کی فریاد ہے، بغاوت نہیں!

سیز فائر لائن پر سفید جھنڈے: یہ امن کی فریاد ہے، بغاوت نہیں! تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ (سیز فائر لائن نکیال سے) کاش! سیز فائر لائن پر بندوقوں کی آواز کے بجائے سفید جھنڈوں کی پرامن گونج سنائی دے۔ کاش! جنگی جہازوں کے شور کی جگہ امن کی سانسیں چلیں۔ آزادی تک امن کا قیام ہمارا خواب ہے، جو ہم نے اجڑے ہوئے گھروں، جلی ہوئی بستیوں اور شہید بچوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر دیکھا تھا۔ ہم نے کئی بار اجڑ کر، بے شمار قربانیاں دے کر، سیز فائر لائن پر اپنے آشیانے پھر سے بسائے ہیں۔ کاش! ٹی وی چینلز پر خون آلود تجزیوں کے بجائے امن کے نغمے سنائی دیں۔ لیکن افسوس! آج ہر سمت آگ و خون، تعصب و نفرت، انتہا پسندی کا رقص جاری ہے۔ لگتا ہے جیسے انسانیت کے خلاف ایک نئی جنگ چھیڑ دی گئی ہو۔ ہر طرف میدان سجے ہیں، اور مینار ان لاشوں کے لیے تیار ہیں جو ہمیں جنگی جنون میں جھونک دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم امن کی بات اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ صرف جموں و کشمیر کے عوام ہی نہیں، بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی بقا، ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ یہ امن محض دو ملکوں کا معاملہ نہیں، یہ خطے کے اربوں انسانوں کا بنیادی سوال ہے۔ سیز فائر لائن وہ حساس لکیر ہے، جہاں سے چلنے والی ایک گولی پورے خطے کو بارود کے ڈھیر میں بدل سکتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے دی گئی دھمکی کہ پاکستان میں دہشتگردی کے مبینہ مراکز کو نشانہ بنایا جائے گا، سیز فائر لائن کے عوام کو مزید خوفزدہ کر چکی ہے۔ یہ وہی عوام ہیں جو برسوں سے حالت جنگ میں زندہ ہیں۔ وہ جو ہر جنگ کے اولین اور مہلک ترین شکار بنتے آئے ہیں۔ وہ جن کی زندگی اب بھی گولی، گولہ، اور غیر یقینی حالات کی تلوار تلے سانس لیتی ہے۔ امن کی وہ فضا جو حالیہ سالوں میں بحال ہوئی تھی، ایک بار پھر جنگی جارحیت کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ آج سیز فائر لائن کے عوام کے ہاتھ میں بندوق نہیں، سفید جھنڈے ہیں۔ 4 مئی کو نکیال میں زیرو پوائنٹ پر ہاتھوں میں سفید جھنڈے لیے سینکڑوں افراد کا پرامن مارچ کوئی روایتی سیاسی ریلی نہیں تھی، بلکہ یہ ضمیر کی بیداری کا ایک تاریخی لمحہ تھا۔ یہ مارچ جنگ کے خلاف، امن کے حق میں، اور مظلوم انسانوں کے حقِ زندگی کے لیے اجتماعی صدائے احتجاج تھی۔ جموں کشمیر نیپ اور این ایس ایف کی اس مہم نے پورے خطے کو پیغام دیا: ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم امن چاہتے ہیں۔ ہمیں نہ گولہ باری چاہیے، نہ لاشیں، نہ ویران بستیاں۔ ہمیں اپنی سرزمین پر امن، خوشی، اختیار اور عزت سے جینے کا حق چاہیے۔ مظاہرین نے واضح پیغام دیا: جب تک جموں کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حق خودارادیت نہیں ملتا، تب تک کم از کم سیز فائر لائن پر امن قائم رکھا جائے۔ ہم کسی ملک کی سلامتی کے دشمن نہیں، لیکن اپنی بقا کے حق سے دستبردار بھی نہیں ہو سکتے۔ یہ سفید جھنڈے خاموش فریاد بھی ہیں اور پرامن بغاوت بھی۔ یہ امن کی دستک ہیں، دلوں کی صدا ہیں، اور ضمیروں کے امتحان ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کا سب سے پہلا وار ہمیشہ سیز فائر لائن کے بے گناہ عوام پر ہوتا ہے۔ بچوں، خواتین، بزرگوں کی لاشیں، اجڑے گھر، ٹوٹے رشتے، جلتی فصلیں — یہ صرف خبریں نہیں، یہ ان انسانوں کا روزمرہ ہے جو ہر روز مرنے کے لیے زندہ ہوتے ہیں۔ حال ہی میں وادی کشمیر میں سانحہ پہلگام نے ایک اور زخم دیا۔ وہ زخم صرف پہلگام کا نہیں تھا، وہ پوری ریاست جموں کشمیر کے دل پر لگا۔ اور یہی حال سیز فائر لائن کا ہے، جہاں ایک گولہ کئی نسلوں کو برباد کر سکتا ہے۔ گولیاں بندوق سے چلتی ہیں، لیکن زخمی ہمارے دل ہوتے ہیں۔ ہم ہندوستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشتگردوں کے نام پر سیز فائر لائن کے عام شہریوں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ گولی کے بجائے بولی سے بات ہو سکتی ہے ۔ عوام نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر گولہ باری نہ رکی تو نہ صرف مزید سفید جھنڈے بلند ہوں گے بلکہ عالمی سطح پر بھی احتجاج کیا جائے گا۔ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک مربوط عوامی لائحہ عمل ہے۔ امن و دفاعی کمیٹی کا قیام، چارٹر آف ڈیمانڈ، اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی دھرنوں کا اعلان — یہ سب ثبوت ہیں کہ سیز فائر لائن کے عوام جاگ چکے ہیں۔ ہم دونوں ممالک سے کہتے ہیں: خدارا! سیز فائر لائن کے عوام کو جنگی تجربات کی لیبارٹری نہ بنائیں۔ ہم انسان ہیں، کوئی جانور نہیں۔ ہمیں امن چاہیے، حق چاہیے، عزت چاہیے — زندگی کا حق چاہیے۔ یہ سفید جھنڈے صرف امن کے نشان نہیں، یہ انسانی بقا کی آخری فریاد ہیں۔یہ جنوبی ایشیا کے امن کے ضامن ہیں ۔ ہر گھر پر یہ لہراؤ ۔ کیا عالمی ضمیر ان کی صدا سنے گا؟ ( ختم شد)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟*

*یہ شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں ہیں! انسپکٹر نوید چودھری اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون؟* تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ (ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی) سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال گزشتہ شب راولاکوٹ کے قریب کھائی گلہ کے مقام پر پولیس آفیسران کی ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں پانچ افسران شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں انسپکٹر نوید احمد چودھری کا نام خاص طور پر دل کو چیرتا ہے، جن کا تعلق تحصیل کھوئی رٹہ سے تھا۔ وہ حال ہی میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے۔ آج نہ صرف کھوئی رٹہ، بلکہ نکیال سمیت پورے خطے پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔وہ نکیال میں دیانت داری ، فرض شناسی کی مثال قائم کر چکے تھے ۔ قارئین کرام! یہ حادثہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام پر ایک فردِ جرم ہے! یہ سڑکیں شاہراہیں نہیں، مقتل گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ موڑ اندھے نہیں، یہ نظام اندھا ہے۔۔۔نہ سیفٹی وال، نہ شفاف شیشے، نہ حفاظتی اصول۔ ہر طرف موت کا کنواں ہے۔یہ "حادثے" نہیں، دراصل قتل ہیں اور ان کے قاتل موجودہ و سابقہ حکمران، محکمہ شاہرات، کرپٹ ٹھیکیدار اور بدعنوان سسٹم ہیں۔ انسپ...