جشن نہیں، زخموں پر نمک!
تحریر: عبدالمعیز عالم چوہدری
ممب طلبہ ایکشن کمیٹی جموں کشمیر
نام نہاد آزاد جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں حالیہ دنوں جو "فتح کا جشن" منایا گیا، وہ درحقیقت ایک ایسی حقیقت کو چھپانے کی کوشش ہے جسے کشمیری عوام کی آنکھوں سے اوجھل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ جشن آخر کس بات کا ہے؟
کیا کشمیریوں نے آزادی حاصل کر لی؟ کیا کوئی قومی مقصد حاصل ہوا؟ کیا کشمیر کی وحدت مکمل ہو گئی؟ ہرگز نہیں! یہ جنگ تھی ہی نہیں کشمیریوں کی۔ یہ جنگ تو دو ریاستوں، بھارت اور پاکستان، کے درمیان تھی، لیکن قربانی دی گئی ہمیشہ کشمیریوں کی—اس پار بھی، اور اُس پار بھی۔
گولہ باری کا آغاز ہوا، تو بے شمار کشمیریوں کی جان و مال کے نقصان سے دوچار ہوئے۔ کئی لوگوں کی پوری زندگی کی کمائی ایک چھت کی صورت میں ملبے تلے دفن ہو گئی۔ معصوم بچے، بزرگ، خواتین—سب خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن یہاں جشن منایا گیا۔
یہ جشن منانے والے کون تھے؟ وہی جو ہر بحران کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع سمجھتے ہیں۔ نااہل وزیر، مشیر، کرپٹ وزراء، سیاسی چمچے، اور مذہبی انتہا پسند عناصر، سیایسی نام نہاد لیڈر جو صرف فوٹو سیشن کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ ان کا اصل مقصد عوام کی خدمت نہیں بلکہ اپنی موجودگی کو سوشل میڈیا کی زینت بنانا ہے۔
ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ گولہ باری سے پہلے کچھ لوگ بڑے دعوے کر رہے تھے کہ ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس، دوائیں، اور دیگر سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ لیکن جیسے ہی حقیقی ایمرجنسی کا سامنا ہوا، وہ سب غائب ہو گئے۔ مقامی ڈاکٹرز نے جن نمبروں پر ایمرجنسی میں رابطے کی درخواست کی تھی، وہ سب بند نکلے۔ وہ سب جھوٹے دعوے محض مشہوری اور فوٹو سیشن کے لیے تھے۔ عوام کی جانیں ان کے لیے صرف وقتی نعرے بازی کا ذریعہ تھیں۔
یہ دوغلا پن کہاں تک چلے گا؟
اگر مقبوضہ کشمیر کے لوگ اسی طرح جشن مناتے اور اپنی فوجوں کے نعرے لگاتے ، تو انہیں غدار کہا جاتا ہے۔ لیکن جب یہاں فتح کے نعرے لگتے ہیں، تو وہ حب الوطنی کی مثال بنا دیے جاتے ہیں۔
یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ کیسی سوچ ہے کہ اپنے گھر آگ لگے تو آزمائش، دوسرے کے گھر لگے تو عذاب؟
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ "جشن" دراصل ہماری بے حسی، تقسیم، اور غلامانہ ذہنیت کا آئینہ ہے۔ کشمیری آج بھی دو ریاستوں کے درمیان سیاسی و عسکری کشمکش کا ایندھن بنے ہوئے ہیں، اور اصل نقصان ہر بار عام کشمیری کا ہی ہوتا ہے۔
اگر یہ لوگ واقعی خیر خواہ ہوتے، تو شہداء کے گھروں جا کر قرآن خوانی کرتے، ان کے لواحقین سے تعزیت کرتے، متاثرہ علاقوں میں ریلیف مہیا کرتے، اور زخمیوں کے علاج کا بندوبست کرتے۔ لیکن یہاں ترجیح فوٹو سیشن، سوشل میڈیا پوسٹس، اور وقتی شہرت ہے۔
آخر میں بس اتنا کہوں گا:
یہ جشن نہیں، زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے
خدارا ہوش کیجیے، اور پہلے اپنے گریبان میں جھانکیے کشمیریوں کی لاشوں پر سیاست بند کیجیے۔ خوشیاں بانٹنے سے پہلے زخموں پر مرہم رکھیے، کیونکہ اصل فتح تب ہو گی، جب کشمیری اپنی تقدیر کے فیصلے خود کریں گے
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں