کامریڈ ساجد صادق شہید خوابوں کا مجسمہ، جدوجہد کا استعارہ
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ نکیال، کوٹلی (جموں کشمیر)
17 مئی..... تاریخ کا وہ دن جب اس خطۂ بد نصیب جموں و کشمیر نے ایک سچے انقلابی، ایک سچے سپوت، اور عوامی شعور کے علمبردار کامریڈ ساجد صادق کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ آج ان کی تیسری برسی ہے
، مگر دل ماننے کو تیار نہیں کہ ساجد صادق اب ہمارے درمیان نہیں۔
کیونکہ ایسے لوگ صرف جسمانی طور پر رخصت ہوتے ہیں، ان کی سوچ، ان کا خواب، ان کی للکار اور ان کی تحریک ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
کامریڈ ساجد صادق کوئی روایتی سیاستدان نہ تھے۔ وہ شعلہ نوا مقرر، زرخیز ذہن، نظریاتی دانشور، اور عوامی سیاست کے سچے علمبردار تھے۔
انہوں نے زمانہ طالبعلمی میں جموں کشمیر کی مکمل آزادی، وحدت کی بحالی اور سوشلسٹ سماج کے قیام کو اپنا مشن بنایا
، اور اسی نظریے پر ناقابلِ مصالحت جدوجہد کا آغاز کیا۔
ساجد صادق نے نہ صرف قومی سوال کو اٹھایا بلکہ طبقاتی شعور کو بھی بیدار کیا
۔ عوامی حقوق، نوجوانوں کے مسائل، خستہ حال سڑکیں، حادثات، تعلیم، صحت، روزگار ہر ایشو کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنایا
۔ ان کا ایک ایک لفظ، ایک ایک قدم اس خطے کے مجبور و محکوم عوام کے لیے تھا
۔ انہوں نے نہ صرف سوچا، بلکہ عمل کر کے دکھایا۔ وہ عوامی جدوجہد کو نعرہ نہیں، فریضہ سمجھتے تھے۔
یہ اتفاق نہیں کہ آج جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جس تسلسل سے عوامی حقوق کی بازیابی کے لیے سرگرم ہے
، اس کی نظریاتی بنیادیں ساجد صادق نے رکھی تھیں۔
انہوں نے وہ دن بھی دیکھے جب عوامی سیاست کو جرم سمجھا جاتا تھا،
مگر وہ ڈٹے رہے، تن تنہا، نڈر، باہمت۔
وہ عوام کے لیے جیتے تھے، اور عوام ہی کے لیے قربان ہو گئے۔
بدقسمتی سے وہی خستہ حال سڑکیں، جن کے خلاف انہوں نے مہم چلائی، انہی کی زندگی کا آخری منظر بن گئیں
۔ ایک حادثہ... ایک خاموش سانحہ... مگر حقیقت میں یہ ایک سیاسی قتل کے مترادف ہے
، کیونکہ ریاستی غفلت اور حکومتی بے حسی نے یہ حادثہ ممکن بنایا۔
کامریڈ ساجد صادق نے انتخابی سیاست میں بھی حصہ لیا، اور سازشوں، وسائل کی قلت، اور ریاستی رکاوٹوں کے باوجود لوگوں کے دلوں کو جیتا
۔ ان کی الیکشن مہم عوامی شعور کی مہم بن چکی تھی۔
وہ اپنی سوچ کو ووٹ میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تبدیلی صرف نعروں سے نہیں، عوامی تنظیم کاری ، عوامی ایکتا ، عوامی راج سے آئے گی۔
آج جب خطے میں جنگی جنون، خونریزی، اور سامراجی سازشیں عروج پر ہیں
، کامریڈ ساجد صادق کی برسی صرف ایک رسمی تقریب نہیں
، بلکہ ایک عوامی حلف کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس دھرتی کے بیٹے نے اپنے لہو سے امید کا چراغ روشن کیا، اور ہم پر فرض ہے کہ ہم اس چراغ کو بجھنے نہ دیں۔
یہ برسی ایک جلسہ نہیں، ایک نظریاتی مورچہ، ہے۔
یہ وہ دن ہے جب ہم کامریڈ کے خوابوں کو نئی توانائی دیتے ہیں
۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہم اپنے آپ سے عہد کرتے ہیں کہ ہم ان کے مشن کو جاری رکھیں گے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
کامریڈ ساجد صادق زندہ ہیں!
وہ ہر اُس آواز میں زندہ ہیں جو ظلم کے خلاف اٹھتی ہے۔
وہ ہر اُس قدم میں زندہ ہیں جو آزادی، وحدت، اور سوشلسٹ سماج کی جانب بڑھتا ہے۔
ہم اُن کی جدوجہد کو ادھورا نہیں چھوڑیں
گے۔
ہم ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر بنائیں گے۔
ہم سیسہ پلائی دیوار
بن کر ان سامراجی قوتوں کا راستہ روکیں
گے۔
ہم ساجد بن کر جئیں گے،
اور ساجد بن کر مریں گے۔
یہی ہمارا وعدہ ہے
، یہی ہمارا عہد ہے
۔ ( ختم شد )
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں