ممبر و محراب سے کس بات کا جشن؟ سیز فائر لائن پر قتل – علماء کے لیے دعوتِ فکر
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال کوٹلی
ممبر و محراب سے سچ بھی بولا جا سکتا ہے۔ خدا کے گھر میں بیٹھ کر، خدا کی مخلوق کے لیے امن و آشتی کی بات کرنا، انسانیت کا اصل درس دینا، وہی اصل دین داری ہے۔ مگر افسوس! جب محراب و منبر جنگی جنون کا آلہ کار بن جائیں، جب جمعہ کے خطبے امن کے بجائے ہلاکتوں کو "جیت" کا جامہ پہنانے لگیں، تو سمجھ لیجیے کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد قرار پایا ہے، لیکن جب قوم غلام ہو، ریاست منقسم ہو، سیز فائر لائن کے آر پار گولہ باری سے معصوم لاشے گر رہے ہوں، اور علماء محراب سے خوشی کے شادیانے بجا رہے ہوں، تو سوال اٹھتا ہے: کیا ہم واقعی دین کے وارثین کے روپ میں بولنے والوں کو پہچان رہے ہیں؟
جب نکیال میں دو معصوم بچوں کی لاشیں بھارتی گولہ باری کی نذر ہوں، اور اسی دن پونچھ (بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر) میں دو بہن بھائی پاکستانی گولہ باری سے شہید ہو جائیں، تو یہ کس کی جیت ہے؟ مسجدوں کے میناروں سے یہ اعلان کرنا کہ ہم نے فتح حاصل کر لی، درحقیقت اپنی ہی لاشوں پر رقص کرنے جیسا ہے۔ یہ "جیت" ہمارے بچوں کے خون سے لکھی گئی شکست ہے۔
علماء کے لیے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ انہوں نے اس دو طرفہ خون ریزی پر کلمۂ حق کہنے کی بجائے، گولہ باری کو جہاد، جنگی جنون کو دینی تقاضا، اور سیز فائر لائن پر ہونے والے مظالم کو "فتح" قرار دے دیا۔ نماز جمعہ کے بعد خوشی کے جلوس، فتح کے نعرے، اور مزید حملوں کی خواہش – یہ سب کس کے حق میں جا رہا ہے؟ نہ اللہ کی رضا، نہ مظلوموں کا سہارا – صرف طاقتوروں کی خوشنودی۔
سیز فائر لائن کو مذہب کے نام پر جنگی اکھاڑا بنایا گیا۔ بھارت نے اسے ہندوتوا کی لڑائی قرار دیا، پاکستان نے اسے "غزوۂ ہند" کے مفروضے سے جوڑ دیا۔ مگر جب امریکہ کے ایک ٹوئٹ پر سیز فائر کا اعلان ہوا، تو دونوں طرف کے دعوے اور نعرے، مصلحت کی زمین میں دفن ہو گئے۔ امریکہ خوش، اسرائیل مطمئن، چین پرسکون – اور ہماری ریاست؟ ہماری ریاست جموں و کشمیر پھر سے خاک و خون میں نہا گئی۔
یہ پراکسی وار نہیں تو اور کیا ہے؟ جب اسرائیل بھارت کے کاندھوں پر، چین پاکستان کے کندھوں پر، اور امریکہ ان سب کے سروں پر کھڑا ہو کر جموں کشمیر کو تختۂ مشق بنائے، تو کیا ہمیں اب بھی جشن منانا ہے؟ کیا ہمیں یہ سمجھنے میں تاخیر ہو رہی ہے کہ ہم صرف ایک کھیل کے مہرے ہیں؟
سیز فائر لائن کے آر پار جیت کسی کی بھی ہو، ہار صرف جموں کشمیر کے عوام کی ہے۔ ہمارے گھر اجڑے، ہمارے گاؤں ویران ہوئے، جنازے ہم نے اٹھائے، معذور ہم ہوئے۔ آپ اپنی فتح کے جشن منائیے، محفلیں سجائیے، مٹھائیاں بانٹیے، لیکن جان لیجیے کہ ہم ہار چکے ہیں۔
ہمیں امن چاہیے، ہمیں جینے کا حق چاہیے، ہمیں اپنا پیدائشی، بنیادی، مکمل حقِ آزادی چاہیے۔ یہ جنگ، یہ مذہبی لبادے، یہ سامراجی سازشیں – سب آپ اپنی زمین پر لڑیں، ہم نہیں چاہتے کہ ہماری سرزمین مزید لہو رنگ ہو۔
علماء کو اس منافقت کا جواب دینا ہو گا۔ مسجد کے منبر سے سچ بولا جانا چاہیے – وہی سچ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، وہی منبر جس پر بیٹھ کر حق کی گواہی دی جاتی ہے۔ میر واعظ کشمیر کا سابق کردار اگرچہ مشکوک ، متنازعہ رہا لیکن موجودہ صورتحال میں وہ حالات سے یقینا سیکھ چکے اور اس وقت ان کا جمعہ کا خطاب جموں کشمیر کے علماء کی طرف سے مسجد منبر سے ایک جاندرا موقف قرار دیا جا رہا ہے ۔ سب اس کی تعریف کر رہے ہیں ۔ مظلوموں کی دعائیں جا رہی ہیں ۔یہ ایک مثال ہمارے سامنے ہے، جنہوں نے سچ بولا، مظلوموں کی آواز بنے، اور حق پر ڈٹے۔
جموں و کشمیر کی غلامی کے دوام میں، استحصال اور قبضے کے تسلسل میں، اکثریتی مذہبی طبقات، جماعتوں اور پیشواؤں کا کردار مجرمانہ رہا ہے۔ ان کے دوہرے معیار، منافقت اور حکمرانوں کی خوشنودی کی روش نے قوم کو اندھیرے میں رکھا۔
علماء کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، توبہ کرنی ہوگی، اور سچ کی گواہی دینا ہوگی۔ اگر وہ جموں کشمیر میں رہتے ہیں، تو انہیں خود کو ریاست کا باشندہ سمجھنا ہوگا، وطن سے محبت کرنا ہوگی، اور ظالموں کے نہیں، مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے کہ علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے۔ جب اتنی بڑی نسبت موجود ہو، تو اس کے برعکس کردار پر خاموشی ممکن نہیں۔ ہم سچ لکھتے رہیں گے، فتویٰ لگیں یا فتوے دینے والے حملہ آور ہوں – لیکن ہم نہ جھکیں گے، نہ رکیں گے۔ ہم صدائے حق بلند کرتے رہیں گے۔
کیونکہ سیز فائر لائن کے دونوں جانب مارے جانے والے عوام کی لاشیں، صرف حکمرانوں کے نہیں، ان علماء کے ضمیر پر بھی دستک دیتی ہیں، جنہوں نے محراب و منبر کو خاموشی کی چادر میں لپیٹ دیا۔ اب وقت ہے کہ ضمیر جاگے، زبانیں بولیں، اور سچ گونجے – خدا کے گھر سے۔
(ختم شد )
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں