نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بجلی مانگتے ہو ؟ کچھ شرم کرو، کچھ حکمرانوں کا خیال کرو۔۔ بس قائد سلامت رہیں ۔۔۔ عزت قائم رہے۔۔۔ بجلی کی خیر ہے۔۔

بجلی مانگتے ہو؟ کچھ شرم کرو، کچھ حکمرانوں کا خیال کرو۔ بس قائد سلامت رہیں ۔۔۔ عزت قائم رہے۔۔۔۔۔۔ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال(ممبر: جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال، کوٹلی) قارئین کرام! سوشل میڈیا پر ایک نئی سازش چل رہی ہے ۔ کچھ ناعاقبت اندیش، کچھ مغرب زدہ،کخھ وطن دوست، کچھ حقوق کے علمبردار ، کچھ کمیٹی کے لوگ ، شاید دشمن کے ایجنڈے پر پلنے والے لوگ چیخ رہے ہیں کہ بجلی دو! لوڈشیڈنگ ختم کرو! گرمی ہے، پنکھا نہیں چلتا! کاروبار بند ہو گئے ہیں! ولٹیج اتنا کم ہے کہ پنکھا بھی گھبرا کر رک گیا ہے! یہ لوگ وہی ہیں جو شاید اگلے مرحلے پر آ کر یہ بھی کہیں گے کہ پانی چاہیے!، سڑک ہونی چاہیے!"، "ہسپتال، سکول، روزگار بھی ضروری ہیں! وسائل پر اختیار چاہیے ۔ لاحول ولاقوۃ! ایسے لوگوں سے تو قوم، ملک، ریاست، حکومت، اور حکمران سب کو خطرہ ہے۔ ارے بھائیو، کچھ شرم کرو، کچھ حکمرانوں کا خیال کرو! کیا تم بھول گئے ہو کہ قربانی ہی ہماری پہچان ہے، میراث ہے؟ ہم وہ عظیم قوم ہیں ، جنہوں نے دریا دیے، زمینیں دی، بجلی دی، ملک بھی دیا ، وسائل دئیے، ڈیم دئیے ۔۔۔۔۔ اور بدلے میں اندھیرے قبول کیے، مایوسی لی، بےروزگاری، جہالت ، بھوک ننگ ملی ، مگر شکوہ نہ کیا۔۔۔۔۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے اصل فرض کیا ہیں۔ ۔۔۔ہر بل وقت پر دینا۔۔۔۔۔قطار میں لگ کر دینا۔۔۔۔۔۔گالیاں بھی کھانی ہیں، بل بھی دینا ہے بجلی نہ ہو، پانی نہ ہو، نوکری نہ ہو۔۔۔ مگر زبان بند رکھنی ہے! اب ہمیں قربانی کا مطلب سمجھنا ہو گا کہ پنکھا مت لگاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فریج مت رکھو۔۔۔۔ استری مت کرو۔۔۔۔موٹریں مت چلاؤ۔۔۔ ۔۔بلب بند کرو۔۔۔۔۔موبائل چارج کرنا چھوڑ دو اور مچھر؟ وہ ہاتھ سے مارو۔ بلکہ ہمارے ایک سابقہ آمر حکمران نے کہاتھا کہ ٹماٹر چینی مہنگی ہو گی تو کھاتے کیوں ہو۔۔ ۔ بچے مر جائیں تو کیا ہے۔۔۔۔ اور بچے پیدا کر لیجیے نا ۔۔۔۔ کیونکہ اگر آپ نے یہ سب استعمال کیا تو قوم کے مفاد میں نقصان ہے۔۔ ۔ اور سب سے بڑھ کر حکمران پریشان ہو جائیں گے! ۔۔۔۔ احترامِ حکمران ہی ہمارا طرہ امتیاز ہے ۔۔ یاد رکھو، حکمران اگر خوش ہیں تو اللہ بھی خوش ہے۔ یہی ہماری عبادت ہے، یہی ہمارا جہاد ہے۔۔۔۔ حکمران کی نظام کی اطاعت کرنی چاہیے ۔۔۔ بس یاد رکھو کہ...... ان کے لیے بجلی ہونی چاہیے ان کے اے سی، ان کی فریج، ان کے ہیٹر، ان کے گیزر۔۔۔ سب چلنے چاہئیں۔۔۔۔۔۔ان کے محلات روشن ہوں ۔۔۔۔۔ان کی کاروں کے اے سی ٹھنڈے ہوں ۔۔۔۔۔کیونکہ اگر وہ خوش رہیں گے، تو ہمیں کم از کم "صبر" کرنے کا سبق تو دیتے رہیں گے۔ سوشل میڈیا پر بات کرنا؟ سوال اٹھانا؟ احتجاج؟ استغفراللہ! یہ شیوہ ہے ان بدتمیزوں کا، جو جموں کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں ، جو قوم کی یکجہتی کی بات کرتے ہیں ۔ جو حقوق کی بحالی و بازیابی کی بات کرتے ہیں ۔۔۔ جو کہتے ہیں کہ ہم بھی انسان ہیں، ہمیں بھی بجلی، پانی، عزت چاہیے۔ ہمارے بزرگوں، خاندان ، قبیلہ ، پارٹی ، علاقہ والوں نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ: جو بھی مسئلہ ہو، بس نوافل پڑھو۔۔۔ شکر ادا کرو ۔ ۔ حکمرانوں کو برا بھلا نہیں کہنا۔۔۔ کچھ نہ لکھنا ۔۔۔ نہ وزیر مشیر ، سربراہ کے خلاف ۔۔۔ زبان کو گنگ لگ جائے ۔۔۔ زبان سی کو۔۔۔۔ کان بند کر دو ۔۔ زبان اندر ڈال دو۔۔ دعا کرو۔۔۔ صبر کرو۔۔۔ علماء بھی یہی تو درس دیتے ہیں ۔۔۔ منبر مسجد محراب سے تو یہی تلقین ہوتی ہے ۔۔ انہی حکمران طبقہ کے لیے تو ہم سبھی ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔ اور حکمرانوں کو دعائیں دو چاہے وہ آپ کو "بل، ٹیکس، چوری، لوٹ کھسوٹ، قتل عام، جبر و استحصال، رشوت ، سفارش، دھندلی" کے ذریعے ہی کیوں نہ یاد رکھتے ہوں یاد رکھو! اگر تم نے سوال کیا، تو تم گستاخ ہو! بدتمیز ہو۔۔جاہل ہو۔۔۔ متعصب ہو۔۔ ۔ غدار ہو ۔۔ ایجنٹ ہو۔۔۔۔ کسی کے ایجنڈے پر کام کرنے والے ہو۔۔۔ اگر تم نے احتجاج کیا، تو تم بدتمیز ہو! اگر تم نے بجلی مانگی، تو تم مودی کے ایجنٹ ہو! اور اگر تم نے کہا کہ "یہ ہمارا حق ہے!" تو تم یقیناً کسی سازش کا حصہ ہو! کوئی تمہارے پچھے ہے ۔نیت ٹھیک نہیں ہے میری قوم کے نوجوانو، ہوش کرو! ٹک ٹاک بناؤ۔ ریل بناؤ ۔ سلفی بناؤ ۔۔۔ ان ک گوبر کو حلوہ بناو۔۔۔۔۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں، پوری قوم اس وقت اندھیرے میں ہے۔ کیا ہوا اگر بچے تڑپ رہے ہیں، بیمار پسینے میں بے ہوش ہو رہے ہیں، مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں؟ پانی نہیں ہے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ "سیاسی جلسے کی روشنی میں کوئی کمی نہ ہو!" سٹیج ، پنڈال سجا ہے۔ گدھوں کی طرح ان کو اٹھانے کے لیے کندھے موجود ہیں ۔۔ تالیاں بج رہی ہیں۔ ۔۔ کھمبا ٹوٹی نلکا مل رہا ہے ۔۔۔ برادی پارٹی قوم قبیلہ علاقہ کی پگڑی اونچی ہے نا بھائی ۔۔ ایک سنہری امید رکھو۔۔ امید رکھو ۔ بس چھ سات ماہ بعد الیکشن آنے والے ہیں ۔ ۔۔ چند ماہ بعد الیکشن مہم شروع ہو جایے گی ۔۔۔ پھر سب ٹھیک ہو جایے گا ۔۔۔ دیکھا نہیں ۔۔۔ کتنے سالوں ، نسلوں سے ووٹ دے رہے ہو۔۔۔ بس تین چار مہینے کی گرمی کی بات ہے۔ پھر سردی آئے گی۔۔۔ اور اگر سردی میں بھی بجلی نہ ملی، تو فکر مت کرو۔۔۔۔ اس وقت تم راڈ، ہیٹر چولہے نہ جلانا۔۔۔ گیس کا استعمال کر لینا بھائی۔۔۔ چلو کوئی بات نہیں ہے صاحب ۔۔۔۔ !!!!۔۔۔ ۔ پھر بہار آئے گی۔۔۔ پھول کھلیں گے۔۔۔ خوشبو پھیلے گی۔۔۔ اور ہم سب خوشی سے جلیں گے – بغیر بجلی کے! میری قوم کے نوجوانو! وعدہ کرو۔۔۔۔ ہم سب کچھ برداشت کریں گے۔۔۔۔بچوں کو مچھر کھائیں، کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔۔ لیکن ہم خاموش رہیں گے ہم بجلی کے بغیر جئیں گے لیکن لیڈروں کی ناک پر بل نہ چڑھے۔۔۔ لعنت ہو ہماری زندگی پر اگر ہم ایک لفظ بھی بولیں یا لکھیں ۔۔۔ ان کے اے سی بند نہ ہوں ۔۔۔۔۔ ان کی گاڑیوں کے شیشے نہ نیچے ہوں۔۔۔ بس میرے نوجوانو۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے لیڈروں سے وفاداری کا ثبوت دو۔۔۔۔ ہر جلسے میں شرکت کرو پھول ہار لاؤ۔۔۔۔ سیلفی بناؤ۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر۔۔۔ "کار کی سٹپنی بنے رہو!" جدھر جدھر سرکار ۔۔۔۔ صاحب ۔۔۔۔ کی نیلی پتی لائٹ ۔۔۔بتی والی گاڑی گھومتی ہے ۔۔۔ مکھیوں کی طرح چمٹ جاؤ ۔۔۔۔ کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں۔۔۔ اندھیرے میں بھی زندہ ہیں گرمی میں بھی خاموش ہیں اور حکمرانوں کے لیے ہر وقت قربانی دینے کو تیار ہیں!۔۔ ۔۔ بلکل عہد کرو ۔۔۔ اس بار عید پر جانوروں کی نہیں اپنی خواہشات ، ضروریات ، سہولیات کی قربانی ان کے لئے دیں گے۔۔۔۔۔ بجلی؟ بجلی کی ہمیں کیا ضرورت! جب ایمان ہو، عقیدہ ہو،جماعت ہو، خاندان، قبیلہ ، علاقہ، پگڑی ، پچھوڑا ، کمر۔۔۔۔ سر۔۔۔۔ عزت ۔۔۔۔ ہو تو اور آپ کو کیا چاہیے ۔۔۔۔۔ بس حکمران سلامت ہوں!۔۔۔۔۔۔ ( ختم شد)

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...