نکیال: بجلی کی لٹکتی تاروں سے گرتی نعشیں؟ خاتون کے قتل کا ذمہ دار کون؟
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ
ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی، سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال
نکیال، نرگل بانڈی کے مقام پر 27 مئی کی صبح ایک المناک سانحہ پیش آیا۔ قانون دان، ممبر بار ایسوسی ایشن نکیال، فاروق احمد چودھری ایڈووکیٹ کی ساس محترمہ اس وقت بجلی کی ہیوی لائن سے جاں بحق ہو گئیں جب وہ اپنے گھر کی چھت پر تھیں اور ان کی چھت کے بالکل اوپر سے گزرنے والی خطرناک بجلی کی تاروں سے ان کا ہاتھ جا لگا۔ موقع پر ہی وہ زندگی کی بازی ہار گئیں۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ نکیال میں بجلی کی لٹکتی تاروں سے حادثات اور اموات کا یہ سلسلہ برسوں پر محیط ہے۔ گزشتہ برس ڈبسی کے مقام پر ایک شخص انہی وجوہات کی بنا پر زندگی سے محروم ہوا۔ اس پر عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں کشمیر نیپ نے شدید احتجاج کیا، جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور متاثرہ مقامات کی نشاندہی کی جن میں ڈبسی، جندروٹ اور دھیری شامل تھے۔
ہم نے متعلقہ حکام، بشمول محکمہ برقیات اور واپڈا کو تحریری شکایات اور ثبوتوں کے ساتھ بارہا آگاہ کیا۔ اسسٹنٹ کمشنر نکیال نے بھی اندرون سات دن رپورٹ طلب کی۔ انتظامیہ، وزیر اعظم، حلقہ کے وزیر، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، حتیٰ کہ پاکستانی وفاق تک اس مسئلے کی نشاندہی کی گئی، مگر نتیجہ ہمیشہ کی طرح خاموشی رہا۔
مرحومہ کے اہل خانہ نے واضح کیا کہ وہ بارہا زبانی اور تحریری طور پر محکمہ برقیات کو آگاہ کر چکے تھے کہ ان کے مکان کے اوپر سے گزرنے والی بجلی کی تاریں خطرناک ہیں، لیکن متعلقہ حکام نے مکمل بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ متاثرین نے پوسٹ مارٹم کروایا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سچ پر ہیں، کیونکہ کوئی بھی شخص بغیر کسی قانونی اور طبی ثبوت کے اپنے پیارے کی میت کے ٹکڑے نہیں کرواتا۔
محکمہ برقیات، انتظامیہ اور حکمران طبقہ، سب اس قتل کے برابر کے مجرم ہیں۔ ان کی غفلت، بے حسی اور کرپشن کی وجہ سے نکیال کی زمین لٹکتی تاروں کی وجہ سے موت کا قبرستان بنتی جا رہی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے ان تاروں کی نشاندہی، جلسے، درخواستیں اور حتیٰ کہ افسران کی موجودگی میں معاہدے تک کیے۔ لیکن عمل صفر رہا۔ صرف ایک دو ٹرانسفارمر جگاڑ کے طور پر نصب کیے گئے، باقی سب وعدے وفا نہ ہو سکے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام شہری، وکیل، خاتون یا مزدور کیا کرے؟ صرف موت کو گلے لگائے؟ محکمہ برقیات کے موجودہ ایس ڈی او نکیال میں تعینات ہونے کے باوجود ایسے حادثات کیوں؟ کیا وہ شکایت سے لاعلم تھے؟ اگر نہیں، تو انہوں نے اور ان کے عملے نے بے حسی کیوں برتی؟ ہم نے بارہا عوامی ایکشن کمیٹی کے فورم سے شکایات کیں، نشاندہی کرائی، افسران کو موقع پر بلایا، پھر بھی کوئی حل کیوں نہ نکالا گیا؟
محکمہ برقیات اب نکیال میں قومی خزانے پر بوجھ بن چکا ہے۔ ملازمین برسوں سے ایک ہی اسٹیشن پر تعینات ہیں، کام کی بجائے عیاشیوں میں مصروف۔ معمولی بارش پر گھنٹوں بجلی غائب ہو جاتی ہے۔ سابق صدر برگیڈیئر حیات خان کے دور میں جو نظام قائم ہوا، اسے سردار سکندر حیات خان نے 2010 میں اپ گریڈ کیا، لیکن نکیال واحد علاقہ ہے جہاں گریڈ اسٹیشن آج تک بوسیدہ حالت میں ہے۔ دیگر علاقوں میں اپ گریڈ ہو چکے ہیں۔
محکمہ کے اہلکار خود بجلی چوری کرواتے ہیں، پول، لائنیں بوسیدہ ہو چکیں، لکڑیاں غائب، شاخ تراشی ناپید۔ کئی سالوں سے میٹر ریڈر، لائن مین ایک ہی جگہ جمے ہوئے ہیں۔ ٹرانسفارمر خراب ہو تو عوام سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ نکیال آج بھی پتھر کے زمانے کی بجلی سہہ رہا ہے۔ یہاں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔
محکمہ کے ملازمین، افسران سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ایک باقاعدہ مافیا تشکیل دے چکے ہیں۔ کھلی کچہری کی ضرورت ہے۔ چوری کے کنکشن ختم کیے جائیں۔ تاجر طبقے کو دیے گئے ناجائز کنکشن منقطع ہوں۔ بھتہ خوری کا خاتمہ ہو۔ اگر صرف یہی دو اقدامات ہو جائیں تو بجلی کا 60 فیصد مسئلہ خود بخود حل ہو جائے۔
نرگل کی خاتون کی موت صرف حادثہ نہیں بلکہ ریاستی مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہے۔ محکمہ برقیات، نکیال انتظامیہ اور حکمران طبقہ کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔ ان پر قتل بلسبب کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔ متاثرہ خاندان کو کم از کم پانچ کروڑ روپے معاوضہ دیا جائے۔ لٹکتی تاروں کو ہٹایا جائے، نظام درست کیا جائے۔
آبادی بڑھ رہی ہے، ہر جگہ مکانات، دوکانیں، سڑکیں بن رہی ہیں۔ لیکن کیا کسی کے پاس کوئی ٹاؤن پلاننگ پالیسی ہے؟ کیا گڈ گورننس کے دعویداروں کے پاس کوئی نقشہ ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ سالوں میں نکیال میں تاروں اور سڑکوں کا ایک ایسا جنگل بنے گا جس میں انسانی زندگیاں اور ماحولیاتی توازن دونوں قربان ہو جائیں گے۔
اگر محکمہ برقیات کو ان لٹکتی تاروں کا علم نہیں تو راتوں رات ان کے نیچے مکان کیسے بن جاتے ہیں؟ کیا ان کی آنکھیں بند ہیں؟ یا قانون صرف کمزوروں پر لاگو ہوتا ہے؟ 75 سال گزر گئے، لیکن ہم ایک بجلی کا نظام درست نہ کر سکے۔ یہ کیسی ریاست ہے؟ کہاں کا انصاف ہے؟
نکیال میں کرپشن کا راج ہے۔ محکمہ مال، تھانہ، برقیات، جنگلات سب کے سب عوام دشمن بن چکے ہیں۔ ایک میٹر جس کی قیمت چند ہزار ہو، وہ تیس ہزار میں بکتا ہے۔ ٹھیکے بکتے ہیں۔ شکایت کرنا، انصاف مانگنا، سہولت کی امید رکھنا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
آج ایک اور نعش گری ہے، کل اور گرے گی۔ متاثرین کو دبایا جائے گا، سمجھایا جائے گا۔ برادریوں اور جماعتوں کی عزت کا بہانہ بنایا جائے گا۔ لیکن ہم خاموش نہیں ہوں گے۔ ہم بولیں گے، اتنا زور سے بولیں گے کہ بہرے بھی سنیں گے، گونگے بھی بولیں گے۔
عوام کو چاہیے کہ متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوں۔ محکمہ برقیات، انتظامیہ اور حکمران طبقہ کے خلاف قتل بلسبب کا مقدمہ درج ہو۔ تاروں سمیت تمام بجلی کے مسائل مستقل بنیادوں پر حل کیے جائیں۔ انصاف صرف نعرہ نہ ہو، حقیقت بنے۔(ختم شد)
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔
ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں