سیز فائر لائن نکیال: گولے کے ٹکڑے ، گولی کے خول جسموں میں، ریاست کہاں ہے؟
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال، کوٹلی، سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال
سیز فائر لائن زیرو پوائنٹ پر پر ، نکیال کی واقع وادیوں میں بسا ہر خاندان ایک کہانی ہے۔ گولوں کی گرج، فائرنگ کی سنسناہٹ، اور بنکروں کے سائے میں پلتے بچپن… یہ محض ایک جملہ نہیں، بلکہ زندگی کا وہ نوحہ ہے جو سیز فائر لائن کے باسی روز لکھتے ہیں، خون سے۔حالیہ پاک بھارت پروکسی وار پر مبنی جنگی وار سے اب امن ہو چکا ہے ۔ لیکن سیز فائر لائن پر اب بھی ماتم کی فضاء ہے۔ جنگی محرومیوں کا نشانہ بنے عوام آج بھی خوشیوں سے محروم ہیں۔
2019 میں بھارتی فوج کی بلااشتعال گولہ باری نے نکیال کے کئی معصوموں کو ہمیشہ کے لیے زخمی کر دیا۔ انہی میں سے ایک تیرہ سالہ ملک صغیر ولد عمر فاروق بھی تھا،
جسے حال ہی میں شدید تکلیف کے بعد اسپتال لایا گیا۔ الٹرا ساؤنڈ اور اسکین کے بعد انکشاف ہوا کہ اس کے پیٹ میں ابھی تک گولے کے ٹکڑے موجود تھے۔
سات سال بعد اس بچے کا دوبارہ آپریشن ہوا، اور بدن سے زخموں کی گواہیاں نکالی گئیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اتنی طویل غفلت کا ذمہ دار کون ہے؟
جب کوٹلی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے ادویات نہ دی گی۔ خون کا ٹیسٹ گیارہ سو روپے میں کیا اور سرکاری ایمبولینس بھی نہ دی گی۔ ایم ایچ راولپنڈی نے بھی ذلیل و رسواء کیا۔ ازاں بعد بڑی مشکل سے ہولی فیملی ہسپتال میں آپریشن ہوا۔
ہم نے اس واقعے کی بنیاد پر ذاتی تحقیق کی، تو نہایت ہوشربا انکشاف ہوا۔
درجنوں زخمی افراد آج بھی اپنے جسموں میں گولوں کے ٹکڑے لیے زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ حقیقت ایک ایسے سنگین خلا کی نشاندہی کرتی ہے جو یہاں کے صحت نظام، انتظامیہ، اور گڈ گورننس کے بلند بانگ دعووں کو شرمندہ کر دیتی ہے۔
جب کوئی زخمی ہوتا ہے، اسپتال میں عارضی پیوندکاری کر کے جان چھڑا لی جاتی ہے۔
نہ مکمل سٹی اسکین، نہ فالو اپ۔ ڈاکٹرز بھی فائل بند کرتے ہیں، اور حکومت بھی۔ گویا سیز فائر لائن کے شہری انسان نہیں، کوئی تجرباتی مخلوق ہوں۔ سیز فائر لائن کے عوام کو ان نے مینڈک اور چوہے سمجھا ہوا ہے جن پر تجربات کیے جاتے ہیں
ملک صغیر جیسے غریب بچے پر جو ظلم ہوا، وہ ناقابل معافی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بچے کو فوری طور پر پچاس لاکھ روپے ہرجانے کی ادائیگی کی جائے۔ اور اس کیس سمیت تمام زخمیوں پر مشتمل ایک غیر جانب دار جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
ہماری ٹیم نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال
جس میں مرزا تیمور طارق جرال ایڈووکیٹ، سردار ادریس خان، سردار عاصم خان، سجاد نیازی، ملک نصیر اور دیگر شامل تھے
دھروتی سیز فائر لائن کا خصوصی دورہ کیا۔ ہم نے نہ صرف زخمیوں سے ملاقات کی بلکہ وہاں کے عوام کے تحفظات سنے۔
سیز فائر لائن کے عوام کے جسموں میں گولے دفن ہیں، لیکن اس سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی بے حسی ان کے سینوں میں خنجر بن کر پیوست ہے۔
سیز فائر لائن پر رہنے والے نوجوان جب آرمی میں بھرتی کے لیے جاتے ہیں تو "سرحدی علاقہ" کہہ کر واپس کر دیے جاتے ہیں۔
نہ تعلیم، نہ صحت، نہ روزگار، نہ مواصلات۔ انٹرنیٹ تک کی سہولت نہیں، گویا یہ خطہ ملک کا حصہ ہی نہ ہو۔ ایم ایچ اور سی ایم ایچ کے دروازے ہوں یا ڈی ایچ کیو کوٹلی ۔۔ ہر جگہ یہ مظلوم عوام ذلت، تضحیک، اور تذلیل کا سامنا کرتے ہیں۔
2019 میں بھی بیرونی دنیا سے جو امداد آئی، وہ راستے میں ہی بانٹ لی گئی۔ اب ایک بار پھر گزشتہ روز سعودی عرب سے سیز فائر لائن کے عوام کے لیے جو مالی مدد آئی ہے، اس کی بندر بانٹ پر شدید تحفظات اٹھائے جا رہے ہیں۔یہ امداد مستحقین تک پہنچنے سے پہلے "منتخب جیبوں" میں ڈال دی گئی۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال نے جسٹس فار سیز فائر لائن نکیال مہم کا آغاز کر کے مطالبہ کیا ہے کہ
سیز فائر لائن کے تمام زخمی افراد کا مکمل طبی معائنہ (سٹی اسکین، الٹراساؤنڈ) کیا جائے۔
جن کے جسموں میں گولوں کے ٹکڑے ہیں، ان کا مفت آپریشن کروایا جائے۔ان کو معاوضہ دیا جائے اور پنشن دی جائے
تمام زخمیوں کو مالی امداد دی جائے اور ان کی بحالی کا منصوبہ ترتیب دیا جائے۔
سیز فائر لائن پر ایک مکمل اور فعال اسپتال قائم کیا جائے۔
زمہ داران کے خلاف کارروائی کی جاے۔
ہم یاد دلاتے ہیں کہ 2013 میں "سیز فائر لائن ایکشن کمیٹی" کے فورم سے ہم نے یہ مہم شروع کی تھی۔ تو اس وقت ہماری ٹیم سیز فائر لائن کے عوام کی حقیقی آواز ثابت ہوئی تھی جس سے متاثرین کو بڑا ریلیف فراہم ہوا تھا۔ خاص کر 2019 میں چیف سیکرٹری پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر نے ہمارے متعدد مطالبات پورے کیے تھے۔
آج ہم "جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال" کی شکل میں ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ظلم کے ہر باب کو بند کرنے اور انصاف کے ہر دروازے کو کھولنے کے لیے۔جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال آپ کا متبادل اور زخموں کا مرہم ہے ۔
آخر میں، ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں:-
سوال کیجئے، آواز بلند کیجئے، اور اپنے حق کے لیے کھڑے ہو جائیے۔
یہ ریاست آپ کی بھی ہے ۔ یہ ریاست اب ڈائن بن چکی ہے جو اپنے بچوں کو نگل رہی ہے ۔
(ختم شد)
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں