کیا آزاد جموں و کشمیر پولیس واقعی آزاد ہے؟
کیا آزاد جموں و کشمیر پولیس واقعی آزاد ہے؟
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ، سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال
آزاد جموں و کشمیر پولیس کا نام آتے ہی عام شہری کے ذہن میں ایک تلخ تاثر ابھرتا ہے۔۔۔۔رشوت، کرپشن، انتقامی کارروائیاں اور سیاسی سہولت کاری۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بدنامی صرف پولیس کی اپنی پیدا کردہ ہے یا یہ اس نظام کا حصہ ہے جسے حکمران طبقات نے دانستہ طور پر بگاڑا؟
حقیقت یہ ہے کہ پولیس کا محکمہ حکمرانوں کی گرفت میں ہے۔ حکمران جماعتوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے اس ادارے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
محکمانہ بیوروکریسی کو ہر طرح کی مراعات حاصل ہیں، لیکن وہ بھی بالا دست طبقے کی نمائندہ ہے۔
اس کے برعکس، نچلے درجے کے پولیس ملازمین، جو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، شدید مالی اور اخلاقی دباؤ کے نیچے کچلے جا رہے ہیں۔
پولیس اہلکاروں کو روزانہ کی بنیاد پر سمن کی تعمیل، قیدیوں کی منتقلی، فرانزک لیبارٹریوں تک رسائی، اور شہادتوں کے لیے طویل سفر جیسے فرائض انجام دینا ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے نہ فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، نہ سہولیات۔
اگر فنڈز مختص بھی ہوں تو وہ بالا افسران تک محدود رہتے ہیں۔ اس کے باوجود جب عوام رشوت اور بدعنوانی کا شکوہ کرتے ہیں تو کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ اصل سازش تو وہ نظام ہے جو پولیس کو بلیک میل کرنے، مجبور کرنے اور اخلاقی گراوٹ کی طرف دھکیلنے کے لیے چور دروازے کھولے رکھتا ہے۔
تنخواہوں میں درجہ وار تفاوت اتنا زیادہ ہے کہ گریڈ 01 اور گریڈ 21 کے درمیان ایک خلیج سی بن چکی ہے۔ رسک الاؤنس، جو پولیس جیسے پرخطر ، پیشے میں بنیادی سہولت ہونا چاہیے، آج بھی آزاد کشمیر پولیس کو نہیں مل رہا،
جب کہ دیگر محکموں میں اس میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ٹی اے/ڈی اے، جو 2012 کے تناسب سے دیا جا رہا ہے، زمینی حقیقت سے مکمل طور پر کٹا ہوا ہے۔ نہ اسپیشل الاؤنس دیا جاتا ہے، نہ ڈسپیرٹی الاؤنس مناسب ہے۔
پولیس یونیفارم تک موجودہ مہنگائی کے مطابق فراہم نہیں کی جاتی۔ راشن الاؤنس، جو دن کا محض 65 روپے ہے، اور پندرہ سو روپے ماہانہ میڈیکل الاؤنس، کسی مذاق سے کم نہیں۔
کیا ریاست اور حکومتیں یہ سمجھنے کو تیار ہیں کہ ان حالات میں ایک پولیس اہلکار سے دیانت، فرض شناسی اور قانون کی پاسداری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ کیا یہی طرزِ سلوک ہے جس سے کسی ادارے کو خود دار اور خود مختار بنایا جاتا ہے؟
دوسری طرف، پنجاب پولیس کو 11 ہزار روپے ماہانہ لاء اینڈ انفورسمنٹ الاؤنس ملتا ہے، جب کہ آزاد کشمیر پولیس کو کچھ بھی نہیں۔ پروموشن کے نظام میں بھی ظلم کی انتہا ہے۔ جہاں پاکستان میں آٹھ سال بعد کانسٹیبل ترقی پا لیتا ہے، وہیں آزاد کشمیر میں پندرہ سال بعد بھی ترقی خواب ہی رہ جاتی ہے۔
بدترین صورتحال تو یہ ہے کہ یہاں کی پولیس آج بھی 24 گھنٹے کی مسلسل ڈیوٹی پر مجبور ہے، جو کہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اگر ایف سی، رینجرز جیسے ادارے قائم کرنے کی بات کی جا سکتی ہے تو اس سے پہلے ریاست کو چاہیے کہ وہ موجودہ پولیس نظام کو باوقار، بااختیار اور شفاف بنائے۔
لیکن پولیس بھی یہ سمجھے کہ عوامی اعتماد اسی صورت میں بحال ہو سکتا ہے جب محکمہ خود کو ریاست کا نہیں، عوام کا خادم سمجھے
۔ اگر ایک کانسٹیبل یا افسر کی بدعنوانی پورے محکمے کی بدنامی کا باعث بنتی ہے، تو پھر ہر اہلکار کی ایمانداری پورے ادارے کی عزت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس اپنی پالیسیوں، رویوں اور اخلاقی معیار پر ازسرنو غور کرے۔ ایسے افراد جو سفارش یا مال و دولت نہیں رکھتے، جن کے انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں، ان کے ساتھ میرٹ پر برتاؤ ہونا چاہیے۔ ان کی دادرسی، انصاف، اور تحفظ ترجیح ہونی چاہیے، نہ کہ تھانہ کچہری کی سیاست، ٹاؤٹ کلچر اور خود غرضی۔
آج اگر عوام دعا کرتے ہیں کہ خدا کسی کو تھانے کچہری کا منہ نہ دکھائے، تو یہ محض عوامی فقرہ نہیں بلکہ ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر سے جرائم کے محافظوں، مافیا کے سہولت کاروں اور وکلاء کے بھیس میں موجود دلالوں سے نجات حاصل کرے۔
ہم پولیس کے بطور ادارہ مخالف نہیں۔ ہم طبقاتی ناانصافی، اختیارات کے غلط استعمال، اور قانون کے مغائر رویوں کے مخالف ہیں۔ ۔۔
ہمیں جرم اور اس کے محافظوں سے نفرت ہے، قانون سے نہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ پولیس کو تمام آئینی مراعات دے، عزت دے، طاقت دے ۔۔۔۔ تاکہ وہ قانون کے محافظ بنیں، مافیاز کے نہیں۔۔۔۔
آزاد جموں و کشمیر پولیس کی آزادی ، بااختیاری میں سب سے بڑا مسلہ آئی جی پولیس کا ریاست جموں و کشمیر سے نہ ہونا ہے ۔
پاکستانی وفاق نے پوری اس خطہ کی پولیس کو ایک غیر ریاستی اعلی عہدے کے کنٹرول ، خوشنودی ، تابع شرائط رکھا ہوا ہے
۔ جو یہاں کے عوام ، قانون ساز اسمبلی کو نہیں پاکستانی وفاق کو جواب دہ ہے ۔
اس لیے وہ محاسبہ ، جوابدی سے آزاد تصور ہوتا ہے ۔ سیاہ و سفید کا مالک ہے ۔ جس وجہ سے آزاد جموں و کشمیر کی پولیس ، اہلکاروں اور عوام سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے ۔
انہوں نے اپنی سروس بند سالوں یا عرصہ کی پاکستانی وفاق کی خوشنودی پر پوری کرنی ہوتی ہے ۔ جو پاکستانی وفاق کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کا باعث بنتے ہیں ۔
ہم باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے دشمن نہیں، آپ کی تنخواہ، راشن، کنونس، پروموشن، ٹائم، انصاف، عزت کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ پولیس ورکنگ کلاس حکمرانوں کی لونڈی نہیں، عوام کی خادم ہو۔
ریاست اگر آپ کو حق دے تو آپ عوام کو انصاف دیں۔ ہم جرم کے خلاف ہیں، مگر وردی میں جرم چھپانے والوں کے بھی خلاف ہیں۔
آئیں!
مل کر پولیس کو باوقار اور عوام دوست ادارہ بنائیں۔ پولیس کو ان کی زمہ داریوں کا احساس دلائیں ۔
ہم آزاد جموں و کشمیر پولیس کے اندر موجود طبقاتی تفریق ، ناہمواریوں کے خلاف ہیں۔ ورکنگ کلاس کے حقوق کی بات پوری قوت و شعور سے کریں گے ۔
اس تحریر کو پڑھنے والے قارئین کے نام کہ ہمارا اختلاف پولیس سے نہیں بلکہ پولیس میں موجود استحصالی رویوں، کرپٹ پالیسیوں اور غیر قانونی طرز عمل سے ہے۔
ہم پولیس دشمن نہیں، کرپشن دشمن ہیں۔آپ کی وردی میں ہمارا حق محفوظ ہو، ہمارا یقین بحال ہو۔
اس کالم میں راقم نے کرپشن، استحصال، غیر قانونی رویوں، سیاسی غلامی کے خلاف لکھا ہے ۔اگر حکام کو اس سے تکلیف ہے تو خود کو ان رویوں سے الگ کریں، یا سمجھیں۔
حرف آخر یہی ہے کہ
اگر آج بھی ریاست نے آنکھیں بند رکھیں، اور پولیس نے خود احتسابی اختیار نہ کی، تو یہ محکمہ عوامی اعتماد کھو چکا ہوگا، اور انصاف محض طاقتور کے لیے رہ جائے گا۔
(ختم شد)
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں