نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نکیال ، کیا سرکاری عمارتیں شادی ہال ہیں؟ یونین کونسل ڈبسی کا نوحہ اور عوامی بیداری کی نئی لہر*

نکیال سرکاری عمارات میں شادی اسٹیج ، سامان رکھا جاتا ہے ؟؟؟ *نکیال ، کیا سرکاری عمارتیں شادی ہال ہیں؟ یونین کونسل ڈبسی کا نوحہ اور عوامی بیداری کی نئی لہر* تحریر: کامریڈ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جموں کشمیر قارئین کرام! یونین کونسل ڈبسی آزاد جموں و کشمیر کا وہ علاقہ ہے جہاں قانون کا راج ختم ہو چکا ہے؟ جہاں سرکاری عمارتیں، جو عوامی خدمت کے لیے مختص ہیں، ذاتی کمائی اور کرائے کے کاروبار کی نذر ہو چکی ہیں؟ *جہاں محکمہ زراعت کی عمارت شادیوں کے اسٹیج، ڈیکوریشن اور جہیز کے سامان کا گودام بن چکی ہو؟ جہاں ریاستی ملازمین کی پشت پناہی میں دوکاندار سرکاری دفاتر کو نجی گودام بنا لیں؟* یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔ اور کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔ یہ صرف جرم نہیں، عوامی وسائل کی بے حرمتی ہے۔اس پر سخت صاف شفاف تحقیقات ہونی چاہیے ۔ یونین کونسل ڈبسی کی عوام، نوجوان، اور بالخصوص جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کارکن عمران نزیر جیسے باشعور جوانوں نے اس بدنما چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ انہوں نے وہ سوالات اٹھائے ہیں جو برسوں سے دفن تھے۔اج عوامی ایکشن کمیٹی ہی ہے جو عوام کو شعور دے کر نظام کو ایکسپوز کر رہی ہے ۔ ہمیں بتایا جایے کہ یہ سرکاری عمارت ہے یا کرایہ داروں کا گودام ہے ؟ محکمہ زراعت کی عمارت، جو زمینداروں کی راہنمائی، کھاد اور بیج کی فراہمی، اور زرعی ترقی کے لیے بنائی گئی تھی، وہاں اب شادی کا اسٹیج رکھا جاتا ہے۔ سرکاری دفتر اب شادیوں کے سامان کی پارسلنگ کا اڈہ بن چکا ہے۔ دفتر سے سامان جاتا ہے، تقریب میں استعمال ہوتا ہے، اور واپس اسی سرکاری عمارت میں رکھ دیا جاتا ہے۔ کیا یہی ہے ریاستی ملازمین کا فرض؟ کیا یہ عمارت عوام کے ٹیکسوں کی امانت نہیں؟ سرکاری عمارتوں کی تذلیل کا بدترین منظرنامہ اگر دیکھنا ہو تو نکیال اور خاص طور پر یونین کونسل ڈبسی جائیں ۔ تو آپ کو نظر آئے گا اگر آپ شعوری طور پر دیکھیں گے سوچیں سمجھیں گے کہ زراعت کی عمارت میں کرائے کا سامان زچہ بچہ مرکز میں گھاس اور لکڑی کا ڈھیر کمیونٹی ہال میں دن کو پیشاب، رات کو گیڈر آر ایچ سی میں دوپہر کے بعد کتوں کا راج سکول میں سیاسی جماعتوں کے جلسے یہ سب کس کی اجازت سے ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟ کیا عوامی ادارے فقط وڈیروں،بڑی پگڑی والوں ، برادری ازم کے کارندوں، اور کرپٹ سیاسی جماعتوں کی جاگیر ہیں؟ اسی زراعت کی عمارت میں دیکھیں جو سرکاری سامان تھا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ وہ پھینکا ہوا ہے ۔ یہ نکیال سے ڈبسی تک بوجھ بن چکا ہے ۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال ایک متبادل ہے ایک نئی امیدہے عوام کے لیے ۔ ۔۔۔اب یہ سوچنا ہو گا عوام کو ،۔ نوجوانوں کو ۔۔ جب عوامی مفاد کے ادارے لوٹ مار کی نذر ہوں، جب سرکاری ملازمین ڈیوٹی کے بجائے سیاسی شخصیات کے گھروں میں خدمت کریں، اور جب عوام کی آواز دبائی جائے ۔۔۔ تب انقلاب کا وقت ہوتا ہے۔تبدیلی کا، سوال اٹھانے کا، نظام بدلنے کا ۔۔ جرات انکاری کا ۔۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال نے اس سماج کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ مقامی عوام، نوجوان، محنت کش، اب خاموش نہیں رہیں گے۔ انہوں نے لوکل گورنمنٹ کے سیکرٹری کو مجبور کیا کہ وہ مقامی ڈیوٹی اسٹیشن پر آئیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری عمارت کو کرائے کے گودام کے بجائے دفتر کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ وہ شعور ہے جسے دبایا نہیں جا سکتا۔ اب آر ایچ سی مکمل فعال ہو گا۔ زچہ بچہ سنٹر بحال ہو گا ۔ سب حقوق لیں گے ۔ لیکن اس کی راہ میں رکاوٹ روایتی سیاستدانوں کو کھلا چیلنج ہے میرا ۔ ۔۔کہ ۔۔۔ جو لوگ آج اس عوامی بیداری پر مرچیں کھا رہے ہیں، جو جھوٹ، تعصب، برادری ازم، اور وظیفہ خوری کی سیاست کے عادی ہیں، وہ سن لیں۔۔۔۔ اب آپ کی سیاست کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ آپ کی چالاکیاں، سودے بازیاں اور کرپشن کے ریکارڈ عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔ اب نہ سرکاری گاڑیوں میں بارات جائے گی ، نہ بچوں کی سیر، نہ لکڑیاں لادی جائیں گی، نہ کتے، اور نہ ہی سرکاری ملازمین سیاستدانوں کے ذاتی غلام بنے رہیں گے۔ کیوں کہ ایک ماہ بعد آگے کا لائحہ عمل ۔۔ ۔۔نکیال جاگ رہا ہے۔۔ نکیال کو جگانے کے لیے ہم دے رہے ہیں ۔۔ تیار رہیں آپ ۔ ان شاء اللہ 25 جولائی کو ڈبسی بازار میں اور 29 ستمبر کو نکیال لاک ڈاؤن مہم، حق ملکیت و حق حکمرانی کی کانفرنس ۔۔۔۔ یہ محض تقریبات نہیں، یہ عوامی شعور کا طوفان ہیں۔ یہ بغاوت کا اظہار ہے۔۔ یہ شروعات ہے سونامی کی۔۔ سماج کی تبدیلی کے لیے ہر نوجوان کو، ہر باشعور شہری کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک کا حصہ بننا ہوگا۔ یہ صرف احتجاج نہیں، یہ نئی قیادت کی بنیاد ہے۔کیوں کہ ہم نکیال کو سیاسی متبادل دینا چاہتے ہیں ۔۔ جو برادری ازم روائیتی سیاسی جماعتوں سے ، موجودہ نظام سے پاک صاف ہو ۔ عوامی خدمت کے لیے ہو ۔ یہ کالم سوال نہیں کرتا، اعلان کرتا ہے، دعوت فکر ہے ۔ اب خاموشی جرم ہے، بیداری فرض ہے۔اب ہم بولیں گے اتنا زور سے کہ بہرے بھی سن لیں گے ۔ اب اگر عوام چپ رہے تو ظالم پھر عمارتوں میں کاروبار کریں گے، اور اگر عوام جاگ گئی تو ہر کرپٹ کو جواب دینا پڑے گا۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ہی آپ کا متبادل ہے۔ بدلو نکیال، بدلو نظام، بدلو سوچ .... انصاف سب کے لیے، حقوق سب کے لیے، خوشحالی سب کے لیے۔ (ختم شد)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...