ضمیر کے نام، ایکشن کمیٹی کے سپاہیوں کے نام
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ(ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی)
یہ کمیٹی( جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی)...کوئی شخصیت نہیں، کوئی پارٹی نہیں، کوئی وقتی نعرہ نہیں۔..
یہ عوامی، قومی، طبقاتی حقوق کی ناقابلِ مصالحت جدوجہد کا نام ہے۔
یہ ہمارے خوابوں، محرومیوں، نسل در نسل لوٹے گئے وسائل اور پامال کیے گئے حقِ حکمرانی کی بازیافت کی جدوجہد ہے۔
یہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ہے۔۔۔۔۔۔
جس کی جڑت اتحاد سے ہے، بنیاد اصولوں سے ہے، اور طاقت آپ سے ہے۔یہ کسی ایک فرد، کسی ایک مسلک، کسی ایک سوچ کی جاگیر نہیں۔۔۔
یہ ہر اس انسان کی آواز ہے جو
ظلم کے خلاف کھڑا ہے، محرومی کے خلاف سینہ تانتا ہے، اور حقوق کے لیے میدان میں ہے۔۔۔ اب وقت ہے… کہ ہمارا رویہ، ہمارا عمل، ہمارا فیصلہ… تحریک کے حق میں ہو ۔۔۔
جان لو! تمہارا ایک ناپختہ قدم۔۔۔ایک جزباتی جملہ۔۔۔ایک غلط ترجیح کمیٹی کی یکجہتی، اتحاد، اور عوامی اعتماد کو چکنا چور کر سکتا ہے۔
تحریکیں نعرے سے نہیں،
نظم و ضبط، حکمت عملی،
اور ذاتی انا سے بالاتر اجتماعی شعور سے چلتی ہیں ۔ ہماری لڑائی ایک نہیں ۔۔۔ کئی محاذوں پر ہے!
ہم پچتر سالوں کے اس گند بوسیدہ نظام سے لڑ رہے ہیں
جس نے نسلوں کو مایوس کیا۔
یہ صرف جلسہ نہیں، ریلی نہیں،
یہ صدیوں کا حساب ہے جو عوام خود لینے نکلے ہیں۔
تحریکوں میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں،
لیکن باشعور کارکن کبھی جزباتی ایڈونچرزم میں تحریک کو داؤ پر نہیں لگاتا۔ایک باشعور ، سیاسی، نظریاتی ، مخلص ممبر پسند ناپسند کی ترجیحات پر عوامی قومی مفاد کو سولی نہیں چڑھنے دیتا ہے ۔۔
وہ عوام کی امیدوں کا امین ہوتا ہے، نہ کہ ذاتی خواہشات کا غلام۔ وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو کمیٹی کا تحریک کا پشتبان ہوتا ہے ۔۔
لہٰذا…کمیٹی کو طاقت بنائیں، کمزور نہیں۔۔۔تنقید نہیں، کردار سے قائل کریں۔۔۔ نفرت نہیں، دلیل سے جیتیں۔ دلوں کو فتح کریں۔ عوامی جدوجہد سے زمانہ کو فتح کریں۔ تنقید برائے کمیٹی اتحاد ، جڑت کے لیے کریں۔ اپنے عمل سے ثابت کریں۔
شہرت کی بھوک نہیں، عوامی شعور کو ترجیح دیں۔
ہر محلے، ہر وارڈ، ہر یونین کونسل تک کمیٹی کو لے جائیں۔
یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں
29 ستمبر کو ایک فیصلہ کن عوامی پاور شو کے لیے
تمام تر ذاتی و نظریاتی اختلافات سے بالا ہو کر
ایک صف میں کھڑا ہونا ہے۔
کمیٹی صرف نجات دہندہ نہیں، عوام کی امید ہے!
یاد رکھو...
عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔
وہ اب بیوقوف نہیں بنیں گے۔
ان کے اندر شعور بیدار ہو چکا ہے۔
اب یہ عوامی شعور آپ سے سوال کرے گا:
کہ تم نے اتحاد کو توڑا، یا نبھایا؟
تم نے تحریک کو آگے بڑھایا، یا روکا؟
تم نے عوام کو متبادل دیا، یا خود کو بیچا؟
اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ آخری پیغام کو سمجھا جائے ۔
یہ کمیٹی کسی کی نہیں،
سب کی ہے۔یہ سب کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ یہ نجات دہندہ ہے۔
یہ ہے تو سب حقوق ہیں۔ بصورت دیگر آنے والا وقت بڑی آزمائش کا ہے ۔۔ سنگ مرمر پر چلنا سیکھنا ہو گا۔
اس کو گروہی جھگڑوں، جزباتی فتوؤں، یا وقتی فائدوں کے لیے استعمال مت کرو۔
ورنہ تاریخ صرف تمہیں نہیں،
تمہارے کردار کی قیمت بھی لکھے گی۔
اب فیصلہ آپ کا ہے۔۔۔۔
ضمیر جاگتا ہے، یا سویا رہتا ہے؟
تحریک سنورتی ہے، یا بکھرتی ہے؟
قوم اٹھتی ہے، یا مزید غلامی میں ڈوبتی ہے؟ تحریکیں ، ملک بننے ٹوٹتے رہتے ہیں ۔ انقلاب آتے رہتے ہیں ۔
انسان کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اصولوں ، نظریات ، کمننٹ ، جدوجہد پر انحصار کرنے والے امر ہو جاتے ہیں ۔۔
تحریک زندہ رہے گی ۔۔ اگر ہم زندہ ضمیر والے ثابت ہوئے!
متحد رہو، منظم رہو، اصولوں پر ڈٹے رہو!
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی۔۔۔ عوام کی آخری امید ہے!
ہم ضرور عوامی طاقت سے جیتیں گے اور لڑیں گے ۔۔
ختم شد
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں