یک نکیال، ایک ریاست ، ایک عوام تو دو قانون ، دو نظام اور دوہرے معیار کیوں ہیں ؟؟؟ نکیال کے نوجوانو! اہلِ نکیال! یہ سوال آپ ذہنوں میں آج ہونا چاہیے کہ آخر یہ نظام ہمارے شہر میں کیوں مسلط ہے؟
ایک نکیال، ایک ریاست ، ایک عوام تو دو قانون ، دو نظام اور دوہرے معیار کیوں ہیں ؟؟؟
نکیال کے نوجوانو! اہلِ نکیال! یہ سوال آپ ذہنوں میں آج ہونا چاہیے کہ آخر یہ نظام ہمارے شہر میں کیوں مسلط ہے؟
۔
کب تک ہم اسے برداشت کرتے رہیں گے؟ یہ دوہرا نظام، یہ دوہرا قانون،
یہ دوہرا معیار ۔اس کا خاتمہ ہم ہی کو کرنا ہو گا، اور ابھی کرنا ہو گا۔
یہاں ایک طرف تحصیل و ضلعی انتظامیہ ، ریاستی مشینری ، حکمران طبقات ہیں۔ ان کی جماعتیں، ان کے سہولت کار، ان کے سرکاری ملازمین، اور ان کے اندر گھسے روایتی سیاسی ورکر، جن کے لیے ہر کام جائز ہے،
ہر حد پار کرنے کی اجازت ہے۔ چاہے وہ کسی سرکاری تقریب میں ٹیکس کے پیسوں پر عیاشی کریں، سرکاری مشینری کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کریں،
یا چند چہتے تاجروں، چند تابع وکلا اور کچھ کاغذی صحافیوں کو ساتھ ملا کر جو چاہیں کریں۔ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ ان کو اوپن چھوٹ ہے۔
کھلا لائسنس ہے کسی قسم کی سرگرمیوں کا۔ تقاریب بھی۔ تقاریر کا ۔۔۔
لیکن جب ہم، جو اس نظام سے بغاوت کرتے ہیں، جو انقلاب چاہتے ہیں،
جو عوامی خوابوں کو حقیقت بنانا چاہتے ہیں، جب ہم پرامن طریقے سے اپنے حق کی بات کرتے ہیں، ہم جائز قانونی مطالبات پر عوامی حقوق کی جدوجہد کرتے ہیں ۔۔
تو ہمارے لیے ہر دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ پولیس تشدد، جھوٹے مقدمات، کردار کشی، اور "بھارت کا ایجنٹ" ہونے کا الزام۔
یہ سب ہتھیار ہمارے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے؟
کیا یہ دو قانون نہیں ہیں؟
ایک ان کے لیے جو اقتدار کے غلام ہیں، اور دوسرا ہمارے لیے جو عوام کے وفادار ہیں؟
ہماری جدوجہد آئینی، قانونی اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے۔
ہم اپنی ریاست کے وفادار ہیں، اپنی قوم کے خیرخواہ ہیں۔ مگر یہاں کے حکمران اور ان کے سہولت کار صرف ایک چھوٹے سے علاقے پر قابض انتظامیہ کے نمائندے بن کر بیٹھے ہیں،
اور عوام کی سوچ کو زہر آلود کر چکے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے نکیال میں کہ جب ہم اصولوں پر بر حقیقت پیپلز پارٹی کی حقیقت بیان کرتے ہیں تو مسلم لیگ خوش ہوتی ہے،
اور جب مسلم لیگ کے خلاف بات کرتے ہیں تو پیپلز پارٹی خوش ہوتی ہے۔
لیکن جب ہم دونوں کے خلاف حق بات کرتے ہیں تو دونوں ایک ہو کر ہمارے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ یہی ان کا اصل چہرہ ہے۔
ہم انہیں آج باور کرا دینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
نکیال میں اب یہ کھیل مزید نہیں چلے گا۔
اگر تمہارا قانون، تمہارے ادارے، تمہارے سہولت کار، تمہاری جماعتیں اور تمہارے حکمران طبقات عوامی حقوق اور قومی سوال کے راستے میں رکاوٹ بنے،
تو ہم تمہارے دفاتر کے باہر دھرنے دیں گے، تمہارے بوسیدہ نظام کو مسترد کر دیں گے۔
یہاں امیر کے لیے قانون مر جاتا ہے۔ مکان بنانا ہو، مشین لگانی ہو، کھدائی کرنی ہو۔۔۔
کوئی این او سی نہیں، کوئی اجازت نہیں، قانون خود ان کے گھر نوکر بن کر پہنچ جاتا ہے۔ لیکن غریب کے لیے۔۔۔۔۔
جس کے پاس نہ پیسہ ہے نہ سفارش۔۔۔۔۔۔
کاغذ پر کاغذ، فیس پر فیس، جرمانے پر جرمانہ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟
اب فیصلہ ہو چکا ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔
دو نظام، دو قانون، دوہرے معیار اب نکیال میں نہیں چلیں گے۔
ہم نہ ووٹ کے بھوکے ہیں، نہ روپے کے، نہ تعریف کے۔ ہمیں اپنے حقوق چاہئیں، ہمیں آزادی اور انقلاب چاہیے، ہمیں نظام بدلنا ہے۔
اس لیے ہم تم سے سہولت کار نہیں مانگتے، ڈرپوک نہیں مانگتے۔
ہمیں صرف جینوئن نوجوان، باشعور سیاسی ورکر اور سچ کے متوالے چاہئیں۔۔۔۔۔۔
جو مصلحتیں چھوڑ کر قافلے میں شامل ہوں۔
ہم تمہارے آزادیِ اظہار کا احترام کرتے ہیں،
مگر جب تک یہ حق ہمیں بھی نہیں ملتا، ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم اتنی قوت اور سچائی سے بولیں گے کہ تمہاری بنیادیں ہل جائیں گی۔
یہ ہمارا اعلان ہے، یہ ہماری دعوتِ فکر ہے ۔۔
اگر یہ جشن، یہ نظام، یہ دعوے۔۔
سب فراڈ، جھوٹ اور دھوکہ ہیں ۔
تو پھر کب تک ہم خاموش رہیں گے؟
اٹھو بدل ڈالو نظام کو ۔ سماج کو ۔ نکیال کو ۔۔ او اپنی سوچ بدلتے ہوئے روائیتی تعصب نفرت سے بالاتر ہو کر ناقابل مصالحت جدوجہد کریں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں