نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

> نکیال سیز فائر لائن سے نامعلوم لاش اور مردہ نظام۔۔ مردہ سماج ؟؟؟ نکیال میں تفتیش سوالیہ نشان ؟؟؟ یہ پولیس، یہ انتظامیہ ، یہ حکومتیں کس مرض کی دوا ہیں۔۔۔!!!

نکیال سیز فائر لائن سے نامعلوم لاش اور مردہ نظام۔۔ مردہ سماج ؟؟؟ نکیال میں تفتیش سوالیہ نشان ؟؟؟ یہ پولیس، یہ انتظامیہ ، یہ حکومتیں کس مرض کی دوا ہیں۔۔۔!!! تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال قارئین! صبح سویرے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی کہ سیز فائر لائن نکیال اولی کے زیرو پوائنٹ پر ایک لاش پڑی ہے۔ اطلاع ملی تو پولیس، انتظامیہ اور ادارے حرکت میں آئے۔ سوشل میڈیا پر شور مچ گیا پولیس پہنچنے والی ہے! ہم نے بھی سوچا کہ اب شناخت ہو جائے گی۔ مگر پولیس نے جا کر صرف یہ بتایا کہ نعش تقریباً 60۔65 سالہ شخص کی ہے، جیب سے کوئی شناختی کاغذ نہیں ملا۔ ۔۔۔۔۔۔ لاش کو ہسپتال لایا گیا۔ انتظار بڑھ گیا۔ پھر خبر ملی کہ شناخت نہیں ہو پا رہی، بس غسل دے دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر چہرے کی تصویر وائرل کی گئی کہ کیا کوئی اس کو پہچانتا ہے؟ گاؤں گاؤں خبر پھیل گئی۔ پہلے کہا گیا یہ سہسنہ کوٹلی کا کوئی ہے۔ پھر کہا گیا شناخت ہو گئی ہے۔ پھر کہا گیا نہیں، ابھی نامعلوم ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ آخرکار انتظامیہ اور پولیس نے اعلان کیا کہ لاش مردہ خانے میں ہے، اگر کوئی لینے والا نہیں آیا تو کل امانت کے طور پر دفنا دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔ یہاں کہانی رُک گئی۔ مگر سوالات وہیں کھڑے ہیں۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ یہ کون تھا؟خود مرا یا قتل کیا گیا؟اگر قتل ہے تو نشانات کیوں چھپائے گئے ؟کب سے مردہ تھا؟ پوسٹ مارٹم کہاں ہے؟ رپورٹ کیوں غائب ہے؟ آج کی جدید دنیا میں شناخت کیا ایسے ہوتی ہے؟کیا پولیس ایسے کرتی ہے ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ قارئین! یہ کوئی قرون وسطیٰ کا زمانہ نہیں، یہ اکیسویں صدی ہے۔ آج دنیا میں نامعلوم لاش کی۔۔۔۔۔ شناخت کے لیے واضح سائنسی ذرائع موجود ہیں۔۔ روز جن سے ایسے واقعات میں واسطہ پڑتا ہے ۔ ڈی این اے ٹیسٹ ہے۔ دنیا میں سب سے معتبر ذریعہ ہے۔ پاکستان میں بڑے شہروں میں لیبارٹریاں موجود ہیں۔ جموں کشمیر میں ایسی کوئی لیبارٹریز بھی نہیں ہیں ۔ سب مواد پنجاب فرانزک لیب میں بھجنا پڑتا ہے کئی ماہ انتظارِ کرنا پڑتا ہے ۔ ہزاروں لاکھوں روپے فیس دینی پڑتی ہے ورثاء کو۔۔۔ ۔۔۔۔ اس ڈی این اے میں قریبی رشتہ داروں سے میچ کر کے شناخت ہو جاتی ہے۔ پھر بایومیٹرک فنگر پرنٹ سسٹم نادرا کے ریکارڈ میں ہر شہری کی انگلیوں کے نشانات موجود ہیں۔جو روز کا معمول ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ایک اسکینر سے چند منٹ میں شناخت ممکن ہے۔۔۔۔۔۔ ڈینٹل ریکارڈ (Dental Records)دنیا میں کئی کیسز دانتوں کے نمونوں سے حل ہوئے۔ہر انسان کے دانت منفرد ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔ فورینزک سائنس اور پوسٹ مارٹم۔۔۔۔موت کے وقت، زخموں کی نوعیت، زہر یا حادثے کا پتا چلتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ رپورٹ تاخیر کا شکار یا غائب کر دی جاتی ہے۔ آج جب قانون کے طالب علم اور ایک وکیل ہونے کی حثیت سے ہم میڈیکل جوریس پروڈینس پڑھتے تھے پڑھتے ہیں ۔ تو وہ قانون ۔ طریقہ کار ۔ تفتیش کے طریقے پڑھ کے اور یہ کیا پولیس کے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے۔ قارئین کرام! 9/11 میں ہزاروں لاشیں ناقابلِ شناخت تھیں۔ امریکہ نے ڈی این اے پرو فائلنگ سے سب کی شناخت کی۔ترکی اور جاپان کے زلزلوں میں ہر لاش کو فورینزک لیبز کے ذریعے پہچانا گیا۔ بھارت میں ریلوے حادثات یا ہسپتال میں مرنے والوں کی لاشیں آدھار بایومیٹرک سسٹم سے شناخت کی جاتی ہیں۔ سوال یہی ہے ۔۔۔۔۔ اگر دنیا سو سال پرانی ہڈیوں کی شناخت کر لیتی ہے تو نکیال کی تازہ لاش کیوں نامعلوم رہی؟ اگر نادرا ہر شہری سے ٹیکس اور شناختی بایومیٹرک لیتا ہے تو پولیس نے کیوں صرف ایک اشتہار پر اکتفا کیا؟ کیا یہ ادارے صرف زندہ انسانوں کو ستانے کے لیے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ان کی شناخت چھین لینے کے لیے؟ یہ صرف ایک لاش کی کہانی نہیں، یہ اس نظام کی لاش ہے جو انصاف، سائنس اور ٹیکنالوجی سے عاری ہے۔ یہاں پیدا ہونا بھی جرم ہے، جینا بھی جرم ہے، مرنا بھی جرم ہے۔ صحافی صرف پولیس کے بیانات دہراتے ہیں، پولیس صرف خانہ پُری کرتی ہے، اور حکومت صرف زبانی کلامی گڈ گورننس کے نعرے لگاتی ہے۔ صحافی اور سول سوسائٹی محض خبر نہ دوہرائیں بلکہ سوال اٹھائیں۔سوشل میڈیا پر جس طرح ٹرینڈز بنایا گیا اگر اسی طرح سوالات اٹھائے جاتے تو شاید شناخت ہو جاتی۔ اب پولیس انتظامیہ باقی سے درخواست ہے کہ نعش کو ایسی جگہ دفن کرئیے گا کہ جہاں بعد میں قبر کی بھی شناخت ہو سکے۔ یہ نہ ہو کہ کسی اور کی نعش قیدیوں نکال کر دے دی جائیں ۔ یا پھر پٹواریوں کے ذریعہ لھٹے اور عکس مساوی منگوا کر شناخت کرنی پڑے۔ یہ تحریر صرف ایک نامعلوم لاش کا نوحہ نہیں بلکہ پورے نظام پر فردِ جرم ہے۔۔۔۔ جس کا ٹرائل وقت کا تقاضا ہے ۔۔ ریاست کو سوچنا ہوگا کہ انسان کی شناخت مرنے کے بعد بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی زندہ رہتے ہوئے۔۔۔۔۔ جس ریاست کو ایک نعش کا علم نہ ہوسکے۔ تو ان کو حکومتیں کرنے کا بھی حق نہیں پہنچتا ہے ۔۔نعش کی شناخت چکی ہے۔ ۔ کون تھا ۔۔ یہ ہمارے مردہ ضمیر کی نعش تھی۔ یہ ہم تھے جو انسانوں کی بھیڑ میں شناخت سے محروم ہیں۔ ( ختم شد) #shahnawazalisheradvocate #viralreelschallenge2025viralreelschallengejaiviralreelschallengeviralreelschallenge #29septmberlockdown #AJKRightsmovement

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...