نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سیز فائر لائن سے ایک لرزہ خیز تعلیمی المیہ

*نکیال سیز فائر لائن سے ایک لرزہ خیز تعلیمی المیہ* ناظرین و سامعین، قارئینِ کرام! *یہ کوئی افسانہ نہیں، کوئی روائیتی سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ نکیال سیز فائر لائن سیکٹر سے تعلق رکھنے والے دو نابالغ بچوں کی وہ سچی اور تشویشناک کہانی ہے جو ہمارے سرکاری نظامِ تعلیم کے منہ پر طمانچہ ہے، اور جس نے ریاستی دعوؤں، گڈ گورننس کے نعروں اور تعلیمی اصلاحات کے تمام خوشنما غبارے پھاڑ کر رکھ دیے* ہیں۔ کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں ہائر سیکنڈری اسکول ہٹلی، نکیال کے ذمہ داران نے ان بچوں کے والد کو یہ کہہ کر مسجد بھیجنے سے روک لیا کہ بچوں کو اسکول میں داخل کروائیں، کیونکہ اسکول کو بچوں کی تعداد پوری کرنی تھی۔ ایک محنت کش باپ، جس کی شریکِ حیات وفات پا چکی ہے، جس کا واحد سہارا مزدوری ہے، اس نے ریاستی نظام پر بھروسہ کیا اور بچوں کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ آٹھ سال تک یہ دونوں بہن بھائی اسکول جاتے رہے۔ والد پوچھتا رہا۔۔۔ بچے کیسے پڑھ رہے ہیں؟ اور جواب ملتا رہا۔۔۔۔ زبردست، ڈنڈا سروس ہے۔۔۔ ۔۔۔ یوں کرتے کرتے آٹھ برس گزر گئے۔ آٹھ برس بعد بچے پانچویں جماعت تک پہنچ گئے۔ لیکن پھر اچانک چند ماہ قبل وہ قیامت ٹوٹ پڑی جس نے نہ صرف ان بچوں بلکہ پورے تعلیمی نظام کو بے نقاب کر دیا۔ اسکول انتظامیہ نے ان دونوں بچوں کو پانچویں جماعت سے اٹھا کر قائدہ، یعنی نرسری کلاس میں بٹھا دیا۔ جی ہاں! آٹھ سال پڑھنے کے بعد… پانچویں جماعت تک پہنچنے کے بعد… انہیں دوبارہ نرسری میں دھکیل دیا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔ جب بچوں نے احتجاج کیا، پانچویں کا امتحان دینے پر اصرار کیا، تو انہیں زبردستی نرسری میں بٹھایا جاتا رہا۔ تب بچوں نے اپنے والد کو اصل حقیقت بتائی۔ والد نے ضلعی افسرِ تعلیم (D.O) کو درخواست دی۔ ڈی او نے ہیڈ ماسٹر کو مارک کیا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ خاموشی۔ مجرمانہ خاموشی۔ ۔۔۔۔ مایوس ہو کر والد نے کہا۔۔۔۔ کم از کم میرے بچوں کے داخلے کا اسکول سرٹیفکیٹ ہی دے دیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔ تو جواب آیا: “آپ کے بچے تو ہمارے اسکول میں داخل ہی نہیں ہیں! یہ جملہ صرف دو بچوں کا مستقبل نہیں روندتا، یہ ریاست کی پیشانی پر سیاہ دھبہ ہے۔طمانچہ ہے۔ کلنک ہے۔ ۔۔ اب سوال یہ ہے کہ۔۔ ان آٹھ سالوں کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے؟ پانچویں جماعت تک پڑھانے کے بعد نرسری میں واپس لانے کا جواز کیا ہے؟ اگر بچے نالائق تھے تو انہیں آٹھ سال تک کیوں رکھا گیا؟ نرسری سے پانچویں تک کس بنیاد پر ترقی دی گئی؟ کیا بچے پیدائشی طور پر نالائق ہوتے ہیں؟ نہیں۔۔۔ بچے سب لائق اور قابل ہوتے ہیں، نالائق نظام ہوتا ہے۔ ایسی کون سی وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر ان معصوم بچوں کا مستقبل تباہ کیا گیا؟ اور اگر مسئلہ تھا تو آٹھ سال تک انصاف کیوں نہ ہوا؟ نکیال کے حکمران طبقات کو اس نظام سے کیا لینا؟ ان کے بچے تو ایچی سن، بیورلی، اور مہنگے نجی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ سرکاری اسکول صرف غریب کے بچوں کے لیے ہیں ۔۔۔۔ اور شاید ان کی بربادی کے لیے بھی۔ یہاں تک کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے اپنے بچے بھی پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، اور سرکاری اسکولوں کے بچوں کا یہ حال کیوں ہے؟ کیا اس کا جواب کوئی دے گا؟ اب کچھ لوگ حسبِ معمول الزام والد پر ڈالیں گے: “والد کہاں تھا؟” تو سن لیجیے۔۔۔۔ والد اکیلا ہے، محنت کش ہے، مزدوری کرتا ہے، گھر اسکول سے چند گز کے فاصلے پر ہے، اور جب بھی اس نے پوچھا، اسے تسلی بخش جواب دیا گیا۔ اگر ادارہ جھوٹ بولے، دھوکہ دے، اور ریکارڈ ہی جعلی ہو تو ایک مزدور باپ کیا کر سکتا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ۔۔۔۔ ڈی او کو اطلاع دی گئی، اس نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ کیا ہیڈ ماسٹر اور متعلقہ اساتذہ کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے؟ کیا یہی پاکستانی زیرِ انتظام جموں و کشمیر کا سرکاری نظامِ تعلیم ہے؟ کیا یہی گڈ گورننس اور معیاری تعلیم کے دعوے ہیں؟ یہ کیس اب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کے پاس آ چکا ہے، اور ہم واضح، دو ٹوک اور غیر مشروط مطالبہ کرتے ہیں کہ۔۔۔ اس واقعے پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے آٹھ سالوں کی مکمل انکوائری اور محاسبہ کیا جائے تمام سرکاری اسکولوں کا ڈیٹا چیک کیا جائے ماہانہ کارکردگی رپورٹس شائع کی جائیں سرکاری اساتذہ پر حکمران طبقات کی انتخابی مہم چلانے پر پابندی لگائی جائے حکمرانوں اور اساتذہ کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کیا جائے طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کیا جائے تعلیم مکمل طور پر مفت کی جائے پرائمری، مڈل اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کا مکمل ڈیٹا عوام کے سامنے رکھا جائے چیک اینڈ بیلنس کا مؤثر نظام بنایا جائے تعلیمی مسائل، واش رومز کی کمی، اسٹاف کی قلت فوری طور پر دور کی جائے اور سب سے بڑھ کر۔۔۔۔ ان دو بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا فوری ازالہ کیا جائے۔ بصورتِ دیگر، جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال، ورثاء کو ساتھ لے کر بھرپور احتجاج کرے گی ۔۔۔۔ اور یہ احتجاج محض سڑکوں تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ ایوانوں تک جائے گا۔ یہ صرف دو بچوں کا مقدمہ نہیں، یہ پورے نظامِ تعلیم کا کٹہرے میں کھڑا ہونا ہے۔۔۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ۔ #RightsMovementAJK #AJKRightsmovement #shahnawazalisheradvocate #Admin #imtiazaslam #LongLiveResistance #عوامی_مزاحمت_زندہ_باد #OneSolutionSocialistRevolution #آواز_دو_ہم_ایک_ہیں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...