ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟ اظہار یکجتی
تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔
snsher02@gmail.com
آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔
پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ابھی تک ان اموات کی وجہ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
اس سنگین صورت حال میں، ہمیں سب سے پہلے بدھل گاؤں کے پسماندگان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے اور انہیں تسلی دینا چاہیے کہ ہم ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہمارا دل ان کے ساتھ ہے اور ہم ان کی تکالیف کو سمجھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی اموات ہو چکی ہوں اور 45 دن گزرنے کے باوجود ان کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ہو، تو کیا یہ حکومتی نااہلی، غفلت اور لاپرواہی کی عکاسی نہیں کرتا؟
معتبر ذرائع کے مطابق، یہاں تک کہ کیے گئے تمام ٹیسٹ اور نمونوں کی رپورٹس بھی منفی آئی ہیں، جس سے معاملہ اور زیادہ پراسرار ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے حکومتی اداروں کی غفلت اور نااہلی سامنے آتی ہے کہ وہ اس بیماری کی تشخیص اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی حکام
اس المیے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔

موجودہ دور میں سائنسی جدت نے بہت سے لاعلاج امراض کو بھی علاج کے قابل بنا دیا ہے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ اتنے دنوں سے اس پراسرار بیماری کی وجہ کا پتا نہیں چل سکا، تو ہمیں اس پر افسوس ہوتا ہے۔ اور یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی مدت گزر جانے کے باوجود، اس مرض کی اصل حقیقت سامنے نہیں آ سکی؟
ایک باپ جو اپنے پانچ کمسن بچوں کو دفن کر چکا ہے، اس کے دل پر کیا بیتی ہوگی؟ اور ان پسماندگان کے دکھ کا اندازہ ہم کیسے لگا سکتے ہیں؟ جب بیماری پراسرار ہو، اور لوگ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے دوسروں سے دور بھاگتے ہوں، تو ان حالات میں انسانیت کے حوالے سے کیا کوئی احساس باقی رہ سکتا ہے؟ ان بچوں کی اموات پر حکومتی نمائندوں کی جانب سے وزارتی دورے تو ہوئے، لیکن عملی اقدامات ابھی تک غیر موجود ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ اس معاملے کی غیر جانبدار تحقیقات کی جائیں اور محکمہ صحت کی غفلت پر ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس کے علاوہ، ہمیں آزاد جموں و کشمیر حکومت سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ اس مشکل گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بھرپور
یکجہتی کا اظہار کرے اور انہیں مدد فراہم کرے۔

ریاست جموں و کشمیر چاہے تقسیم ہو چکی ہو، لیکن اس کے 85806 مربع میل کے علاقے کے باشندے مشترکہ دکھ درد، خوشیاں اور غم رکھتے ہیں۔ ان میں احساس کا رشتہ ہے اور اس وقت ہم سب کو ان دکھوں میں برابر کا شریک ہونا چاہیے۔ اگر سیز فائر لائن کے پار سے اس طرف رکاوٹیں ختم کر دی جائیں، تو نہ صرف انسانیت کا رشتہ مضبوط ہو گا، بلکہ منقسم خاندانوں اور دلوں میں بھی یکجہتی کی ایک نئی لہر دوڑے گی۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان غم زدہ خاندانوں کو صبر دے اور جلد اس پراسرار بیماری کا علاج دریافت ہو۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں