*نکیال، زمین اور سرمایہ داری کا زہر ۔۔۔ دو حقیقی بھائیوں کا تنازعہ ۔۔۔ سماج کا آئینہ* ۔۔۔ *نکیال کے حکمران طبقات ، ہمارا آپ کا دخل، حقائق کیا ہیں۔ ایک سماجی تجزیہ* ۔
نوٹ:- ( *ہر بھائی ، بہن ، بیٹا، والد، خاندان ، رشتہ دار ، اہل نکیال لازمی یہ تحریر پڑھیں اور اس پر بحث مباحثہ* مکالمہ کریں)
تحریر: *شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ*
ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی
*گزشتہ دنوں سے نکیال میں دو سگے بھائیوں کے درمیان تنازعہ اراضی پر سوشل میڈیا پر جنگ جاری* ہے۔
*جس میں کنیڈین قومیت کے بھائی نے مقامی بھائی کی قائم کردہ چار دیواری کو بذریعہ تحصیل اسسٹنٹ کلکٹر مسمار کرای* ا ہے۔
*سوشل میڈیا پر متاثرہ بھائی نے موقف دیا ہے کہ وہ غریب ہے، اور اس کا بھائی کینیڈا میں ہوتا ہے بااثر، طاقتور اور اہلِ ثروت* ہے،
جس کی وجہ سے انتظامیہ سے ساز باز کر کے مسمار کیا گیا ہے۔
*اگرچہ یہ معاملہ دو سگے بھائیوں کا زمینی تنازعہ کی نوعیت کا ہے اور نجی ہے لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر یہ اب ایک سماجی ایشو بھی بن چکا* ہے۔
*یہ تحریر ان فریقین میں سے کسی حمایت یا مخالفت سے بالاتر ہو کر مرقوم کی جا رہی ہے۔ نہ ہی فریقین کے نام، سکونت، شناخت مرقوم* کی گئی ہے۔
کیوں کہ عوام میں اس واقعے کی حقیقت جاننے کے لیے رجحان ہے تاکہ عوامی ذہن سازی کے پیش نظر نئی راہوں کا تعین کیا جا سکے، طبقاتی جدوجہد کے لیے نئی صف بندیاں کی جا سکیں۔
راقم کی شنید میں آئی گئی معلومات کے مطابق اراضی خالصہ سرکار ہے جس پر سرکار کا حق ہے۔
*اگر واقعی اراضی خالصہ سرکار ہے تو پھر یہ اقدام قانونی ہے۔ لیکن اس میں اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ خالصہ سرکار پر تجاوزات کی شکایات کنیڈین بھائی نے کی ہوگی جس پر تحصیلدار صاحب نے تحتِ ضابطہ رپورٹ لی ہوگی اور اس کے بعد ضابطہ کے مطابق کارروائی کی ہو* گی۔
اگر واقعی ایسا ہی ضابطہ کے مطابق کیا گیا ہے تو پروسیجر کے مطابق تو یہ عمل بھی قانونی حیثیت رکھتا ہے۔
*اگر تحصیلدار صاحب نے یکطرفہ کارروائی کی ہے، مسئولان کو یعنی متاثرہ شخص کو بغیر سماعت کے نوٹس دیے بغیر، تعمیل کرائے بغیر ضابطہ کے خلاف کیا گیا ہے تو پھر یہ "نیچرل جسٹس" کے خلاف* ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فریقین کو پراپر سماعت کا معقول وقت دینا یہ انصاف کا بین الاقوامی، آئینی و قانونی حق ہے۔
اگر اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو یہ تو خلافِ قانون و ضابطہ ہے۔
*پھر آیا کہ اگر خالصہ کی اراضی پر دونوں پارٹیاں ہی قابض تھیں تو دونوں کا مسمار کرنا چاہیے تھا، یہی انصاف ہوتا ہے۔ انصاف کا مطلب برابر* ہوتا ہے۔
اب بھی متاثرہ شخص کے لیے بالا فورم سے ازالہ کی و دیگر قانونی چارہ جوئی موجود ہیں۔
قارئین کرام!
*جو آج بنیادی سوال ہے وہ یہ ہے کہ ایسی کون سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر ایک ہی ماں کے دو سگے یعنی حقیقی بھائی، جنہوں نے ایک ہی چھاتی سے ماں کا دودھ پیا، ایک کمرے میں رہے، ایک دوسرے کے کپڑے پہنے* ۔۔۔
*آج ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو چکے ہیں؟ یہ سوال ہے جس پر ہمیں غور کرنا* ہے۔
*یہ کوئی امریکہ، کینیڈا یا نکیال کوٹلی کی وجہ سے نہیں ہے۔ بنیادی طور پر معروف فلاسفر اور انقلابی رہنما کارل مارکس نے اس امر کو نظریۂ بیگانگی (Theory of Alienation) سے تعبیر کیا* ہے۔
*مارکس کے مطابق جب انسان سرمایہ، زمین، دولت اور جائیداد کو اپنی اصل انسانی ضرورتوں پر فوقیت دیتا ہے تو وہ اپنی انسانیت سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ انسان انسان* نہیں رہتا ۔۔۔
*وہ چیزوں کا غلام بن جاتا ہے۔ رشتے، احساسات، وفاداریاں سب سرمایہ کے تابع ہو جاتے ہیں۔*
*کہ مال و دولت، زمین و جائیداد کی ہوس لالچ کی وجہ سے ہے۔ اس کا سب کا کنکشن سرمایہ داری سے ہے۔ ہر انسان بس سرمایہ، مکان، مال و دولت سمیٹنے میں لگا ہوا* ہے۔
کہ مال و دولت ہی ہونا چاہیے۔ اسی سرمایہ داری نے آج ماں سے بیٹوں کو، بھائیوں سے بھائیوں کو، والد سے بیٹی بیٹوں کو ہی چھین لیا ہے۔
اسی نظریۂ بیگانگی کی ایک مثال ماں کی ممتا ہے۔ جو ممتا کے لیے پوری دنیا سے لڑ سکتی ہے اور غربت کی وجہ سے بھی پیار میں فرق نہیں پڑتا، لیکن یہی وہ سرمایہ داری ہے جس کی وجہ سے ماں اپنے بیٹوں میں سے ان کا زیادہ خیال رکھتی ہے جو سب سے زیادہ کماتا ہے۔
جو بیٹا کچھ بھی نہیں کماتا، اسے نکما یا نالائق تصور کیا جاتا ہے۔ ممتا بھی درجوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ نکما بیٹا سرمایہ نہیں لاتا تاکہ سرمایہ داری اس کا مزید استحصال کر سکے۔
پھر آج انہی زمین، جائیداد، مال دولت، شہرت، بیوی، زر کی لالچ نے سب کو تقسیم کر دیا ہے۔ یہ تیری، یہ میری ۔۔۔
حالانکہ زمین کسی کی ہونی ہی نہیں چاہیے۔
یہ ریاست کی ہونی چاہیے اور ریاست اس کو عوام کے مقاصد کے لیے استعمال کرے، مکانات خود بنا کر دے، زرخیز، جنگلات و دیگر اقسام میں تقسیم کرے۔
قارئین کرام! اس واقعے سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے جس کا اکثر ہم حکمران طبقات سے ذکر کرتے ہیں لیکن انہیں یہ مزاق لگتا ہے کہ نکیال میں ٹاؤن اینڈ ویلیج پالیسی دی جائے، پلاننگ کی جائے۔
ان حکمرانوں : چاہے وہ موجودہ تین وزارتوں کے وزیر ہوں یا سابقہ حکمران:
نے خود بھی اور اپنے ووٹ بینک کے لیے مافیا سے قبضے کروائے ہیں۔
نکیال
میں ان کی روایتی سیاست قبضے پر ہی مبنی ہے۔
کہ مکان جنگل میں بناؤں گا، آپ ووٹ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنگلات، خالصہ سرکار پر قبضے ہو چکے ہیں۔
خاندانی نظام بھی تباہی کے دہانے پر ہے جب بھائی رشتہ دار ایک دوسرے کے خلاف شکایات کریں گے تو پھر مسماری بھی ہوگی۔ جہاں کمزور، غریب، بے بس یا باغی ہو وہاں مسماری کر کے رپورٹ لگا دی جاتی ہے؛ جہاں بالادست ہوں وہاں قانون خاموش رہتا ہے۔
جب تک شہریوں کے رہائشی اور مواصلاتی نظام کو کسی حقیقی ماحول دوست پلاننگ میں نہیں لایا جائے گا، ایسے ہی نتائج آئیں گے۔
قارئین کرام!
نکیال انتظامیہ یا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں انصاف کی صورت حال بھی طبقاتی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ جہاں پارٹی طاقتور، مالدار، بااثر اور روایتی سیاسی جماعتوں کی چہیتی ہو ۔ وہاں قانون کا سانپ سونگھ جاتا ہے۔
اور جہاں مقابلہ غریب، مظلوم یا کمزور ہو ۔ وہاں قانون اس کا گلا ایسے کستا ہے جیسے دنیا کا سارا بوجھ اسی پر ہو۔
یہاں قانون، ادارے اور محکمے نکیال کے حکمران طبقات کے گھر کی لونڈی بن چکے ہیں۔
قارئین کرام!
اس واقعے میں عوام نے تحقیق کیے بغیر صرف کمزور ہونے کی وجہ سے حمایت کی اور سوشل میڈیا پر وائرل کیا کہ یہ غریب ہے اور مدمقابل پارٹی کینیڈا کی ہے۔
حقیقت میں سماج میں طبقے ہونے ہی نہیں چاہیے ۔ نہ امیر، نہ غریب۔ اسی لیے ہم ایک غیر طبقاتی سماج اور طبقے سے پاک نکیال کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
اگر جرم یا غلطی ہے تو وہ جس سے بھی ہو ۔حقیقت یہی ہے۔ امیر یا غریب ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی فریق کو ناانصافی یا زیادتی کا لائسنس دے دیا جائے۔
قارئین کرام! اس میں ایک پہلو موجودہ طبقاتی سماج کی موقع پرستی اور منافقت کا بھی ہے جس میں ہم سب شریک ہیں۔
ہم نے ان دونوں بھائیوں کو کبھی راضی کرنے کی کوشش کی؟ کبھی انصاف، مساوات اور رواداری کی طرف لائے؟ یقینا نہیں۔
ہم سماجی طور پر تماشائی ہیں، خودغرض ہیں، منافق ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پر ہی بھڑاس نکالتے ہیں کیونکہ اب ہمارے ہاتھ میں کچھ رہا ہی نہیں۔
کیوں؟
کیونکہ ہمارے سماج کا روایتی سیاسی ڈھانچہ تعصب، نفرت، تنگ نظری اور مفاد پرستی پر کھڑا ہے۔
لوگ علاقہ، برادری، لابنگ، ووٹ بینک کے لیے بھائیوں کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں، کشمکش بڑھاتے ہیں۔
روایتی جماعتوں کے کھڑپنچ خود فریق بن جاتے ہیں۔ اصل تنازعہ انا کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔ مسائل حل کرنے کے بجائے بگاڑ بڑھایا جاتا ہے۔
عوام کو چاہیے کہ روایتی سیاست اور دوسروں کی چپقلش اپنے گھروں سے دور رکھیں۔ اپنی حدود پہچانیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ نفرتیں کیسے پیدا ہوئیں؟ ان کے پیچھے تاریخ، محرکات، جذبات اور مفادات ہوتے ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم خود احتسابی کریں، غصہ قابو میں رکھیں، خاندان کے فیصلے مشاورت سے کریں، انا اور ضد سے نکلیں، ایثار اور محبت کو جگہ دیں۔
خاص طور پر نئی نسل کے لیے جو اس ڈیجیٹل دنیا میں سابقہ اقدار سے دور ہو رہی ہے۔ اسے واپس رشتوں اور سماجی ہم آہنگی کی طرف لانا ہوگا۔
قارئین کرام! اس واقعے میں اور بھی پہلو ہیں جن پر سوچنا چاہیے۔
لیکن اس نظام کا بنیادی ذمہ دار یہی حکمران طبقات ہیں جنہوں نے نکیال کے سماج کو آہستہ آہستہ زہر کی طرح اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔
اگر ہمیں انسانوں کی طرح رہنا ہے تو ہمیں مشترکہ جدوجہد کر کے نکیال کے سماج کو بدلنا ہوگا۔
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں