نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جواب شکوہ ۔۔ سابق وزیر حکومت سردار فاروق سکندر صاحب

سردار فاروق سکندر صاحب آپ کچھ پہلوؤں سے الگ ہیں یعنی منفرد ۔۔ان میں سے واحد یہ ہے کہ آپ لحاظ ، مروت ، لگی لپٹی کے بغیر حاضر ، غیر حاضر ،یا محفل میں جو ہو وہ کہہ دیتے ہیں ۔۔۔ ۔ اندر نہیں رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ پھر اتنا زیادہ ضد، انا، ہے دھرمی پر بھی نہیں جاتے ہیں ۔۔۔۔ ۔ نہ ہی اتنا زیادہ سنجیدہ کہ سمجھنے لگیں کہ آپ ناگریز ہیں ۔۔۔یہ سب کچھ آپ کی وجہ سے قائم دائم ہے ۔۔ کہ پوری دنیا نکیال کا کنبہ برادری کا ٹھیکہ سر پر لیں۔۔ لائف کو بھرپور انجوئے کرتے ہیں ۔۔ ۔ اس وجہ سے یہ آپ کی ادائیں قاتل ہیں۔۔ حسینہ ہیں ۔۔۔ راقم الحروف آپ کے یا موجودہ بڈھانوی صاحب کا کوئی ذاتی جانی یا ازلی مخالف یا متعصب نہیں ہے ۔۔۔ ۔ بس آپ نظام کا حصہ ہیں رہ چکے ہیں ۔ ۔۔۔ اس وجہ سے پوچھنا حق بنتا ہے ۔ ۔۔ نظریاتی اختلاف حق ہے ۔۔ دوسرا جناب والا ۔۔ آپ جواب تو دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ ۔جیسا کیسا ہو ۔۔ یہ خوشی ہوتی ہے کہ نکیال کے حکمران طبقات میں سے کوئی تو ہے جو سن ، پڑھ رہا ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔ جواب دے رہا ہے ۔۔۔۔ بحث مباحثہ مکالمہ کر رہا ہے ۔۔۔ ہمارے نزدیک یہ بھی ایک بڑا پہلو ہے۔۔۔ ورنہ نکیال میں ایسے حکمران بھی ہیں جنہیں پراوہ ہی نہیں ہے ۔۔۔ جناب والا راقم الحروف نے آپ کو جب وزیر تھے نہ ووٹ دیا ۔۔ ایک دو مرتبہ اتفاقیہ ملاقات ہوئی نہ کوئی ذاتی مطالبہ کیا۔ ۔۔ لیکن راقم الحروف نے آپ کو نکیال کا وزیر ، نمائندہ سمجھا ہے۔ بڈھانوی صاحب کو بھی سمجھتا ہوں ۔ اگرچہ ان کو ووٹ نہیں دیا نہ حمایت کرتا ہوں ۔۔۔ ہم آپ کے اچھے کاموں کی جو نیک نیتی پر عوامی اصول سہولیات ضروریات کے لیے ہوں گے ان کی حمایت کریں گے اور جو عوام قوم کے مفاد کے خلاف ہوں گے ان کی ڈنکے کی چوٹ پر مخالفت کریں گے ۔۔ ہم کسی انسان کے بارے میں ایک غلطی یہ کرتے ہیں کہ اس کے بارے میں یہ گمان رکھتے ہیں کہ ہم اس کو سمجھ سکتے ہیں ۔ ۔۔ میرے دوستو ساتھیو سے بھی اس پر یونیورسٹی لائف میں مکالمہ ہو چکا ہے ۔۔ یہ ایک غلطی ہے کہ جب ہم یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم کسی کو سمجھتے ہیں ۔۔ کسی وزیر کے اچھے اقدام کی نشاندہی کرنا۔۔۔۔۔ اس کی سیاست، جماعت یا اقتدار سے وفاداری نہیں ہوتی ۔۔۔۔ ۔جب میں نے بطور رپورٹر نکیال جوڈیشل کمپلیکس کی عمارت اور اُس وقت کے چند انتظامی اقدامات پر لکھا، تو وہ نہ کسی سیاسی قربت کا اظہار تھا، نہ کسی ذاتی مفاد کا نتیجہ، بلکہ صحافتی ذمہ داری تھی۔ راقم الحروف نے اس وقت جو لکھا جو محسوس کیا وہی لکھا ۔۔۔ ۔۔۔ میں نہ اُس وقت کسی حکومتی جماعت کا حصہ تھا، نہ آج ہوں۔ نہ میں نے کبھی کسی وزیر سے مراعات لیں، نہ اشتہار، نہ سفارش، نہ اسکیم، اور نہ ہی کسی انتخاب میں اُنہیں ووٹ دیا۔ جناب والا ! بدلا ہوا میں نہیں، حالات ہیں۔ بدلی ہوئی سیاست نہیں، حکمرانوں کی کارکردگی ہے۔ بدلی ہوئی جدوجہد نہیں، اقتدار کی حقیقت ہے۔نکیال بدل گیا ہے ۔ لاوارث ہو چکا ہے ۔ اگر آج میں سوالات اٹھا رہا ہوں تو اس لیے نہیں کہ میرے خیالات بدل گئے، بلکہ اس لیے کہ حکمرانوں کی پالیسیوں نے عوام کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ میری آج کی سیاست فرد واحد کے گرد نہیں، بلکہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی اُس ناقابلِ مصالحت جدوجہد کے ساتھ جڑی ہے ۔ جو مہنگائی، لوٹ مار، مراعات یافتہ طبقے اور ریاستی جبر کے خلاف ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ۔۔۔۔ یہ ذاتی لڑائی نہیں یہ منظم عوامی جدوجہد ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ المیہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر وہ شخص جو اقتدار سے باہر ہو، خود کو مظلوم اور ہر ناقد کو متلون مزاج قرار دیتا ہے، مگر اقتدار میں ہوتے ہوئے کبھی احتساب برداشت نہیں کرتا۔۔۔۔۔ میری جدوجہد نہ کسی سابق وزیر کے ذاتی طور پر حق میں تھی، نہ کسی موجودہ وزیر کے خلاف ذات و عناد پر ۔۔۔میری جدوجہد عوام کے حق میں ہے، اور رہے گی۔ میں نے کل بھی سچ لکھا، آج بھی سچ لکھ رہا ہوں، اور کل بھی سچ لکھوں گا۔۔۔۔ خواہ وہ کسی کے حق میں جائے یا خلاف۔ہم وہی تحریر کرتے ہیں وہ محسوس کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے ذہن پر نہیں چھائے حرس کے سائے ۔۔ انقلابی قلم کسی کا ذاتی رشتہ تعلق ، مفاد نہیں مانگتا، صرف عوام کے حق کا ساتھ دیتا ہے۔ پالیسیوں، وعدہ خلافیوں،عوام دشمن طرزِ حکمرانی پر سوالات اٹھائے جانے، ناقابل مصالحت جدوجہد کو آگے بڑھانے پر اگر ہمیں سمجھا جاتا ہے کہ ہم بدل گے ہیں۔۔ ۔۔سوال یہ ہے کیا غلط کو غلط کہنا بدل جانا ہے؟ کیا اقتدار میں بیٹھیں شخصیات سے جواب طلب کرنا جرم ہے؟ کیا تعریف کو ہمیشہ کے لیے وفاداری کی سند سمجھ لیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر مسئلہ میرا نہیں ۔۔ مسئلہ آپ کی سیاست کا ہے۔ میں آج بھی وہی ہوں نہ خریدا گیا نہ ڈرایا گیا نہ استعمال ہوا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب آپ کے پاس جواب نہیں اور میرے پاس سوال ہیں۔سوالات کا ایک لامتناعی سلسلہ ۔۔ میں نے قلم اس دن نہیں بیچا تھا جب تعریف لکھی تھی اور نہ آج بیچوں گا جب تنقید لکھ رہا ہوں۔ میری جدوجہد ناقابلِ مصالحت ہے کیونکہ یہ کسی شخص کے خلاف نہیں بلکہ ایک استحصالی، جواب دہی سے بھاگتی روائیتی سیاست، موجودہ نظام کے خلاف ہے۔ اگر اصول پر قائم رہنا اور طاقت سے سوال کرنا آپ کی نظر میں۔۔۔ بدل جانا۔۔۔ ہے تو ہاں، میں بدل گیا ہوں ۔۔۔ مگر صرف اتنا کہ اب خاموش نہیں رہتا۔ فیصلہ عوام کریں گے: بدلا کون ہے؟ وہ جو اقتدار میں جا کر وعدے بھول گیے ۔۔ یا وہ جو بغیر کسی مفاد کے آج بھی سوال اٹھا رہا ہے۔ قلم زندہ ہے اور سچ بولتا رہے گا۔ ایک کامریڈ، جو نہ بکا، نہ جھکا، اور نہ جھکایا جا سکا۔۔ بڑھے چلو کہ ڈیرے منزل پر ہی ڈالے جائیں گے ۔۔ اگر ایک کامریڈ کی بات کی جائے تو ۔۔ کامریڈ پھر کامریڈ ہوتا ہے ۔ انسان، خاص طور پر سیاسی اور انقلابی نوجوان (کامریڈ)، جامد نہیں ہوتا۔ وہ سیکھتا ہے، تجربہ کرتا ہے، حالات کا تجزیہ کرتا ہے، اور اپنے طریقِ کار میں تبدیلی لاتا ہے۔۔۔۔ مگر اپنے مقصد میں نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ روایتی سیاست دان اسے ۔۔ بدلا ہوا۔۔ کیوں کہتے ہیں؟ تو جواب ہے ، کیونکہ روایتی سیاست کو اطاعت چاہیے، شعور نہیں روایتی سیاست دان چاہتے ہیں نعرہ لگاؤ، سوال مت کرو قیادت مانو، تجزیہ مت کرو مفاد کی سیاست کرو، اصول کی نہیں۔۔۔ جب ایک کامریڈ سوال کرتا ہے، اختلاف کرتا ہے، یا نئی حکمتِ عملی اپناتا ہے تو انہیں لگتا ہےکہ یہ ہمارے قابو سے نکل گیا ہے۔ ۔وہ جس طرح نظام کو قابو کیے ہوتے ہیں تو یہی سمجھتے ہیں کہ انقلابی رجحان کو بھی قابو میں کر لیں گے ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ بدل گیا ہے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ کامریڈ کا بدلنا دراصل آگے بڑھنا ہوتا ہے انقلابی نوجوان وقتی جذبات سے نظریے کی طرف آتا ہے نعروں سے تنظیم کی طرف جاتا ہے ردِعمل سے منصوبہ بندی کی طرف بڑھتا ہے روایتی سیاست دان ۔۔۔ چونکہ خود وہیں کے وہیں کھڑے ہوتے ہیں، اس لیے جو آگے بڑھتا ہے وہ انہیں۔۔۔ بدلا ہوا۔۔۔دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ روایتی سیاست دان مفاد بدلنے کو تبدیلی سمجھتے ہیں روایتی سیاست میں پارٹی بدلنا۔۔۔ اسمارٹ سیاست موقف بدلنا۔۔۔۔ حالات کی مجبوری نظریہ چھوڑنا۔۔۔ دانشمندی اگر کوئی نوجوان۔۔ سمجھوتہ نہ کرے ضمیر نہ بیچے طاقت کے آگے نہ جھکے تو فوراً فیصلہ آتا ہے یہ تو بدل گیا ہے، پہلے جیسا نہیں رہا۔۔ پہلے ایسا تھا اب ایسا کیوں ہو گیا۔ یہ رویے راتوں رات نہیں بنے ہیں ۔۔ ان کے پیچھے اس طبقاتی سماج کی کشمکش ، استحصال جبر ہے۔۔ قارئین کرام ۔۔ جبر استحصال کے حالات کو دیکھنے کے بعد کیونکہ کامریڈ اب استعمال کے قابل نہیں رہتا۔۔۔ جب تک نوجوان۔۔۔ جلسوں میں ہجوم ہے نعرے کا ایندھن ہے قربانی دینے والا ہے۔۔ تب تک وہ ۔۔وفادار ہے۔ جس دن وہ پوچھے۔۔۔ فیصلہ کہاں ہوتا ہے؟ فائدہ کس کو مل رہا ہے؟ عوام کیوں محروم ہیں؟اپ اپنے احتساب دو ۔ کاکردگی کیا ہے ۔ سچ کیا ہے ۔ جھوٹ کیا ہے ۔۔ اسی دن وہ نافرمان اور پھر بدلا ہوا کہلاتا ہے۔ کامریڈ بدلتا نہیں۔۔۔ پختہ ہوتا ہے وہ نظریہ نہیں چھوڑتا، وہ نظریے کو سمجھ کر اپناتا ہے بدلتے وہ لوگ ہیں۔۔۔ جو کل آمریت کے ساتھ تھے۔۔۔ آج جمہوریت کے ٹھیکیدار ہیں کل عوام کے دشمن، آج عوام کے خیرخواہ ہیں۔۔۔ آپ کا شکریہ آپ نے مزید احساس دلایا کہ تم بدل گئے ہو۔۔۔ تو سمجھ مزید اور سمجھنا شروع ہو گے ہیں کہ ہم نے سوچنا شروع کر دیا ہے ہم نے مفاد سے انکار کر چکے ہو ہم اب صرف نعرہ نہیں، موقف ہیں ۔۔ کسی مفاد کے آج بھی سوال اٹھا رہا ہے۔ قلم زندہ ہے اور سچ بولتا رہے گا۔ ایک کامریڈ، جو نہ بکا، نہ جھکا، اور نہ جھکایا جا سکا۔۔ بڑھے چلو کہ ڈیرے منزل پر ہی ڈالے جائیں گے ۔۔ آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ آپ کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں ۔۔ بہت خوشی ہوئی ہے کہ نکیال میں ایسا روائیتی سیاست دان بھی ہے جو تھوڑا بہت ہماری طرح آزاد سوچتا ہے ۔۔ اچھی لگے یا بری بول دیتا ہے ۔۔ ۔۔ کامریڈ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ۔۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی #RightsMovementAJK #AJKRightsmovement #shahnawazalisheradvocate #LongLiveResistance #Admin #آواز_دو_ہم_ایک_ہیں #عوامی_مزاحمت_زندہ_باد #imtiazaslam

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...