*نکیال میں قانون نہیں، طاقتوروں کی مرضی چل رہی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ پھیری والوں کو اس لیے جانتی ہے کہ وہ ان سے ہفتہ وار اور ماہانہ بھتہ وصول کرتی ہے۔ دفعہ 144 ضابطہ فوجداری صرف کاغذوں کی حد تک زندہ ہے، عملی طور پر نکیال میں اس کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اگر ریاست واقعی ریاست ہے تو ڈپٹی کمشنر کوٹلی فوراً نکیال میں بالوں کی خرید و فروخت پر دفعہ 144 نافذ کرے، بصورت دیگر یہ مان لیا جائے* کہ *انتظامیہ اس گھناؤنے دھندے کی سرپرست ہے۔*
*شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ* ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی
نکیال میں خواتین کے بالوں کی خرید و فروخت صرف ایک غیر اخلاقی کاروبار نہیں،
یہ خواتین کی عزت، گھریلو حرمت اور سماجی تحفظ پر براہِ راست حملہ ہے
۔ ہم واضح اعلان کرتے ہیں کہ نکیال میں یہ دھندہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اگر آج کے بعد ایک بھی کیس سامنے آیا تو اسسٹنٹ کمشنر آفس اور تحصیلدار آفس کے باہر ایسا عوامی احتجاج ہوگا کہ دفاتر کی دیواریں بھی گواہی دیں گی۔
نکیال کا کچرا اٹھا کر ان دفاتر کے سامنے پھینکا جائے گا، تاکہ حکمرانوں کو آئینہ دکھایا جا سکے کہ انہوں نے اس شہر کو کس گندگی میں دھکیل دیا ہے۔
نکیال اس وقت بدترین لاقانونیت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی شروع دن سے مطالبہ کرتی آ رہی ہے کہ چاہے ریاستی ہوں یا غیر ریاستی، سب پر گھروں میں جا کر پھیری لگانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے
۔ ہم نے کئی ماہ پہلے یہ خطرناک انکشاف کیا تھا کہ نکیال میں عورتوں کے بال ہزاروں روپے میں فروخت ہو رہے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ درندگی کی انتہا ہے کہ اب عورت کے جسم کے حصے بھی منڈی میں تولے جا رہے ہیں۔
یہ کوئی عام علاقہ نہیں، یہ سیز فائر لائن کا حساس خطہ ہے۔
یہاں ہر دوسرے گھر کے مرد بیرونِ ملک محنت مزدوری پر ہیں، گھروں میں خواتین اور بچے تنہا ہیں۔ ایسے ماحول میں پھیری کے نام پر گھروں میں داخل ہونا،
دراصل عورتوں کو ہراساں کرنے کا کھلا لائسنس ہے۔
پہلے ہی سوشل میڈیا اور موبائل فون کے ذریعے خواتین کو بلیک میل کرنے کے کیسز سامنے آ چکے ہیں، اور اب بالوں کا دھندہ اس ظلم میں مزید ایندھن ڈال رہا ہے۔
نکیال کے کچھ علاقوں میں جادو ٹونے کے الزامات عام ہیں۔ خواتین کے بال، قبروں کی مٹی اور توہمات کو بنیاد بنا کر عورتوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
اگر کسی عورت کے بال اٹھا کر بعد میں اسے کہا جائے کہ تم پر جادو ہو گیا ہے، یہ کرو وہ کرو، تو یہ سیدھی سیدھی بلیک میلنگ ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس جرم کی ذمہ داری کون لے گا؟ پولیس؟ انتظامیہ؟ یا وہ افسران جو بھتہ لے کر خاموش بیٹھے ہیں؟
خواتین کی شکایات موجود ہیں کہ غیر ریاستی عناصر گھروں کے باہر سے بال زبردستی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔
جب پھیری پر پابندی ہے تو یہ لوگ نکیال میں داخل کیسے ہوتے ہیں؟ جواب سب کو معلوم ہے۔ نکیال پولیس کے نو ڈیوٹی اہلکار ان سے ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہیں،
پھر دکھاوے کے لیے کبھی کبھار کیس بنا کر جرمانہ کر دیتے ہیں۔ یوں پولیس اور انتظامیہ نے لوٹ مار، تذلیل اور خوف کا ایک باقاعدہ کاروبار قائم کر رکھا ہے۔
ہم صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ اس تماشے کے ذمہ دار ایس ایچ او، متعلقہ افسران اور انتظامی سربراہ ہیں۔ اگر وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں تو عوام بھی اب خاموش نہیں رہیں گے۔
نکیال موہڑہ دھروتی ایکشن کمیٹی کے ممبر نے ایک شخص کو بالوں سمیت پکڑ کر تھانے کے حوالے کیا ہے۔
یہ ایک فرد کا عمل نہیں، یہ عوامی بغاوت کا ابتدائی اعلان ہے۔
نکیال کے نوجوانوں، خصوصاً بیرونِ ملک مقیم افراد کو کھلا پیغام ہے۔
اپنی گھریلو خواتین کو ان پھیری والوں سے دور رکھیں۔ نہ انہیں گھروں میں آنے دیں، نہ محلے میں برداشت کریں، نہ بال فروخت کریں۔ جو لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یہ پردیسی مزدور ہیں، ان سے پوچھا جائے کہ کیا محنت مزدوری کا مطلب لوگوں کے گھروں میں گھسنا، خواتین کو پریشان کرنا اور عزت کا سودا کرنا ہے؟
ہم نکیال کے مقامی لوگ ہیں، سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں، ہم نہ کسی کے کچن میں گھستے ہیں، نہ بال خریدتے ہیں، تو یہ کون سا حق ہے جو ان کو دیا گیا ہے؟
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ نکیال کے نوجوان بعض معاملات پر فوراً غیرت دکھاتے ہیں، مگر جب خواتین کے تحفظ، وقار اور گھریلو حرمت کی بات آتی ہے تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اب یہ خاموشی ٹوٹے گی۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال آخری بار انتظامیہ کو خبردار کرتی ہے۔
اگر آج کے بعد نکیال میں بالوں کی خرید و فروخت کا ایک بھی واقعہ سامنے آیا تو اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلدار آفس کے سامنے ایسا عوامی ردعمل ہوگا جو یاد رکھا جائے گا۔
*یہ محض احتجاج نہیں ہوگا، یہ اس نظام کے خلاف عوامی بغاوت ہوگی جو عورت کی عزت کو بھتہ خوری کی نذر کر چکا ہے۔*
ختم شد ۔۔
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں