*نکیال ، انتظامیہ ، ٹریفک پولیس ، حکام اپنا رویہ بدلیں ۔ قانون کو سب کے لیے برابر کریں ۔ انتقامی کارروائیوں سے باز رہیں۔ نکیال میں اس وقت جو کچھ ٹریفک پولیس اور انتظامیہ کے نام پر ہو رہا ہے، وہ قانون کی عملداری کم اور طاقت کے غلط استعمال کی واضح مثال زیادہ ہے* ۔
*عوام، خاص طور پر نوجوانوں اور محنت کش ٹرانسپورٹرز کو جان بوجھ کر تنگ کرنا، جبکہ اصل بااثر طبقات اور ان کے منظورِ نظر افراد کو کھلی چھوٹ دینا، اسی دوہرے معیار کی نشاندہی کرتا ہے جس نے نکیال کو ایک اندھیر نگری بنا دیا ہے* ۔
*شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ہائی ، ممبر* جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی
آج نکیال انتظامیہ اور ٹریفک پولیس نے محمد راشد نامی ایک نوجوان کیری ڈبہ ڈرائیور کی نمبر پلیٹ توڑ دی۔
نوجوان کا کہنا ہے کہ اسے نہ تو پہلے آگاہ کیا گیا، نہ نوٹس دیا گیا، نہ کوئی قانونی طریقہ کار اپنایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنا ہے تو کیا طریقہ یہی ہے کہ سیدھا توڑ پھوڑ کر دی جائے؟ یا قانون کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے اطلاع دی جائے، مہلت دی جائے، اور سب کے لیے ایک ہی پیمانہ رکھا جائے؟
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہی نوجوان ان ٹرانسپورٹرز میں شامل تھا جنہوں نے انتیس ستمبر کی کال پر اپنی کیری ڈبہ کو سجا کر،
*بند مطلب بند* کا پینا فلیکس لگا کر، جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کارروائی محض اتفاق ہے یا پھر اس حمایت کا بدلہ؟ اگر قانون واقعی اندھا ہے تو پھر وہ صرف ان نوجوانوں اور مزدوروں کو ہی کیوں نظر آتا ہے جن کے پاس نہ پروٹوکول ہے نہ سفارش؟
اگر مسئلہ غیر قانونی نمبر پلیٹس، کالے شیشے یا دیگر خلاف ورزیاں ہیں تو نکیال میں ایسی گاڑیوں کی کوئی کمی نہیں جن پر مختلف برادریوں، خاندانوں یا حکمران طبقات کے نام فخر سے لکھے ہوتے
ہیں۔
کتنی گاڑیاں ہیں جن پر موجودہ اور سابقہ حکمرانوں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی روایتی سہولت کار قیادت کے بڑے بڑے پینا فلیکس آویزاں ہیں۔
ان
پر قانون کیوں خاموش ہو جاتا ہے؟ ان کے شیشے کیوں سلامت رہتے ہیں اور ان کی نمبر پلیٹس کیوں نہیں ٹوٹتیں؟
موازنہ صاف ہے۔
ایک طرف عام عوام، مزدور، نوجوان اور ٹرانسپورٹر ہیں جن پر قانون بجلی بن کر گرتا ہے، اور دوسری طرف وزراء، مشیر، سہولت کار،
منشیات فروشوں
کے سرپرست اور بااثر لوگ ہیں جن کی گاڑیاں دیکھ کر وردی والے سلیوٹ مارتے ہیں، راستہ دیتے ہیں اور پروٹوکول فراہم کرتے ہیں۔ یہ کیسا قانون ہے جو طاقتور کے سامنے جھک جاتا ہے اور کمزور کی گردن دبوچ لیتا ہے؟
*جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال یہ سوال بھی اٹھاتی ہے* کہ روزانہ اور ماہانہ بنیاد پر کتنے چالان کیے جاتے ہیں، یہ رقم کہاں جمع ہوتی ہے، طریقہ کار کیا ہے، اور اس جمع شدہ رقم میں سے کتنا حصہ نکیال کی عوام، ٹریفک نظام کی بہتری اور فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے؟
اگر
اس کا کوئی شفاف جواب نہیں تو پھر عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آیا یہ ٹیکس ہے یا محض بھتہ خوری۔
آن لائن
ٹیکس کے نام پر ایک نیا تماشا رچا کر غریبوں اور مزدوروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے، جبکہ سہولت کار طبقہ حسبِ معمول محفوظ ہے۔
*انتظامیہ اور حکومت کا کام صرف چالان کاٹنا نہیں۔ اگر واقعی نکیال میں قانون اور نظم و ضبط مطلوب ہے تو پارکنگ فراہم کی جائے،
تجاوزات*
کا
خاتمہ کیا جائے، شہر کو صاف ستھرا رکھا جائے، عوامی سہولیات مہیا کی جائیں۔ نکیال میں کتنی چوریاں ہوئیں، کتنے چور پکڑے گئے، گاڑی چوری کے خلاف کتنا مؤثر کریک ڈاؤن ہوا، منشیات فروشوں کے خلاف کیا حقیقی کارروائی کی گئی؟ چند
ایک
چرس کے کیس پکڑ کر روایتی صحافیوں کے ذریعے تصویریں لگوا دینا آسان ہے، مگر اصل اور بڑے منشیات فروش آج بھی بے خوف گھوم رہے ہیں۔
نکیال شہر کو ٹریفک پارکنگ، پبلک پارکوں کی بحالی، واش رومز، کیمرے، اسٹریٹ لائٹس اور تجاوزات سے پاک سڑکوں کی ضرورت ہے۔
*فوجی فاؤنڈیشن اسکول کا پبلک پارک پر قبضہ ختم کرانا بھی انتظامیہ کی ذمہ داری* ہے۔ قانون اگر ہو تو امیر اور غریب سب کے لیے ایک ہو، ورنہ یہ قانون نہیں، مذاق ہے۔
پرچیوں
پر چالان کا دور اب ختم ہونا چاہیے، جو بھی چالان ہو وہ میرٹ پر ہو اور بینک میں جمع ہو، نہ کہ موقع پر طاقت کا مظاہرہ کر کے۔
الیکشن آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے۔ پہلے بھی یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ کتنی بااثر گاڑیوں کے کالے شیشے توڑے گئے، کتنے سیاسی پینا فلیکس ہٹائے گئے؟
جواب
سب کے سامنے ہے۔ اسی ناانصافی کے خلاف جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال جدوجہد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔
ہم
قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، انتقامی کارروائیوں کو بے نقاب کریں گے اور ناکام بنائیں گے، اور
عوام کے حق میں آواز بلند کرتے رہیں گے، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ختم شد۔ ۔۔
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں